ملک حاکمین خان کی سیاسی جدوجہد

ملک حاکمین خان کا تعلق اٹک کے قصبہ’’شیں باغ‘‘ سے ہے۔70ء کے عشرے تک یہ سرزمین اس حد تک جاگیرداروں کی گرفت میں تھی۔ کہ جاگیر دار ارانہ نظام ا س کی گرفت سے راہ فرار اختیار کرکے قریبی ضلع راولپنڈی آنے والے لوگ دو وقت کی روٹی کے عوض کھیتی باڑی کرنے پر مجبور ہوتے تھے میں نے 5روپے ماہانہ لوگوں کے گھروں میں کام کرنے والے دیکھے ہیں اس سرزمین سے ایک انقلابی نے میدان سیاست میں قدم رکھا۔ جس کی سیاست کا خمیر ذوالفقار علی بھٹو کی انقلابی سوچ نے رکھا۔ان کا تعلق اس سرزمین سے ہے جس میں سیاسی وفا کے نام کی کوئی شے نہیں سیاسی سوداگروں کے ماتھے پر تین تین پارٹیوں کے نام لکھے ہوتے ہیں۔ موسم کی طرح اپنی سیاسی جماعتیں تبدیل کرنے میں عار محسوس نہیں کرتے لیکن ملک حاکمین 45سال گذرنے کے باوجودآج بھی پیپلز پارٹی کا جھنڈا اٹھائے ہوئے ہیں ۔

ملک حاکمین خان نے اپنی سیاسی سرگزشت میں 45سالہ خارزارسیاست کے شب وروز کو قلمبند کیا ہے۔ اس کتاب کے مطالعہ سے ہی ملک حاکمین خان کو سمجھنے کا موقع ملتا ہے جو پچھلے کئی سالوں سے اپنوں بے قدری کا شکار ہیں برطانوی عہد کے آغاز سے لے کر70ء کی دہائی تک سلطنت برطانیہ کے وفادار جاگیروں اور سرداروں کی غلامی میں تھا۔ لیکن ذوالفقار علی بھٹو کی سوچ سے متاثر ملک حاکمین خان نے غلامی کی زنجیریں توڑنے کی کوشش کی لیکن انہیں پوری طرح کامیابی نہیں ہوئی ۔پیپلز پارٹی پر ابتلا کا دور آیا توانہوں نے پارٹی سے وفاداری تبدیل کی اور نہ ہی ’’ادھر ادھر‘‘ دیکھا ۔ ملک حاکین خان کی کہانی پنجاب میں پیپلز پارٹی کے عروج و زوال کی کہانی ہے۔

1970ء میں پیپلز پارٹی نے ملک حاکمین خان جیسے کارکنوں کو انتخابی معرکہ میں لا کر بڑے بڑے برج الٹ دئیے وہ کم وبیش نصف صدی سے پیپلزپارٹی سے وابستہ ہیں پارٹی کے لئے قیدوبند کی صعوبتیںبرداشت کیں پارٹی میں وہ جس مقام کے مستحق تھے وہ انہیں نہ مل سکا۔ اس کے حصول کے لئے آج بھی سرگراں ہیں۔ انہوں نے اپنے پائی جانے والی تعلیمی محرومی کو دور کرنے کے لئے اپنے بچوں کو اندون و بیرون ملک اعلی تعلیم کے زیور سے آراستہ کیا ۔ انہیں اپنے سیاسی پس منظر سے زیادہ فوجی پس منظر پر بڑا فخر ہے لیکن انہوں نے اپنی پوری عمر سیاست کی نذر کر دی ۔ ملک حاکمین خان نے اپنی کتاب میں جن چشم کشا واقعات کا ذکر کیا ہے ان میں سے کچھ واقعات کے وہ عینی شاہد ہیں اور کچھ کے بارے میں ان کو آگاہی ہوئی بہر حال انہوں نے اپنی کتاب میں’’ داستان حیات ‘‘ قلمبند کر دی ۔

انہوں نے سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو اور امریکی وزیر خارجہ ڈاکٹر ہیلری کسنجر سے گورنر ہاوس لاہور میں ہونے والی ملاقات میں پاکستان کے ایٹمی پروگرام کو بند کرنے کے معاملے پر بات چیت بارے میں چونکا دینے والے انکشافات کئے ہیں۔ اگر پاکستان ایٹمی طاقت نہ بنا ہو تا تو بھارت کب کا جارحیت کا ارتکاب کرچکا ہوتا۔ انہوں نے کتاب میں تحریر کیا ہے کہ ملاقات کے بعد جب ذوالفقار علی بھٹو نے رفیع رضا سے پوچھا کہ’’ آپ کے دوست مجھ سے کیاچاہتے ہیں؟‘‘ رفیع رضا نے کہا کہ ’’آپ کو امریکہ بہت بڑا پیکج دینا چاہتا ہے۔ اس کے ذریعے آپ کے اقتدار میں اضافہ اور اسلامی ممالک میں مراسم اور تیل کی فراہمی میں آسانیاں ملیں گی۔ ذوالفقار علی بھٹو نے کہا کہ’’ اگر میں یہ باتیں نہ مانوں تو‘‘ رفیع رضا نے کہا’’ اگر آپ اسلامی بم کا مسئلہ ختم نہیں کریں گے تو فزیکلی رہیں گے اور نہ ہی اقتدار کی کوئی ضمانت رہے گی۔ آپ کی کوئی بات نہیں مانی جائے گی‘‘ جس پر ذوالفقار علی بھٹو نے کہا کہ’’ میں کبھی بھی اپنے ازلی دشمن بھارت کو یہ موقع نہیں دوں گا۔ ہم اسلامی بم بنائیں گے یہ قوم گھاس کھائے گی لیکن یہ بہادر اور حریت پسند قوم اسلامی بم بنائے گی‘‘ رفیع رضا نے بات پھر دہرائی’’ آپ قائم نہیں رہ سکیں گے۔‘‘ ذوالفقار علی بھٹو نے کہا کہ ’’ٹھیک ہے کہ اگر اس جرم کی سزا یہی ملنی ہے تو میر امقدر ہے۔‘‘ اس وقت جو لیڈر موجود تھے وہ اس بات کے گواہ ہیں انہوں نے نام اس لئے نہیں لکھے کہ کوئی غلطی نہ ہو ۔

پاکستان کے ایٹمی پروگرام کو بند کرنے کے لیے ایئر مارشل ذوالفقار علی خان نے ایک میٹنگ میں ذوالفقارعلی بھٹو سے کہا تھا کہ ’’اگر امریکہ پاکستان کو 10-Aطیارے دے دے تو پاکستان کا ایٹمی پروگرام بند کردیں ایئر مارشل ذوالفقار علی خان نے ذوالفقار علی بھٹو سے استفسار کیا تھا کہ ہم امریکہ کا دبائو کس حد تک برداشت کرسکیں گے۔ ذوالفقار علی بھٹو نے کہا کہ ہم اسوقت تک یہ دبائو برداشت کریں گے۔ جب تک امریکہ پاکستان کے سامنے گھٹنے نہیں ٹیک نہیں دیتا۔ ایٹم بم کو اسلامی بم کا نام اس لیے دیاجارہاتھا کہ اسوقت پاکستان کے اس پروگرام کو تمام اسلامی ملکوں کی حمایت حاصل تھی خاص طورپر سعود ی بادشاہ شاہ فیصل اور اور کرنل (ر) قذافی پیش پیش تھے ۔اس اقدام سے مغربی ممالک خوفزدہ تھے۔ آج اگر خدانخواستہ پاکستان ایٹمی طاقت نہ بنا ہو تا تو بھارت کب کا جارحیت کا ارتکاب کرچکا ہوتا۔انہوں نے ذوالفقار علی بھٹواور چوہدری ظہور الہی کے درمیان تعلقات کا بھی خاص طور پر ذکر کیا ہے چوہدری ظہور الٰہی نے ذوالفقارعلی بھٹو کو اپنے بیٹے کی شادی کی تقریب میں مدعو کیا تو انہوں نے یہ دعوت قبول کرلی لیکن پھر انہوں ذوالفقار علی نے ملک مصطفٰی کھر سمیت مختلف رہنماوں کے دبائو میں آکر ان کے صاحبزادے کی شادی میں شرکت سے معذرت کرلی۔

چوہدری ظہور الہی کی جانب سے ذوالفقار علی بھٹو کے استقبال کے لئے کئے گئے انتظامات دھر ے دھر ے رہ گئے۔ کئی میل تک پھیلے ڈھول ڈھمکوں والی ٹیمیں اور نسلی گھوڑوں کی قطاریں بے نیل و مرام واپس آئیں تو چوہدری ظہور الہی نے اسے اپنی توہین سمجھا اور یوں’’ سیاسی دشمنی سے ذاتی دشمنی‘‘ کا رنگ اختیار کر لیا۔ ملک حاکمین خان نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ انہوں نے ذوالفقار علی بھٹو کے انقلابی پروگرام سے متاثر ہوکر پیپلزپارٹی میں شمولیت اختیار کی 1970کے انتخابات میں شوکت پنجاب کہلوانے والے مقتدر مسلم لیگی شخصیت سردار شوکت حیات خان کی ضمانت ضبط کروادی۔ انتخابی مہم میں ’’بھٹو کو ووٹ دو بھٹو کو نوٹ دو‘‘ کا نعرہ بڑا مقبول ہوا۔

1970کے منصفانہ انتخابات میں پیپلزپارٹی کے اسلامی سوشلزم کے نظریہ کو پذیرائی حاصل ہوئی۔ 22خاندان انتخابی مہم کے اہم موضوعات تھے لیکن پیپلزپارٹی نے مغربی پاکستان میں بڑے بڑے سیاسی برج الٹ دئیے۔ کیمبل پور( اٹک ) فیوڈلزم کی مکمل گرفت میں تھا لیکن پیپلزپارٹی کے انقلابی پروگرام کے سامنے کوئی جاگیر دار کھڑا نہ رہ سکا۔ ملک حاکمین کا دعویٰ ہے 1973میں سینٹ کے انتخابات میں سابق وزیر اعظم ذولفقار علی بھٹو نے شیخ احمد وحید کو ان کی ضمانت پر پارٹی ٹکٹ جاری کیا۔ چکوال سے چوہدری امیر خان بیگوال جو کہ قومی اسمبلی کے رکن تھے کو قتل کردیا گیا تو شورش ملک شیخ محمد رشید اور میں نے ذوالفقار علی بھٹو کو باور کروایا کہ پارٹی ٹکٹ چوہدری امیر حسین کے بیٹے ایاز امیر کو دیا جائے لیکن ایاز امیر فوج کے ملازم ہونے کے باعث الیکشن نہیں لڑ سکتے تھے لہذا پارٹی ٹکٹ نذر حسین کیانی کو ایوارڈ کردیا گیا۔ انہوں نے بتایا کہ 1970کے انتخاب میں ایم پی اے منتخب ہونے بعد ذوالفقار علی بھٹو سے ان کی پہلی ملاقات انٹر کانٹیننٹل ہوٹل راولپنڈی میں ہوئی۔ ذوالفقار علی بھٹو جنرل یحییٰ خان اور جنرل حمید سے ملاقات کرکے واپس آئے تو میری ان سے ایک گھنٹہ تک ملاقات جاری رہی ۔

انہوں نے بتایا کہ’’ میں جب واپس جارہا تھا اور لابی میں واپس جانے کے لیے ڈرائیور کا انتظار کررہا تھا تو نور محمد عرف نورا مغل دوڑتا ہو ا میرے پاس آیا اور بتایا کہ ذوالفقار علی بھٹو نے ان کے بارے میں غلام مصطفٰی کھر سے کہا ہے کہ دنیا کا ہر انسان بے وفا ہوسکتا ہے لیکن یہ نوجوان کبھی بے وفائی نہیں کرے گا میں اس نوجوان کی آنکھوں میں وفا دیکھ رہاہوں ملک حاکمین خان لکھا ہے کہ’’ سقوط ڈھاکہ کے بعد جب قومی اسمبلی کا پہلا اجلاس بلایا گیا تو ذوالفقا علی بھٹو 104ووٹ سے ملک کے صدر منتخب ہوگئے۔ 17اپریل 1972کو قومی اسمبلی نے عبوری آئین منظور کرلیا 20اپریل1972ء کو ذوالفقار علی بھٹو نے آئین کی توثیق کی۔ انہوں نے 21 اپریل 1972ء کو راولپنڈی کے ریس کورس گراونڈ میں پروقار تقریب کا خاص طور پر ذکر کیا ہے جس میں ذو الفقار علی بھٹو کے حلف اٹھانے کے بعدملک سے مارشل لاء ختم ہو گیا۔

ملک حاکمین نے اپنی کتا ب میں لکھا ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو اور اندرا گاندھی کے درمیان شملہ میں پانچ روز تک جاری رہنے والے مذاکرات کے کئی دور ہوئے بعض اوقات مذاکرات ناکام ہوتے ہوتے بچے 2جولائی 1972کو معاہدہ شملہ پر دستخظ ہوگئے معاہدے کے بعد جب ذوالفقار علی بھٹو پاکستان واپس آئے تو ان پر جوش استقبال کیا گیا جنگی قیدیوں کی واپسی پر ذوالفقار علی بھٹو اور ملک غلام مصطفٰی کھر نے انہیں جنگی قیدیوں کا استقبال کرنے اور انہیں متعلقہ کیمپوں تک پہنچانے کی ہ ذمہ داری سونپی۔ ملک حاکمین کی ذاتی کوششوں سے ذوالفقار علی بھٹو نے کیمل پور (اٹک ) کو ایک پسماندہ علاقہ ڈکلیر کیا گیا۔انہوں نے انکشاف کیا کہ 17اپریل 2012کو تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے شادی کی ایک تقریب میں انہیں اپنی جماعت میں شمولیت کی ترغیب دی لیکن انہوں نے معذرت کرلی ۔

جب انہیں صوبائی وزیر جیل خانہ جات بنایا گیا تو انہوں نے جیلوں میں اصلاحات متعارف کروائیں جیلیں جو عقوبت خانہ بنی ہوئی تھیں جہاں قیدیوں کو سہولیات فراہم کیں انہوں نے بتایا کہ پورے ملک میں جیلوں کا جال بچھانے کی’’ سرخی ‘‘دراصل ان کے ساتھ سنگین مذاق تھا جس سے انہیں سیاسی طورپر بہت نقصان پہنچا ۔ اس مذاق نے ان کی ساری خدمات پر پانی پھیر دیا ۔ انہوں نے خاردار سیاست کے شب و روز میں ملک محمد خان المعروف محمد خان ڈاکو کا خاص طورپر ذکر ہے وہ وادی سون کا’’ رابن ہوڈ‘‘ کہلاتا تھا وہ سزا موت پانے کے بعد کئی مرتبہ پھانسے کے تختے پر چڑھتے چڑھتے بچ گیا۔ کم و بیش بائیس سال قید کاٹی ملک محمد خان کو ایک عمومی حکومتی حکم نامے کے بعد طویل قید سے رہائی ملی ملک حاکمین نے شیخ القرآن مولانا غلام اللہ مرحوم سے خصوصی مراسم کا ذکر کیا ہے۔ ملک حاکمین نے ذوالفقارعلی بھٹو کی کامیاب خارجہ پالیسی کا بھی احاطہ کیا ہے کہ 1979میں جب ضیاء الحق نے بھٹو کو پھانسی دینے فیصلہ کیا تو سعودی عرب اور چین نے ان کی جان بخشی کی اپیل کی لیکن اسے پذیرائی نہ ملی ۔ ملک حاکمین خان کی خود نوشت پاکستان کی سیاسی تاریخ کے بارے میں ایک مستند کتاب ہے ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

تجزیے و تبصرے