فوجی عدالتیں… پر اجلاس بے نتیجہ ختم

اسلام آباد: فوجی عدالتوں کی مدت میں توسیع کے معاملے پر وفاقی وزیر قانون زاہد حامد کی سربراہی میں ذیلی کمیٹی کا اجلاس بے نتیجہ رہا اور کمیٹی کسی حتمی نتیجے پر نہ پہنچ سکی۔

اجلاس کے بعد صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے وزیرقانون زاہد حامد کا کہنا تھا کہ تمام جماعتیں متفق ہوں تو فوجی عدالتوں کی مدت میں 2 سال توسیع کی جاسکتی ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ مولانا فضل الرحمن کے اصرار پر آئینی ترمیم میں کچھ الفاظ کا اضافہ کیا گیا ہے، جبکہ ریاست کے خلاف سنگین اور پرتشدد کارروائیوں کا جملہ آئینی ترمیم میں شامل کیا گیا ہے۔

اجلاس میں حکومت نے نیا آئینی مسودہ بھی پیش کیا۔

وزیرقانون کے مطابق پارلیمانی رہنماؤں کو 23 ویں آئینی ترمیم کے مسودے کے ساتھ ہی پاکستان آرمی ایکٹ میں ترمیم کا بل بھی ارسال کیا جائے گا۔

زاہد حامد کا کہنا تھاکہ تمام پارلیمانی رہنما 28 فروری کے اجلاس میں اپنی پارٹی قیادت سے مشاورت کے بعد حتمی رائے دیں گے۔

پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی جانب سے اجلاس میں شرکت کرنے والے رہنما اور رکن قومی اسمبلی نوید قمر کا کہنا تھا کہ حکومت نے فوجی عدالتوں کی مدت 3 کی بجائے 2 سال کرنے پر رضامندی ظاہر کی جبکہ ریاست کے خلاف کارروائی کے الفاظ میں بھی ترمیم کردی گئی ہے۔

پیپلز پارٹی کے رہنما کا کہنا تھا کہ وہ حکومتی مسودہ پارٹی قیادت کے سامنے پیش کریں گے۔

گذشتہ روز ہی پیپلز پارٹی نے فوجی عدالتوں میں توسیع کے معاملے پر پارلیمانی رہنماؤں کے اجلاس کا بائیکاٹ ختم کرنے کا اعلان کیا تھا جبکہ اس حوالے سے حکومت کے ترمیمی بل کے منظور شدہ ڈرافٹ پر کسی بھی قسم کی غیر مشروط حمایت نہ کرنے کا عندیہ دیا تھا۔

نوید قمر کا مزید کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی فوجی عدالتوں کے معاملے پر آل پارٹیز کانفرنس بلانے پر قائم ہے جبکہ اسی کانفرنس میں حکومت کا آئینی مسودہ سب کے سامنے پیش کیا جائے گا۔

نوید قمر نے تصدیق کی کہ حکومت نے مسودے میں نئی ترامیم مولانا فضل الرحمن کے کہنے پر کیں۔

دوسری جانب ذیلی کمیٹی کے اجلاس سے قبل اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق کی زیرصدارت پارلیمانی رہنماؤں کا اجلاس طے پایا۔

اسپیکر ایاز صادق کا کہنا تھا کہ فوجی عدالتوں کی مدت کا فیصلہ زاہد حامد کی زیرصدارت کمیٹی کرے گی جبکہ سینیٹر طلحہ محمود اور بیرسٹر سیف بھی اس کمیٹی کا حصہ ہوں گے۔

فوجی عدالتوں کی مدت میں توسیع کے معاملے پر پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) نے 4 مارچ کو آل پارٹیز کانفرنس بلانے کا فیصلہ کرلیا۔

پیپلز پارٹی کی جانب سے جاری بیان کے مطابق آل پارٹیز کانفرنس اسلام آباد میں ہوگی جس میں تمام سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں کو شرکت کی دعوت دی جائے گی۔

کانفرنس میں شرکت کے لیے پیپلز پارٹی کی جانب سے تمام جماعتوں کو ہفتہ سے باضابطہ طور پر دعوت نامے بھیجے جائیں گے۔

دسمبر 2014 میں پشاور کے آرمی پبلک اسکول پر ہونے والے دہشت گردوں کے حملے کے بعد جنوری 2015 میں فوجی عدالتوں کا قیام عمل میں لایا گیا تھا۔

اس وقت حکومت نے قومی اتفاق رائے سے 2 سال کیلئے فوجی عدالتوں کے قیام کیلئے پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں سے 21ویں آئینی ترمیم منظور کرائی تھی تاہم رواں سال 7 جنوری کو فوجی عدالتوں کے دو سال مکمل ہونے کے بعد یہ عملی طور پر غیر موثر ہوگئیں۔

علاوہ ازیں، پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) ، پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) اور متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) نے اعلان کیا تھا کہ وہ آئین میں ترمیم کیلئے حکومت کے منظور کردہ بل کی اس کی موجودہ حالت میں حمایت نہیں کریں گے۔

اپوزیشن رہنماؤں نے حکومت پر الزام لگایا تھا کہ اس نے انھیں اعتماد میں لیے بغیر اس میں تبدیلی کی جس کا مقصد بظاہر اپنی اتحادی جماعت جمعیت علماء اسلام (ف) کے ایماء پر ڈرافٹ میں حقائق کو تبدیل کرنا تھا، جس نے اس سے قبل اس ترمیمی بل کی مخالفت کی تھی تاہم اب نئے ترمیم شدہ بل کی حمایت کرنے کا اعلان کیا ہے۔

اس کے علاوہ حکومت کی جانب سے آئین کے آرٹیکل 175-3 میں ترمیم کرنے کے فیصلے پر اعتراض بھی کیا گیا، جس کے ذریعے فوجی عدالتوں کو ایسے تمام قیدیوں کے ٹرائل کا حق دیا گیا تھا ‘جو کسی بھی دہشت گرد گروپ یا تنظیم سے ہوں گے اور مذہب یا فرقے کے نام کا استعمال کریں گے’۔

جس کے بعد نئے ڈرافٹ میں حکومت نے الفاظ ‘مذہب اور فرقے کے نام کا استعمال’ کرنے کے الفاظ نکال دیے جس نے سیاسی جماعتوں میں خوف پیدا کردیا تھا کہ یہ قانون ان کے خلاف ‘سیاسی انتقام’ کے طور پر استعمال کیا جاسکتا ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

تجزیے و تبصرے