زبان اور ہماری شناخت

نیلسن منڈیلا نے ایک بار کہا تھا کہ اگر آپ کسی سے ایسی زبان میں بات کریں جو وہ سمجھتا ہو تو وہ بات اس کے دماغ تک جائے گی ،لیکن اگر آپ اس کی مادری زبان میں بات کریں تووہ سیدھی اس کے دل تک پہنچے گی۔عالمگیریت کے اس دور میں جہاں ہزاروں لوگ جنگوں ، معاشی بدحالی ، بے رو زگاری اور تعلیم کے اعلیٰ مواقعوں اور بہتر طرز زندگی کی تلاش میں ترقی یافتہ اور محفوظ ممالک کا رخ کر رہے ہیں وہیں یہ ہجرت ان کی مادری زبان پر اپنے اثرات مرتب کر رہی ہے۔

زبان صرف الفاظ کا مجموعہ نہیں ہوتی بلکہ یہ فرد کو اسکے خاندان، شناخت، ثقافت، موسیقی، سماجی اقدار،عقائد اور دانش سے جوڑتی ہے۔ زبان، ایک جانب تاریخ، تہذیب، روایات، رسومات اور ثقافتی ورثے کو ایک نسل سے دوسری نسل میں منتقل کرنے کاکام سر انجام دیتی ہے وہیں ثقافت کا زبان کے بغیر پنپنا ممکن نہیں ہوتا اور اسی لیے زبان ہی ہماری ا صل شناخت قرار پاتی ہے۔

مادری زبان کا فرد کی شخصیت سازی پر انتہائی گہرا اثرہوتا ہے اور یہ اس کی نفسیاتی نشونما، سوچ اور جذبات کو جلا بخشتی ہے۔ بچپن ہماری زندگی کا ایک انتہائی یادگار دور ہوتا ہے اور مادری زبان میں سکھائے گئے ہنر اور کھیل بچوں کے اذہان میں زندگی بھر کے لیے محفو ظ ہوجاتے ہیں۔ متعد د ماہرین نفسیات کا یہ ماننا ہے کہ مادری زبان ایک بچے یا بچی اور اسکے والدین خصوصاً ماں کے ساتھ اسکے پیار، محبت، وارفتگی اورتعلق میں بہترین معاون اور ممدوع ثابت ہوتا ہے۔

معروف ماہر تعلیم ہوریسا گورسن کا کہنا ہے کہ جب فرد اپنی مادری زبان میں بات کرتا ہے تو دل، دماغ اور زبان میں ایک براہ ر است تعلق قائم ہوجاتا ہے۔ مادری زبان کا استعمال ہماری شخصیت، کردار، اخلاق ، شرم و حیا، خامیوں اور خو بیوں سمیت تمام مخفی اوصاف کو حقیقی معنو ں میں ابھارتا ہے اوراس کی آواز ہماری سماعت اور دل میں ایک یقین اور اعتماد پیدا کرتی ہے۔ یونیسکو کی ڈائریکٹر جنرل ایرینا بوکووا کا کہنا ہے کہ مادری زبانیں ہماری اس کثیر اللثانی دنیا میں جہاں معیاری تعلیم میں ایک کلیدی حیثیت رکھتی ہیں وہیں عورتوں،مردوں اور معاشروں کو باختیار بنانے کی بنیاد ہیں۔

نئی زبانیں سیکھنا نہ صرف ذہنی نشو نما کے لیے ممدوع ثابت ہوتا ہے وہیں یہ زندگی میں اگے بڑھنے کے لیے نئے مواقع فراہم کرتا ہے۔نئی زبان ہمیں دنیا کے بارے میں جہاں ایک مختلف نکتہ نظر فراہم کرتی ہے وہیں ہمیں نئی ثقافت، طرز زندگی، رسم ورواج اور عقائد جاننے کا موقع بھی ملتاہے۔

ایک اندازے کے مطابق پاکستان کے 20کروڑ عوام اردو اور انگریزی سمیت 72مختلف صوبائی اور علاقائی زبانیں بولتے ہیں۔ ان 72زبانوں میں سے10زبانیں ایسی ہیں جو اب معدوم ہوتی
جارہی ہیں۔ پاکستان کے چاروں صوبوں میں علاقائی زبانیں بولی جاتیں ہیں تاہم سندھی زبان کے علاوہ کسی زبان کو سرکاری حیثیت حاصل نہیں ہے۔

زبانوں کی زندگی میں سب سے اہم کردار اہل زبان کا ہوتا ہے تاہم ریاست کے لیے ضروری ہے کہ وہ سماجی اور سیاسی ماحول کو سازگار بنائے تاکہ کثیر اللثانیت کو فروغ ملے اور اقلیتی زبانوں کو عزت واحترام کی نگاہ سے دیکھا جائے۔ ملک میں جہاں اقلیتی زبانوں کو تسلیم کرنے اور محفوظ بنانے کے لیے قانون سازی کی ضرورت ہے وہیں مادری زبان میں نظام تعلیم کو فروغ دینے اور سماجی کارکنوں اور ماہرین لسانیات کے مابین تحریری نظام کوبہتر بنانے اور ان زبانوں میں رسمی ہدایات کو متعارف کروانے کے لیے تخلیقی معاونت کی بھی ضرورت ہے۔

لوک ورثہ، مادری زبانوں کے حوالے سے اپنا ایک منفرد اور واضح موقف رکھتا ہے اور پاکستان میں بولی جانے والی تمام ہی زبانوں کو قومی زبان کا درجہ دیتا ہے۔ گذشتہ 2برسوں سے لوک ورثہ انتہائی تندہی سے مختلف ثقافتوں اور مادری زبانوں کے فروغ کے لیے کام کر رہا ہے۔ اقوام متحدہ کی جانب سے مادری زبانوں کے عالمی دن کے موقع کی مناسبت سے18اور19فروری2017کواسلام آباد میں "ہماری زبانیں، ہماری شناخت”کے عنوان سے ایک میلے کا انعقاد کیا جارہا ہے جس میں 150سے زائد ادیب، شاعر اور ثقافتی کارکن پاکستان میں بولی جانے والی ما دری زبانوں کو پیش کریں گے۔ یہ میلہ جہاں پاکستان کی کثیر اللثانی اور ثقافتی تہذیبوں کو جاننے کا ایک نادرموقع فراہم کرے گا وہیں میلے میں موسیقی کے علاوہ مختلف زبانوں میں مشاعرے اور شعرائے اکرام کے ساتھ گفتگو کے متعددسیشن رکھے گئے ہیں۔

میلے کے انعقاد کا مقصدنہ صرف پاکستان کی لسانی اور ثقافتی اقدار کو فروغ دینا ،ملک میں سماجی ہم آہنگی ، امن اور برداشت کو پروان چڑھانا بلکہ نئی نسل کو ان زبانوں میں ہونے والے ادبی کاموں سے بھی روشناس کروانا ہے۔ لوک ورثہ، گذشتہ دو سالوں سے بچوں کے لیے سمر کیمپس منعقد کر رہا ہے جہاں بچوں کو علاقائی زبانوں سے روشناس کروانے کے ساتھ ساتھ ان کوہماری اس کثیر الثقا فتی دنیا میں موجود منفرد اور اقلیتی زبانوں سے واقف کرایا جاتا ہے۔اسی سلسلے میں لوک ورثہ مختلف علاقائی نمائشوں کے زریعے علاقائی زبانوں میں موسیقی کو بھی فروغ دے رہا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ تمام علاقائی زبانوں کو قومی زبان کا درجہ دے کر ان کے بولنے والوں کو قومی دھارے میں شامل کیا جائے۔ اگر ہم اپنی عوام کو با اختیار بنانا چاہتے ہیں تو ہمیں انکو مادری زبان میں گفتگو کے مواقع فراہم کرنے چاہیں تاکہ ان کا احساس محرومی دورکیا جاسکے ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے