ایس ایچ اوکے”ہاتھ”توکھولیں

لفظ تھانیدار سے آشنائی ملک صفدر حیات کی ان کہانیوں سے ہوئی جو وہ سسپنس ڈائجسٹ میں لکھا کرتے تھے (شاید اب بھی لکھتے ہوں (ملک صفدر حیات کا تھانیدار ایسا پولیس آفیسر تھا ۔ جو نہ صرف علاقے کے چپے چپے سے واقف تھا بلکہ علاقے میں ہونے والے جرائم، آنے جانے والوں کی تفصیلات ، بڑے چھوٹے چور اچکوں کے نام اور شکلیں ، ہوٹلز اور گیسٹ ہاوٗسوں کی تعداد ‘ یونین کونسلوں ، قصبوں اور گاوٗں کے نام ازبر رکھتا ہے۔ اگرچہ کہانیوں میں حقائق کو تھوڑا بڑھا چڑھا کر بیان کیا جاتا ہے ۔ لیکن ایک تھانیدار کے حوالے سے شاید یہ باتیں قریب قریب درست ہی لگتی ہیں ۔ ایک ریٹائرڈ تھانیدار نے بتایا کہ ہمارے وقت میں ڈپٹی کمشنر ایک مضبوط افسر ہوتا تھا۔ جو علاقے میں ہونے والی چھوٹی بڑی تبدیلیوں کا ریکارڈ رکھتا تھا تا کہ سارے محکمہ جات اپنی ضرورت کے مطابق اس معلومات سے فائدہ اٹھا سکیں۔ اس کے علاوہ تھانیدار خود بھی اپنے علاقے سے باخبر رہتا تھا ۔

ان کے خیال میں صورتحال اب بھی تقریبا ویسی ہے لیکن آبادی میں بے تحاشا اضافہ، دہشت گردی، ہجرت اور پولیس کی سہولیات میں فقدان نے تھانیدار کے ہاتھ باندھ دئے ہیں ۔ اب قانون کے ’’لمبے‘‘ ہاتھوں میں ہتھکڑیاں پہنا دی گئی ہیں ۔ لیکن اس سب کے باوجود جب سینئر پولیس افسران سے لے کر جوانوں تک ان پانچ ہزار سے زائد ’’شہداء‘‘ پر نظر پڑتی ہے ۔ جنہوں نے اس ملک اور اس کے لوگوں کی حفاظت کی خاطر سڑکوں، گلیوں، ہسپتالوں، تھانوں، عدالتوں، سکولوں اور مساجد میں اپنی جانیں وار دیں ۔ تو لگتا ہے کہ پولیس ہی ہے جو اس ’’شہری‘‘دہشت گردی کو ختم کر سکتی ہے ۔ چاسدہ کا حالیہ واقعی اس کی ایک بڑی مثال ہے۔ اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ باقی ادارے کچھ نہیں کر رہے۔ سب ادارے اپنی اپنی بساط کے مطابق اس عفریت کا مقابلہ کر رہے ہیں ۔ لیکن پولیس واحد ایسا محکمہ ہے ۔ جس کا شہر اور شہریوں سے چوبیس گھنٹے کا واسطہ ہے ۔ 

اس وقت پولیس کی کل تعداد تین لاکھ اٹھاسی ہزار کے لگ بھگ ہے جس میں پنجاب میں ایک لاکھ اسی ہزار ، سندھ ایک لاکھ پانچ ہزار ، خیبر پختونخوا پینسٹھ ہزار اور بلوچستان پینتیس ہزار کے قریب پولیس کی نفری ہے ۔ پاکستان میں ہر پانچ سو افراد کے لئے ایک پولیس والا ہے ۔ جب کہ اقوام متحدہ کے معیار کے مطابق ہر 220 افراد کے لئے ایک پولیس والا ہونا چاہئے۔ اگر اس میں سے چالیس فی صد وہ تعداد نکال دی جائے۔ جو VIP ڈیوٹی سر انجام دے رہی ہے تو پھر شرح بڑھ کر 720 افراد ہو جاتی ہے۔ اس کے علاوہ اگر پولیس کے چاروں صوبوں کے بجٹ کا تجزیہ کیا جائے تو ہر پولیس والے پر سالانہ 105 روپے خرچ ہوتے ہیں ۔ پنجاب میں 686 ، بلوچستان میں 111 سندھ میں 503 ، خیبر پختونخوا میں 262 اور اسلام آباد میں 18 تھانے ہیں جب کہ 1400 کے لگ بھگ چوکیاں ہیں ۔ 

پاکستان کو وراثت میں پولیس کا وہ نظام ملا جو پولیس آرڈر 1861 کے تحت چل رہا تھا۔ سن 2002 میں ایک سو اکتالیس سال (141) کے بعد پولیس آرڈر 2002 نے اس سسٹم میں دراڑ ڈالی ۔ لیکن مناسب قانون سازی نہ ہونے کی وجہ سے سارے صوبوں نے اس کو صحیح طرح نہیں اپنایا۔ اٹھارویں ترمیم کے بعد اختیارات کی صوبوں کو منتقلی نے قوانین میں مزید الجھنیں پیدا کر دیں۔ بہرحال 2010 کے بعد تمام صوبے اپنے اپنے طور پر پولیس ریفارمز کے لئے کاوشیں کر رہے ہیں ۔ لیکن وہ سب ناکافی ہیں۔ اگرچہ صورتحال زیادہ حوصلہ افزاء نہیں لیکن ان کم سہولیات کے باوجود کراچی تا خیبر پولیس دہشت گردوں کا مقابلہ کر ہے ۔ کیونکہ وہ نہ صرف شہریوں اور شہری علاقوں سے واقف ہیں بلکہ وہ اپنے اپنے علاقے کی تاریخ ، کلچر ، رہہن سہن اور مزاج کا بھی علم رکھتے ہیں ۔ یہ سارا غیر روایتی علم دہشت گردی کا مقابلہ کرنے میں بہت مددگار ثابت ہو سکتا ہے ۔ لیکن اس کے لئے چند تجاویز ہیں۔

پولیس کو غیر سیاسی کیا جائے

۔پولیس کی تنخواہوں میں اضافے کے ساتھ ساتھ ان کو تھانوں میں ایسا خوشگوار ماحول فراہم کیا جائے ۔ جس میں رہ کر وہ بہتریں منصوبہ بندی کر سکیں۔ اس میں وہ سارے آلات اور ٹیکنالوجی شامل ہے جو جرائم اور surveillance میں استعمال کیا جا سکے۔ 

۔پولیس کی جدید بنیادوں پرزہنی و جسمانی تربیت کا اہتمام کیا جائے ۔ اس سلسلے میں پاکستان آرمی سے تعاون لیا جا سکتا ہے۔ 

۔ پولیس کو ہیلی کاپٹر، گاڑیوں اور فرینزک سمیت وہ تمام جدید آلات دئے جائیں جو فیلڈ آریشنز کے لئے ضروری ہیں۔ 

۔پولیس کے ساتھ انٹیلیجنس معلومات کا تبادلہ کیا جائے اور جوائنٹ آپریشنزمیں ان کو لیڈ دی جائے

۔پولیس میں کرپشن اور سفارش کے کلچر کو ختم کرنے کے لئے مزید کوششیں کی جائیں۔

اور سب سے بڑھ کر یہ کہ تھانیدار کے ہاتھ کھول دئے جائیں پھر دیکھیں نہ دہشت رہے گی نہ دہشت گردی۔ 

سروں پہ اپنے کفن لپیٹے
اس مٹی میں مل سکتے ہیں 
پھر شاخون پہ کھل سکتے ہیں 
وقت پڑے تو جانیں دے کر
اپنا فرض ادا کرتے ہیں 
تیرا قرض ادا کرتے ہیں 
صادق حسین بلوچ
اے ایس پی
1861

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے