‘ہزاروں افغان طالبان بلوچستان کے مدارس میں زیر تعلیم’

واشنگٹن: بلوچستان کے وزیر برائے داخلہ و قبائلی امور سرفراز بگٹی نے کہا ہے کہ اب بھی ہزاروں افغان طالبان ان کے صوبے میں موجود دینی مدارس میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔

امریکی نشریاتی ادارے’وائس آف امریکا‘ کے افغان ریڈیو چینل ’دیوا‘سے بات کرتے ہوئے سرفراز بگٹی کا کہنا تھا کہ بلوچستان کے بہت سارے مدارس میں افغان طالبان زیر تعلیم ہیں، جب کہ بہت سے مدارس ان کی ملکیت ہیں۔

اس رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ پاکستان میں موجود 30 ہزار سے زائد مدارس میں سے زیادہ تر قانونی ہیں اور وہ مذہبی تعلیم دینے پر سختی سے عمل پیرا ہیں، مگر ہزاروں مدارس ایسے بھی ہیں جو حکومت کے پاس رجسٹرڈ نہیں ہیں اور’ وہ انتہائی پسندی اور طالبانائیزیشن کی تعلیم دیتے ہے اور اسی مقصد کے لیے لوگ بھرتی کرتے ہیں‘۔

وزیر مملکت برائے مذہبی امور امین الحسنات شاہ نے امریکی نشریاتی ادارے کو بتایا کہ ان مدارس میں سے زیادہ تر اپنے فنڈز بیرون ممالک اور خصوصی طور پر عرب ممالک سے حاصل کرتے ہیں۔

وزیر مملکت کے مطابق حکومت ان مدارس کے منی ٹریل اور ان کی جانب سے ان پیسوں کے خرچ کی نگرانی کر رہی ہے، حکومت یہ یقینی بنانا چاہتی ہے کہ اس رقم کو دینی مدارس کے تحت پاکستان میں کسی مشکوک سرگرمی اور انتہاپسندی کے خلاف استعمال نہ کیا جائے۔

امین الحسنات شاہ نے بتایا کہ حکومت نے ان مدارس میں رجسٹریشن اور نصاب کے ذریعے بہتر تبدیلیاں لانے کا عہد کیا ہے، اس لیے تہیہ کیا گیا ہے کہ کسی طرح کی انتہاپسندی سے منسلک سرگرمی کو مانیٹر کرنے کے لیے ان مدارس پر نظر رکھی جائے گی۔

نیشنل کاؤنٹر ٹیرارزم اتھارٹی (نیکٹا) کے چیف احسان غنی نے بتایا کہ’حکومت نے انسداد دہشت گردی سے متعلق نئی پالسیسی تشکیل دی ہے‘، جس میں مدارس کے نظام کی اصلاحات بھی شامل ہیں، اور حکومت نے تمام غیر رجسٹرڈ مدارس کی رجسٹریشن کا تہیہ کرلیا ہے۔

امریکی نشریاتی ادارے نے اپنی رپورٹ میں مزید بتایا ہے کہ پاکستان اور افغانستان کے خفیہ اداروں کے عہدیداروں اور ماہرین نے بتایا کہ ملک میں موجود کثیر غیر رجسٹرڈ مدارس پاک-افغان خطے میں انتہاپسندی میں اضافے کی وجہ ہیں۔

رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ’ یہ اسکول انتہاپسندی کے نظریے کی تربیت دیتے ہیں اور طالبان کو ثابت قدم رہنے والے جنگجو مہیا کرتے ہیں‘، جو امریکی نواز افغان حکومت کے خلاف گزشتہ ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے خونی بغاوت میں ملوث ہیں۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ زیادہ تر انتہاپسند سرگرمیاں وسطی بلوچستان میں ہوتی ہیں، جہاں 5 ہزار 500 مدارس بورڈنگ اسکول کے طور پر چل رہے ہیں۔

رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ بہت سارے ایسے مدارس ہیں، جو حکومت کی نظروں سے بچے ہوئے ہیں ، اور وہیں سے دہشت گردی کے لیے سامان مہیا کیا جا رہا ہے۔

گزشتہ ماہ افغانستان کی وزارت داخلہ کے ترجمان صادق صدیقی نے امریکی نشریاتی ادارے کو بتایا تھا کہ کندھار میں کیے گئے دھماکے کی منصوبہ بندی بلوچستان کے علاقے چمن میں موجود ماولاوی احمد مدرسہ میں کئی گئی، اس دھماکے میں متحدہ عرب امارات کے 5 سفارت کار ہلاک ہوئے تھے۔

رپورٹ میں حکومت بلوچستان کی جانب سے فراہم کیے گئے اعداد وشمار بھی فراہم کیے گئے ہیں، جن کے تحت اندازے کے مطابق 5 ہزار سے زائد افغان باشندے صوبے بھر کے مدارس میں زیر تعلیم ہیں۔

رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ طالبان کا سربراہ حبت اللہ مبینہ طور پر کوئٹہ کے قریبی علاقے کچلاک کے ایک مدرسے سےاپنے کام سر انجام دے رہا ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے