دودھ اور جگالی میں فرق

ٹوٹی ہوئی کمر والا پہلوان کوئی کشتی دنگل نہیں کر سکتا۔ لیکن ٹوٹی ہوئی کمر والا اگر کوئی دہشت گرد ہو تو وہ مرتے مرتے بھی اپنی خود کش بمبار جیکٹ میں بھرے بارود سے محض ایک انگلی سے ایک بٹن دبا کر ایک ایسا خود کش حملہ کر سکتا ہے جو درجنوں یا سینکڑوں معصوم انسانوں کی ہلاکت کا باعث بن سکتا ہو۔

اس سے ثابت یہ ہوتا ہے کہ دہشت گردوں کی صرف کمر اور ٹانگیں وغیرہ نہ توڑی جائیں یا انہیں صرف گونگا یا بہرہ بنا کر یہ نہ سمجھا جائے کہ وہ زندہ درگور ہو گئے ہیں۔ اس کے لیے انہیں یا تو بعد از مرگ درگور ہونے کا موقع ملنا چاہیے یا پھر انہیں قانون کے تقاضوں کے مطابق سلاخوں سے باہر کے بجائے بہت لمبے عرصے کے لیے سلاخوں کے پیچھے ہونا چاہیے۔

جہاں تک دشمن کے بچوں کو پڑھانے کی پالیسی کی بات ہے تو بچے صرف بچے ہوتے ہیں۔ انہیں ان کے بچپن کی وجہ سے جنگوں میں بھی تحفظ حاصل ہوتا ہے۔ یا اگر نہیں ہوتا تو کم از کم قانون کے مطابق ہونا چاہیے۔ ویسے یہ بات انسانی تاریخ میں ابھی تک دیکھنے میں نہیں آئی کہ پڑھایا بچوں کو جائے اور تعلیم یافتہ ان کے ناخواندہ والدین ہو جائیں۔ تعلیم یافتہ وہی ہو گا جو پڑھے گا۔ اس لیے پاکستان میں دہشت گردوں اور ان کے بچوں دونوں کو پڑھایا جانا چاہیے، صرف کسی ایک کو نہیں۔

جہاں تک پاکستان میں دہشت گردی کے مسئلے کے حل کا تعلق ہے تو اس معاملے کی مثال ایک بکری اور ایک بھوکے بچے کی سی ہے۔ سیدھی سی بات ہے کہ بکری چارہ کھاتی ہے اور دودھ دیتی ہے۔ یہ بات بھی پیچیدہ نہیں کہ بکری کے جسم میں گھاس کھانے اور دودھ دینے کے مقام طے شدہ ہوتے ہیں۔

کسی ‘عظیم دماغ’ اور ‘شاطر منصوبہ ساز’ کو خوش کرنے کے لیے بکری اگر چاہے بھی تو منہ سے دودھ نہیں دے سکتی۔ یہ بات تو بکری کے ایک دن کے میمنے کو بھی پتہ ہوتی ہے۔ لیکن یہاں بات ایک ایسے بچے کی ہو رہی ہے، جو صرف بھوکا ہے اور بس اتنا جانتا ہے کہ بکری دودھ دیتی ہے۔

اپنے ملک میں برسوں پہلے اولین خود کش دہشت گردانہ حملوں کے بعد سے ہم پاکستانی بھی (حکومتی، ریاستی اور سلامتی ادارے، نہ کہ وہ عام شہری جو بم دھماکوں میں مارے جاتے ہیں) ابھی تک دودھ کا برتن لیے جگالی کرتی بکری کے سامنے کھڑے ہیں۔ وقت گزرتا جا رہا ہے۔ ہم بکری کے سامنے بھوکے ہی کھڑے رہیں گے۔

ہم برسوں سے یہی نہیں سمجھ پائے کہ دودھ اور جگالی میں فرق ہوتا ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے