اداروں کو کام کرنے دیجیے

سہون میں صوفی بزرگ شیخ عثمان مروندی المعروف لعل شہباز قلندر کے مزار پرخودکش حملے میں اسی کے قریب عقیدت مند لقمہ ٔ اجل بن چکے ہیں،جن میں معصوم بچے اور خواتین بھی شامل تھیں،اس سے قبل ایک ہفتے کے اندر خیبر پختونخوا میں تین ،بلوچستان میں دوحملے اور لاہور میں بھی خودکش حملہ ہو چکا ہے،ان دہشت گردانہ واقعات میں مجموعی طور پر اب تک دو سو کے قریب اہل وطن لقمۂ اجل بن چکے ہیں،جن میں پولیس اہل کار بھی شامل ہیں۔یوں ملک کے چاروں صوبے دہشت گردی کی حالیہ لہر میں نشانہ بنائے جاچکے ہیں۔لاہور اور اب سہون میں بڑے پیمانے پر بے گناہوں کے شہید کیے جانے کے بعد ہماری سیاسی وعسکری قیادت نے مشترکہ اجلاس میں ایک بار پھر اس عزم کا اعادہ کیا ہے کہ اندرونی وبیرونی دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کے مکمل خاتمے تک دہشت گردی کے خلاف جنگ جاری رہے گی۔

لاہور دھماکے کے سہولت کارکی گرفتاری اور اس کے انکشافات کے بعد وزارت داخلہ نے بیان دیا ہے کہ ہم دھماکے کے اصل ذمے داروں تک پہنچ چکے ہیں،دوسری جانب یہ بھی اطلاعات ہیں کہ افغانستان سے چار مطلوب ترین افراد طلب کرلیے گئے ہیں،جن میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان کا امیر ”ملا”فضل اللہ ،کالعدم جماعت الاحرار کا امیر عمر خالد خراسانی بھی شامل ہیں،جب کہ سہون شریف حملہ اب بھی ایک معما بنا ہوا ہے،سیکورٹی ادارے دعویٰ کررہے ہیں کہ کئی روز پہلے ہائی الرٹ جاری کردیا گیا تھا کہ سندھ کے کسی بھی بڑے مزار پر خودکش حملہ ہوسکتا ہے،لہٰذا مزارات کی سیکورٹی سخت کی جائے ،لیکن ڈی آئی جی صاحب کا کہنا ہے کہ ایسا کوئی الرٹ جاری نہیں کیا گیا تھا،جس کی وجہ سے جمعرات کو معمول کے مطابق پچاس سپاہی مزار کی سیکورٹی پر تعینات تھے،ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ مزار کو سیل کرکے تمام شواہد کومحفوظ کرلیا گیا ہے،تمام سی سی ٹی وی کیمرے بھی اپنا کام کررہے تھے اور تصویریں بھی محفوظ کرلی گئی ہیں،تاہم حملہ آور نے چوں کہ برقع پہن رکھا تھا ،جس کی وجہ سے یہ تعیین نہ ہو سکی کہ وہ مرد تھا یا عورت!

یہ ہے ہمارے مجاز اداروں کی رپورٹ،دوسری طرف کچھ نام نہاد ”دانش فروشوں”اور ”مسلکی مریضوں”نے اپنی روایتی ابن الوقتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے سیکورٹی اداروں کو تحقیق وتفتیش کا موقع دینے اور ان کی رپورٹوں کا انتظار کرنے کے بجائے حالیہ دہشت گردی کا تمام ملبہ ایک مخصوص مکتبہ فکر پر ڈالنے کی کوشش شروع کردی ہے،ان کی دلیل یہ ہے کہ ملا فضل اللہ ہو یا عمر خراسانی، کالعدم تحریک طالبان پاکستان،کالعدم جماعت الاحراراورکالعدم لشکر جھنگوی العالمی سے تعلق رکھنے والے افراد کا تعلق اسی مسلک سے رہا ہے،لہٰذا اس مسلک کا ہی ناطقہ بند کیا جائے تاکہ آیندہ اس مسلک سے تعلق رکھنے والا کوئی دہشت گرد گروہ وجود میں نہ آسکے ۔یہ لوگ کالعدم ٹی ٹی پی کو تحریک طالبان افغانستان کی بی ٹیم اور کالعدم جماعت الاحرار اور کالعدم لشکر جھنگوی العالمی کو کالعدم سپاہ صحابہ(موجودہ اہل سنت والجماعت)کا ڈیتھ اسکواڈ قراردیتے ہیں۔یہ پروپیگنڈا اس قدر شدّومد سے کیا جارہاہے کہ سادہ لوح اہل وطن بھی اسی بات کو درست سمجھنے لگے ہیں ۔

حقائق کی میزان پر ان باتوں کا غیر جانب دارانہ تجزیہ کیا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ تحریک طالبان افغانستان نے ٹی ٹی پی کی کبھی تایید نہیں کی ،بلکہ اس وقت بھی اس کی مخالفت کی جب یہ عروج پر تھی،تحریک طالبان کے ترجمان کے بیانات ریکارڈ پر ہیں کہ جب ”ملا”فضل اللہ نے پاکستان کے خلاف بیان بازی شروع کی اور سیکورٹی فورسز پر حملے ہونے لگے تو انھوں نے واضح الفاظ میں اس کی مذمت کی ،پاکستان کے دفاع کو اپنا اولین فریضہ قراردیا،ملک دشمنوں کی سرگرمیوں سے کھل کر اعلان لاتعلقی کیا۔ان کا یہ اعلان لاتعلقی اور پاکستان سے والہانہ تعلق کا اظہار حق بہ جانب بھی تھا ،کیوں کہ جب افغانستان میں طالبان کی حکومت تھی تو بارڈر پر کبھی پاکستان کے خلاف کوئی سرگرمی دیکھنے میں نہیں آئی،بھارت نے جب بھی افغانستان کو پاکستان کے خلاف استعمال کرنے کا سوچااوروہاں کی پاکستان دشمن جماعتوں کو سپورٹ کرنے کی کوشش کی، اسے پہلا جواب افغانستان کے طالبان کی جانب سے ملا۔شومیٔ قسمت،طالبان کے بعد سے تاحال ہماری سرحد محفوظ نہیں،ہمیں مسلسل دراندازی کا خطرہ رہتاہے اور بارہا بارڈر بند کیا جاچکاہے،لاہور حملے کے بعد بھی بارڈر سیل ہے۔اگر تعصب کی عینک اتار کر دیکھا جائے تو پاکستانی تحریک طالبان اور افغان طالبان میں کوئی جوڑ نظر نہیں آئے گا۔ہمارے سیکورٹی ادارے بھی اس بات سے واقف ہیں اور حکومت بھی،اس لیے ذمے دار اداروں کی طرف سے کبھی ایسا الزام سامنے نہیں آیا۔اگر صرف مسلک ونظریہ ایک ہونے کی بات کی جائے تو ہر مسلک ونظریہ کے ماننے والوں میں آپ کو ہر قسم کے لوگ نظر آئیں گے،کسی مسلک کے ماننے والے بعض لوگوں کی بے اعتدالیاں دوسروں کے کھاتے میں ڈالنا،جب کہ وہ ببانگ دہل ان سے لاتعلقی کا اعلان بھی کریں،قرین قیاس نہیں۔

جہاں تک دوسری دہشت گرد تنظیموں کا تعلق کالعدم سپاہ صحابہ سے جوڑنے کا تعلق ہے ،تو سپاہ صحابہ اور اہل سنت کی قیادت،لشکر جھنگوی کے روز اول سے ان سے برأت کا اعلان کرچکی ہے،یہی معاملہ جماعت الاحرار کا بھی ہے۔اگر ان کی قیادت کا کسی دور میں سپاہ صحابہ سے تعلق رہا بھی ہو،تو راستے الگ کرنے کے بعد ان کی سیاہ کاریوں کاالزام سابقہ جماعت کو نہیں دیا جاسکتا۔اس کے باوجودہم اہل سنت والجماعت کی موجودہ قیادت سے گزارش کریں گے کہ وہ ایک بار پھر ان سے اپنی لاتعلقی کا اعلان کرے اور میڈیا اس سلسلے میں مولانا محمد احمد لدھیانوی کو اپنی پوزیشن واضح کرنے کا موقع دے ۔یہ بات بھی کسی سے مخفی نہیں کہ اس مسلک کے سرکردہ لوگوں نے ہمیشہ ملک میں مسلح جدوجہد کی مخالفت کی ہے اورکڑے سے کڑے وقت میں بھی قانون کوہاتھ میں لینے والوں کا سا تھ نہیں دیا،لال مسجد کے قضیے میں وفاق المدارس العربیہ کے کردار ،جامعہ اشرفیہ میں مسلح جدوجہد کرنے والوں سے لاتعلقی کے اعلان ،مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد رفیع عثمانی،مفتی محمد تقی عثمانی،مفتی فضل الرحیم،مفتی محمد نعیم کے بیانات سے اس کا بہ خوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے،عیاں را چہ بیان!

جو عناصر ان ”ڈھکوسلوں”کی بنیاد پر رائی کا پہاڑ بناکر بانیان پاکستان میں شامل بزرگوں کے مسلک کے خلاف اپنے مذموم عزائم کی تکمیل کے خواب دیکھ رہے ہیں ،انھیں یہ بات فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ ادارے دوست دشمن کا فرق اچھی طرح جانتے ہیں،اداروں کو ان کا کام کرنے دیں،دہشت گرد کسی بھی مسلک وفرقے سے تعلق رکھتا ہو اس کا قلع قمع ضروری ہے،افغانستان وایران کے ایما پر برپا ریاست کے خلاف حالیہ جنگ کو مسلکی جنگ بنانے کی کوشش اداروں کی کوششوں میں خلل ڈالنے اور حقائق کو مسخ کرنے کے مترادف ہے،جس سے اجتناب برتنا ضروری ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے