سمجھ سے بالاتر تعصب

کیونکہ کل نیوز بلیٹن تھا جس کے لئے پینٹ شرٹ اور ٹائی کی لوزامات ضروری ہوتی ہیں تو اس لئے آج اپنی پسندیدہ شلوار قمیض پہن کر آفس جانے کا فیصلہ کیا تاہم آفس جاتے ہوئے ایک عجیب صورتحال سے گزرنا پڑا جس کا ذکر سوشل میڈیا خصوصی طور پر فیس بک پر،لاہور چیئرنگ کراس خودکش دھماکے اور آپریشن ردالفساد شروع ہونے کے بعد تواتر سے سن اور دیکھ رہا ہوں۔

درالحکومت اسلام آباد کے آئی نائن سیکٹر میں داخلے کے وقت ایک پولیس اہلکار نے روکنے کا اشارہ کیا (یہ بتاتا چلوں کہ سال 2008 سے درالحکومت کی سڑکوں کو ناپ رہاہوں لیکن اس دوران کبھی بھی پولیس نے نہیں روکاکیونکہ تمام قانونی تقاضے بمعہ ہیلمٹ پورے ہوتے ہیں)۔اہلکار کے اشارہ کرنے پر موٹرسائیکل ایک جانب روک دی(ہمارے ساتھ ہی ایک اور شلوار قمیض پہنے ہوئے کو بھی روکا گیا) تاہم شدید حیرت کا جھٹکا اس وقت لگا جب میرے ساتھ ہی چلتے ہوئے ایک اور موٹرسائیکل سوار کو جانے دیا گیا (اُس نے جینز پر ٹی شرٹ پہن رکھی تھی جبکہ ہم شلوار قمیض میں تھے )پولیس اہلکار نے موٹر سائیکل کے کاغذات چیک کئے ، آئی ڈی کارڈ مانگتے ہوئے یہ بھی پوچھا کہ کہاں جا رہے ہو اور کرتے کیاہو؟؟ تو بتایا کہ آفس جا رہاہوں اور صحافت سے وابستہ ہوں جس کے بعد جانے کی اجازت دی گئی ۔جانے سے پہلے ہم نے بھی پولیس اہلکار سے کچھ سوال جواب کرنے چاہے۔ہم نے پوچھا کہ کیاصرف شلوار قمیض پہننے والوں کو چیک کیا جا رہا ہے کیونکہ ابھی ہمارے سامنے ایک جینز ٹی شرٹ والے کو آپ نے چیک تو کیا روکنے کا بھی اشارہ نہیں جبکہ ہم دو بندوں کو آپ نے روک رکھا ہے اور ہم دونوں نے شلوار قمیض پہن رکھی ہے(کیا یہ اتفاق ہے ) جس کو سنی ان سنی کرتے ہوئے اہلکار نے جواب دیا کہ نہیں ایسی کوئی بات نہیں سب کو چیک کیا جا رہا ہے تاہم اشارے پر جینز والا روکا نہیں تو اس لئے چیکنگ سے بچ گیا(جس کاسیدھا سا مطلب تو ہمیں یہ سمجھ آیا کہ اگر کوئی اشارہ دینے پر نہیں روکتا تو چیکنگ سے مستثنی ہے )۔انہیں باتوں کے دوران پولیس اہلکار نے ہمیں دکھانے کے لئے ایک پینٹ شرٹ میں ملبوس نوجوان کو بھی روکنے کا اشارہ کیا لیکن ہمیں جس تعصب کی بو محسوس ہوئی ہم اس سے جان نہیں چھوڑا سکے۔

اس سے قبل سماجی رابطے کی ویب سائٹ فیس بک پر صوبہ پنجاب کے ضلع بہاولپور پولیس کی جانب سے جاری کیا گیا ایک انتباہی بیان نظر سے گزرا جس میں پولیس کی جانب بہالپور کے رہائشیوں کو متنبہ کیا گیا تھا کہ وہ شکل وصورت اور کپڑوں سے پختون لگنے والے چھابڑی فروش، خشک میوہ جات،قہوہ اور اس طرح کی دیگرچھوٹی موٹی چیزیں بیچنے والوں کو دیکھے تو فی الفور پولیس کو آگاہ کیاجائے۔(بہاولپور پولیس نے اس بیان سے لاتعلقی کا اعلان کیا ہے تاہم ایک بیان سوشل میڈیا پر وائرل ہونے کے بعد اس سے لاتعلقی کا اعلان چی معنی دارد)۔

اسی طرح صوبائی درالحکومت لاہور کی ایک مارکیٹ بلال گنج کے انجمن تاجران کی جانب سے مارکیٹ میں موجود پختون دوکانداروں کے لئے انجمن تاجران کے صدر چوہدری ریحان اقبال اور جنرل سیکرٹری قیصر بٹ کے دستخطوں سے ایک نوٹس جاری کیا گیا ہے ۔نوٹس میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ حکومت پنجاب کے حساس ادارے کے اہلکاروں نے انجمن ہذا کے دفتر کا دورہ کیا ۔اس دوران یہ ہدایات جاری کی گئیں کہ مارکیٹ میں موجود پختون دوکانداروں یا دوکانوں میں کام کرنے والوں پختونوں کے کوائف جمع کرائے جائیں بصورت دیگر قانونی کارروائی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے(یاد رہے کہ دونوں جگہ پختونوں کی جگہ پٹھان لکھا گیا ہے جس کو لکھتے ہوئے بھی مجھے تکلیف ہورہی ہے )۔یہ تو چند مثالیں ہیں ورنہ صوبہ پنجاب میں روزانہ کی بنیادپر ایسی کارروائیاں ہورہی ہیں جن میں پنجاب میں کاروبار کرنے والے پختونوں کو بلاوجہ لسانی بنیادوں پر تنگ کیا جا رہا ہے۔

لاہور خودکش حملے کے بعد گزشتہ دنوں وفاقی درالحکومت اسلام آباد کی پولیس نے مختلف علاقوں میں سرچ آپریشن کیا جس کے دوران 82 مشتبہ افراد کو حراست میں لیا گیا تاہم پوچھ گچھ کے بعد صرف 11 پختونوں کو حراست میں رکھا گیا(اس کے باوجود کہ سب کے پاس شناختی دستاویزات موجود تھیں )جن میں کچھ طالب علم جبکہ باقی کاروباری حضرات تھے۔ خیبرنیوز پر خبر اور ٹکرز چلنے کے بعد ان کو رہائی نصیب ہوئی ۔

اسی طرح صوبائی درالحکومت لاہور سمیت پنجاب کے دیگر علاقوں میں دہشت گردوں کے خلاف جتنے بھی سرچ اینڈ سٹرائیک آپریشنز جا رہے ہیں ان میں بے گناہ پختونوں کولسانی بنیادوں پر بے جا تنگ کیاجارہاہے ۔شناختی دستاویزات کی موجودگی اور کسی طرح کا کریمنل ریکارڈ نہ ہونے کے باوجودپنجاب پولیس کی جانب سے اس طرح کا تعصبانہ رویہ رکھنا قابل مذمت اور قابل افسوس ہے۔

ہم دہشت گردی کے خلاف آپریشنز اور کارروائیوں کے خلاف نہیں تاہم خصوصی طور پر پنجاب میں لسانی بنیادوں پر ان کارروائیوں کو پختونوں کے خلاف استعمال کرنا سمجھ سے بالاتر ہے ۔ وفاق اور صوبہ پنجاب کی حکمران جماعت مسلم لیگ ن کو چاہئے کہ اپنی پولیس کو فی الفور پختونوں کے خلاف تعصبانہ کارروائیوں سے روکے کہیں ایسا نہ ہو کہ پختونوں کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوجائے اور خدانخواستہ بلوچوں کی طرح پختون بھی علیحدگی پسندی کی روش اپنا لیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے