ایوان بالا کا باغی

باغی بھلے دل کو کتنے ہی برے لگیں پھر بھی بھلے لگتے ہیں۔ ہماری سیاست میں بھی کئی باغی ہیں ایک باغی نے تو "ہاں میں باغی ہوں”نامی کتاب بھی لکھ ڈالی ہے جس باغی کا میں ذکر کرنے جارہاہوں کتاب تو انہوں نے بھی Invisible People کے نام سے لکھی ہے لیکن ان کی بغاوت اس لحاظ سے منفرد اور جداگانہ ہے کہ وہ پاکستان کے صدر ممنون حسین دوم بھی ہیں ۔جی جناب صدر ممنون کے عمرے اور مختلف ملک کےدوروں کی صورت میں جو آئینی شخصیت قائم مقام صدر کی ذمہ داریاں سنبھالتی ہے وہ چیئرمین سینیٹ رضا ربانی کی جلیل القدر جمہوری شخصیت ہے۔

یہ وہی رضا ربانی ہیں جن کے والد ایئر کموڈور (ر) عطا ربانی مرحوم ہیں اور وہ بانی پاکستان محمد علی جناح کےپہلے ایئر اے ڈی سی تھے،رضا ربانی پیپلز پارٹی کے تجربہ کار اور گھاگ سیاستدان ہیں نیئر حسین بخاری اور فا روق ایچ نائیک کے بعد وہ پیپلز پارٹی کےمسلسل تیسرے چیئرمین سینیٹ ہیں۔انہوں نے سینیٹ کےسربراہ کی حیثیت سے 12 مارچ 2015 کو عہدہ سنبھالا 1973 کے دستور کے مطابق وہ سینیٹ کے ساتویں سربراہ ہیں ۔

سر کے قدرےلمبے بالوں کی ربڑ بینڈ سے پونی بنانے والےرضا ربانی ملک کی جمہوریت کو بھی کسی ربڑ بینڈ کی طرح لمبا کرنا چاہتے ہیں ان کی جمہوریت دوستی اور آمریت دشمنی کسی سے پوشیدہ نہیں وہ کرسی پر ہوں تو اس کی پروا نہیں کرتے اور کرسی پر نہ ہوں تو کرسی لینے کی انہیں پروا نہیں ہوتی جو دل اور دماغ میں آئے کہہ دیتے ہیں ۔ٹرمپ کے امریکا نے پچھلے دنوں ہمارے ڈپٹی چیئرمین سینیٹ مولانا عبدالغفور حیدری کا ویزا نہیں لگایا تو رضا ربانی اس پر جلال میں آ گئے اور معاملے کا نوٹس لیتے ہوئے امریکا میں ہونے والے بین الپارلیمانی مباحثہ میں پاکستانی وفد کا ناصرف دورہ منسوخ کروایا بلکہ یہ بھی کہا کہ جب تک امریکی سفارت خانہ اس کی وضاحت نہیں کرتا امریکا سے تعلقات معطل رہیں گے نہ ہم سے کوئی وہاں جائے گا نہ وہاں سے آنے والے کسی وفد ،سینیٹر کو ایوان بالا میں خوش آمدید کیاجائے گا۔

اچنبھے کی بات ہے کہ امریکی سفارت خانے نے ن لیگ کے لیفٹینٹ جنرل(ر) سینیٹر صلاح الدین ترمذی کو تو ویزا جاریکردیا لیکن ہمارے جے یو آئی کے دوست کو ناراض کرگئے ۔شاید اس کی وجہ قومی اسمبلی میں مولانا فضل الرحمان کی وہ تقریر ہو جس میں انہوں نے امریکی صدر ٹرمپ کی مسلم دشمنی پالیسیوں پر سخت تنقید کی تھی چونکہ مولانا خود بھی واشنگٹن کے مہربانوں کی گڈ بک(Good Book) میں نہیں ہیں اس لئے ان کی جماعت کے رہمناؤں پر بھی امریکا یاترا بند کردی گئی، جس پر مولانا تو کچھ نہ بولے ہمارے دبنگ چیئرمین سینیٹ کو یہ بات انتہائی اشتعال انگیز اور غیر مناسب لگی اور انہوں نے روایت سے ہٹ کر مذکورہ فیصلہ کیا ۔

رضا ربانی کی سپر پاور کے خلاف یہ کوئی پہلی بغاوت نہیں گزشتہ سال جولائی میں ایوان بالا کی کارروائی کے دوران انہوں نے مشیر خارجہ سرتاج عزیز کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ارکان کانگریس کا بیان پاکستان کی قربانیوں کی توہین ہے امریکا کو بتادیں کہ حکومتی تعلقات میں بہتری کی راہ میں روڑےنہیں اٹکانے چاہتے لیکن پارلیمان کو بھی امریکی ارکان کے پاکستان مخالف ریمارکس قبول نہیں ۔ پاکستان کو بدنام کریں گے تویاد رکھیں کہ آپ بھی شیشے کے گھر میں بیٹھے ہیں ادلے کا بدلہ ہو گا جان مکین اور ان کے ساتھی جانتے ہیں کہ کل کے جہاد ی آج کے دہشت گرد کیسے بنے؟12 مارچ 2016 کو اسلام آباد میں ایک بین الاقوامی ورکشاپ کے شرکا سے خطاب میں بھی ان کا لہجہ اہل مغرب کےلئے کافی سخت تھا ۔

وطن پرستی سے اگر جمہوریت پرستی کی طرف آئیں تو اس میدان میں بھی چیئرمین صاحب کے خیالات منفرد اور مہمیز ہیں ان کی ساری زندگی چونکہ تشدد اور آمریت کے خلاف لڑتے ہوئے گزری ہے ضیا دور ان کے لئے ابتلا کا تھا ۔اکتوبر 2016 میں جیو نیوز کے پروگرام کیپٹل ٹاک میں گفتگو کرتے ہوئے رضا ربانی کا کہنا تھا کہ آصف زردای کا بطور صدر نوازشریف سے وزارت عظمیٰ کاحلف لینا پاکستان کی جمہوری تاریخ کا لازوال باب ہے ۔آرٹیکل 6 بے کار ہو چکا ہے جمہوری نظام کو اس وقت بچایا جا سکے گا جب عوام پارلیمنٹ کو اپنی امنگوں کی ترجمانی کرتے دیکھیں گے اگر ہماری جمہوریت مضبوط ہو چکی ہوتی تو مشرف کو آرٹیکل چھ کے تحت سزا بھی ہوچکی ہوتی۔

3اپریل 2016کو گڑھی خدا بخش میں پی پی رہنماؤں کی قبروں پر حاضری کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے رضا ربانی کے الفاظ تھے” پرویز مشرف کے جانے سے آرٹیکل 6جمہوریت کے دفاع میں ناکام رہا ہے اگر آرٹیکل 6 ہی مقصد ہے تو اسے نکال کر آئین کا بوجھ کردینا چاہئے۔آرٹیکل6 اور بے نظیر بھٹو کے قتل کے ملزم کو ملک سے جانا دینامذاق ہےلاہور ہائی کورٹ آرٹیکل 4 یاد رکھتی تو عدالتی قتل نہ ہوتا”۔

پیپلز پارٹی چونکہ 73 کے دستور کی خالق جماعت ہے اس لئے بھی اسے اپنی اس آئینی تخلیق کی حفاظت کی زیادہ فکر ہے ۔12 اپریل 2016 کو اسلام آباد میں یوم دستور کی تقریب میں رضا ربانی صاحب بھی موجود تھے ۔اپنےخطاب میں ان کا کہنا تھا کہ 1973 کے آئین میں ترمیم یا بنیادی تبدیلیوں کی کوشش کی گئی تو ہمالیہ روئے گا اور اس کے اشکوں سے آنے والا سیلاب وفاق کو دی گئی حدود کو کہیں تبدیل ہی نہ کردے ۔آئین کو کاغذ کا ٹکڑا سمجھنے والے تاریخ اور حالات پر نظر کر رکھیں۔

رضاربانی صاحب چونکہ مضبوبط سیاسی نظام اور جماعتوں کے حامی ہیں اس لئے اسٹیبلشمنٹ سے متعلق ان کو کبھی بین السطور تو کبھی دبنگ انداز میں کہنا پڑتاہے ۔31 جنوری کا اسلام آباد میں اردو شاعری میلے میں انہوں نےدبے لفظوں میں احتجاج کرتے ہوئے کہا کہ لوگ غائب ہو جاتے ہیں اور میرے سمیت کوئی بھی سوال کرنے کی ہمت نہیں کرتا ،معاشرے کو اتنا خوف زدہ کر دیا گیا ہے کہ فیض ،جالب اور پروین شاکر جیسے شعرا کا ہم متبادل نہیں لاسکے اور ریاست ایسی پالیسی اختیار کرچکی ہے جس نے ادب،دانش اورشاعری کے کلچر کو قتل کردیا ہے ۔اس سے پہلے نومبر میں ایک سیمینار میں ان کا کہنا تھاکہ راولپنڈی سے اختیارات اسلام آباد منتقل ہونے میں وقت لگے گا۔

سول اور ملٹری بیوروکرسی نے ملک کو سوشل سے سکیورٹی اسٹیٹ بنا دیا ہے ،منصوبے کے تحت سیاست دانوں اور پارلیمنٹ کو بدنام کیا جا رہا ہے،جمہوریت سوئچ نہیں کہ جسے وقتاً فوقتاً آن آف کیا جائے اور اگر اس باغی کے پیچھے چند سال مزید پیچھے چلے جائیں تو یہی باغی تھے جو 6 جنوری 2015 کو ایوان بالا کے بھرےایوان میں اس وقت رو دئیے جب اکیسویں آئینی ترمیم کے حق اور آرمی ایکٹ کی متفقہ قرارداد کی منظوری میں انہوں نے پیپلز پارٹی کی پالیسی کے تحت حمایت میں ووٹ دیا۔وہ اپنےچھلکتے آنسوؤں اور رندھی ہوئی آواز میں یہ بھی کہہ گئے کہ میں نے آج پہلی بار اپنی ضمیر کی آواز کے خلاف ووٹ دیا ہے میرے پاس ووٹ پارٹی کی امانت تھی اور میں اعلیٰ قیادت کے فیصلوں کا امین ہوں ،سینیٹ میں مجھے 10 سے 12 سال ہو گئے ہیں لیکن جتنا شرمندہ میں آج ہوا ہوں پہلے نہیں ہوا اور شاید شرمندگی کی یہی وہ گھڑی تھی جس میں رضا ربانی کے دل کی ویران کھیتی میں بغاوت کا وہ بیج پھوٹ پڑا جس نے انہیں اس نظام سے باغی بنا ڈالا۔

شہزاداقبال18 سال سے شعبہ صحافت میں ہیں ان دنوں 92 نیوز سے وابستہ ہیں۔

ان سے ای میل
shahzadiqbal7@yahoo.com
پررابطہ کیا جا سکتا ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے