حسن صاحب! یہ امریکی بیانیہ ہے

دلیل پر جامعہ اشرفیہ میں علمائے دیوبند کی ایک کانفرنس کے اعلامیے پر جناب حسن الیاس کا تنقیدی مضمون دیکھا. آنجناب کی اصل خوبی یہی ہے کہ جناب جاوید غامدی صاحب کے داماد ہیں، اور جیسے غامدی صاحب کو دین کے کسی بھی اصول اور کسی بھی شخصیت پر تنقید کرنے کا کھلا اختیار حاصل ہے، داماد بھی اس حق کا دعویدار ہے کہ آخر داماد کس کا ہے؟

مضمون پڑھا، تو لب خنداں سے بےاختیار آہ نکل گئی! مغالطہ در مغالطہ کا مجموعہ اور فریبِ نظر کا ایک ایسا شاہکار، جس پر شاید خود لکھاری نے بھی نظرثانی کی کوشش نہیں کی، ورنہ وہ خود ہی اسے ڈسٹ بن کی نذر کر دیتا. دوسروں کے الفاظ اور خیالات کو من مانا مفہوم پہنانا اور اپنا مطلب کشید کرنا اور پھر سیدھے سادے مفہوم کو ذومعنی کلام کے ذریعے مشکوک بنانا کوئی اس مضمون میں دیکھے. گلہ مگر ان سے اس وجہ سے نہیں کہ تشکیک پھیلانا اس گروہ کی خاص صفت ہے اور یہ کام پہلے مستشرقین کرتے تھے، مگر جب ان کو خود گھر سے ہی گھر کے لوگ، گھر کے ہی خلاف مل گئے، تو انہوں نے اپنے بوریا بستر لپیٹے اور اپنے اپنے ملکوں کو جا سدھارے. اب ہمارے متجددین اس کام کو بخیروخوبی انجام دے رہے ہیں.

حسن صاحب کی یہ ساری کوشش تشکیک پھیلانے اور سیدھے سادے بکرے کو سانڈ بنا کر پیش کرنے کے سوا کچھ بھی نہیں. انہوں نے علمائے دیوبند کے اس متفقہ اعلامیے پر نکتہ وار تنقید کی ہے. اس عاجز کی عادت جواب در جواب کی نہیں، مگر غامدیت کو پورے تیقن کے ساتھ عصر حاضر کا سب سے بڑا فتنہ سمجھنے کی وجہ سے جواب لکھنا اپنی ذمہ داری سمجھا. مگر جواب سے پہلے ایک وضاحت سن لیجیے.

پاکستان کا مطالبہ دو قومی نظریے کی بنیاد پر کیا گیا تھا. پاکستان کا مطلب کیا؟ لا الہ الا اللہ! اتنا واضح نعرہ تھا کہ جس کا علم اور جس کا فہم اس وقت بچے بچے کو تھا. ہر کسی کو اس بات کا ادراک تھا کہ پاکستان کی صورت میں ایک ایسا ملک بنایا جا رہا ہے، جہاں پر اسلام اور مسلمانوں کی حکومت ہوگی. علامہ اقبال اور قائداعظم کہہ رہے تھے کہ ہم ایک ایسے قطعہ زمین کے طالب ہیں، جہاں ہم اسلامی اصولوں کو آزما سکیں. مسلم لیگ کے ہر جلسے میں یہی آواز اٹھتی تھی، ہر اجلاس اس سےگونجتا تھا، ہر لیڈر اور ہر راہنما اسی کی مالا جپتا تھا. پاکستان بنا تو قرار دار مقاصد کے ذریعے طے ہوگیا کہ ملک کا نظم خدائی اصولوں کے مطابق ہوگا. پھر چھپن، باسٹھ اور تہتر کے آئین میں بطورخاص شریعت اسلامی کو نافذ کرنے اور قابل قبول بنانے کے وعدے کیے گئے ہیں. دستوری طور پر طے ہونے کے ساتھ عوامی سطح پر جب بھی سروے ہوا ہے تو 80 سے 90 فیصد لوگوں نے اسلامی نظام کے نفاذ کی خواہش کا اظہار کیا ہے. حال ہی میں ایک سے زیادہ سروے ہوئے، سامنے آیا کہ قوم اب بھی شریعت ہی کی طالب اور خواہاں ہے.

علمائےدیوبند نے اسی بنیاد پر تحریک پاکستان کی حمایت کی تھی. خیبرپختونخوا اور سلہٹ میں تقسیم کے حق میں مہم چلائی تھی. اور آج تک اس پر قائم ہیں. پرامن طریقے سے، بغاوت اور فتنے سے بچتے ہوئے، قوم اور امت کے خون سے ہاتھوں کو بچاتے ہوئے، خود قوم کو باشعور بنانا، شریعت کے احکام کو اختیار کرنے کے لیے تیار کرنا اور اپنی تمام صلاحیتوں کو اس کے لیے استعمال کرنا اپنی ضرورت ہی نہیں مقصد بھی سمجھتے ہیں، اور عبادت سمجھ کر اس کام کو ا نجام دیتے ہیں. لہذا اگر وہ دستوری طور پر طے ہونے اور عوامی خواہش کے مسلسل اظہار کے بعد نفاذ شریعت کا مطالبہ کرتے ہیں، تو خود آئین پاکستان ہی کی تکمیل کا مطالبہ کرتے ہیں، پاکستان ہی کی تکمیل کا مطالبہ کرتے ہیں، خصوصاً جبکہ شدت پسند تحریکوں کی بنیاد ہی اس بات پر رکھی گئی ہے کہ پاکستان کا آئین اور نظام کفریہ ہے، تو ایسے میں یہ بہترین آپشن ہے کہ ملک کے نوجوان، جو ملک کا روشن سرمایہ بن سکتے ہیں، انھیں کہیں اور بھٹکنے کے لیے چھوڑ دینے کے بجائے ملکی دھارے میں شامل ہونے کےلیے راغب کیا جائے، اس کے لیے عملا نفاذ شریعت کا مطالبہ مناسب بلکہ ضروری ہے.

عسکریت پسندوں کے امام ایمن الزواہری نے پاکستانی آئین میں دس کے قریب نکات ایسے ذکر کیے ہیں، جن کی بناء پر ان کے نزدیک پاکستانی آئین کفریہ ہے، حالانکہ اسے مولانا مفتی محمود، مولانا شاہ احمد نورانی جیسے علمائے کرام نے منظور کرانے میں اہم کردار ادا کیا. تو اب اگر علماء اپنے منظور کردہ اسی آئین کے بارے میں کہتے ہیں کہ اس کی تمام شقوں پر عمل کرو، اور نظم ریاست و حکومت کو اسلامی احکامات کے مطابق ڈھالو تو اس میں برا کیا ہے.! کیا غامدیت چاہتی ہے کہ نظام درست نہ ہو اور نوجوان ایسے بہکتے رہیں، ایندھن بنتے رہیں. پھر یہ مطالبہ جیسا کہ عرض کیا کہ محض علماء کا نہیں، بلکہ قوم کی غالب اکثریت کا ہے.

اب موضوع کی طرف آتے ہیں اور اس کا نمبر وار اس کا جائزہ لیتے ہیں.

1 – جی! آئین پاکستان کا کیا، کسی بھی ملک کا ہو، اس میں بہتری کی گنجائش موجود رہتی ہے، اور وقتا فوقتا تبدیلیاں بھی کی جاتی ہیں. حیرت کی بات ہے کہ غامدی صاحب اپنے سایہ عاطفت میں رکھنے کے باوجود اس بنیادی نقطے کو بھی نہ سمجھا سکے، اور اس پر آپ نے ویسے اعتراض جڑ دیا جیسے وہ حدیث اور فقہ کے باب میں کیا کرتے ہیں. اور کیا یہ صرف علماء نے کہا ہے، آپ کا محبوب لبرل طبقہ، قوم پرست اور دیگر کئی طبقات اپنے اپنے زاویے سے تنقید کرتے ہیں. پھر کچھ کمی خامی تھی تو اب تک دو درجن آئینی ترامیم ہو چکی ہیں. علمائے کرام آئین پر تو سوال کھڑا نہیں کر رہے، اس کے عملی نفاذ کی بات کر رہے ہیں، اور اس میں کچھ کمی ہے تو اس کا جائزہ لینے اور دور کرنے کا کہہ رہے ہیں، تاکہ ہمارا نوجوان ہمارے ہاتھ سے پھسل کر کسی اور کے ہتھے نہ چڑھے. پھر اس کے لیے نہ تو انھوں نے ڈنڈا اٹھایا ہے نہ بندوق، بلکہ آپ کی پسند کے مطابق جمہوریت کا بھی حصہ ہیں، اور مطالبہ بھی حکومت سے کر رہے ہیں، خود نافذ کرنا شروع نہیں کر دیا. اب حکومت سے مطالبہ شرع غامدی میں جرم کہلائے گا؟

حالانکہ آئین و جمہوریت دونوں اس کی اجازت دیتے ہیں، اور آپ اور دیسی لبرلز ہی ہمیں بتایا کرتے ہیں کہ درست طریقہ یہی ہے کہ پرامن اور جمہوری جدوجہد سے بات کی جائے اور اہل حکومت کو متوجہ کیا جائے.
یہ بات اپنی جگہ کہ غامدی صاحب مسلسل ہوتی قلب ماہیت کے بعد اس ”مغربی“ نتیجے پر پہنچے ہیں کہ ریاست کا کوئی مذہب نہیں ہوتا، سو آپ کے لیے شاید یہ مسئلہ نہ رہا ہو مگر علمائے کرام کے لیے تو ہے کہ یہی اس ملک کا مقصد تھا، یہی آئین پاکستان کی منشا ہے اور یہی پاکستان کے عوام کا مطالبہ ہے.

2 – آپ کہتے ہیں کہ علمائے کرام نے مسلم مقبوضہ علاقوں میں مجاہد بنا بنا کر بھیجے. یہ تو صراحتا جھوٹ ہو گیا. مگر خیر جو اسلام کے باب میں جھوٹ بولنے اور اغیار کی زبان بولنے سے نہ شرمائے، اس کے لیے یہ جھوٹ روا ہے.
جو کام ریاست نے کیا، اس کی ذمہ داری علماء پر کیسے ڈالی جا سکتی ہے اور انھیں کیسے ذمہ دار ٹھہرایا جا سکتا ہے؟ کسی مولوی نے ایسا کیا بھی، تو ریاست کی اجازت یا حکم سے کیا. ریاست کے ساتھ آپ کا معاملہ حدیث جیسا ہی ہے، جو دل کیا لے لیا، جو چاہا رد کر دیا. غامدی بیانیہ سارا ریاست کے گرد گھومتا ہے، یہ سب ریاست نے کیا تو اسے غلط کیسے قرار دے رہے ہیں، وہ بھی ایسے کہ ریاست پر حرف نہ آئے اور تمام بوجھ علماء پر لاد دیا جائے. ریاستی جہاد کے قائل تو آپ بھی ہیں، بلکہ آخری اطلاعات (اس لیے کہ نہیں معلوم کب بیانیہ بدل جائے اور دیگر احکامات کی طرح اسے بھی منسوخ ہی قرار دے ڈالیں) کے مطابق اسی کے ہی قائل ہیں، سو اعتراض کس بات کا؟ ریاست نے ان کو والنٹیر بھیجنے کا کہا اور انھوں نے اطاعت کی. آپ کے مطابق جہاد صرف حکومت ہی کا حق ہے، پوری ریاست اور اس کے ادارے اس میں مکمل طور پر انوالو تھے، علماء نے جب حکومت کے کہنے پر کہا ہے، تو یہ سرکاری جہاد ہی تو ہوا! تو پھر واویلا کیسا! اور ہاں! یہ وہی جہاد نہیں،کہ خود غامدی صاحب جس کے معترف تھے،! اور اس کے بارے میں فرماتے تھے،
”محمد ضیاء الحق فی الواقع اسلام کی نشاط ثانیہ کے اس دور میں ہمارے ترکش کا پہلا تیر تھا. یہ قوم ان کی ہر بات فراموش کر سکتی ہے، لیکن جہاد افغانستان کے معاملے میں وہ جس طرح اپنے مؤقف پر جمے رہے اور جس پامردی اور استقامت کے ساتھ انہوں نے فرزندان لینن کے مقابلے میں حق کا علم بلند کیے رکھا، اسے اب زمانے کی گردشیں صبح نشور تک ہمارے حافظے سے محو نہ کر سکیں گی. (جاوید احمد غامدی، شذرات ماہنامہ اشراق، جلد ۱، شمارہ ۱، ستمبر ۱۹۸۸ ء، صفحات: ۶ تا ۸۔)“
دیکھیے صاحب! غامدی صاحب نے اب اگر اپنا قبلہ بدل لیا ہے تو خوشی سے بدلے رہیں، دوسروں سے بھی اس کی توقع کرنا کوئی عقلمندی کی بات نہیں.

3 – آپ کو انکار ہے کہ دہشت گردی کی وجہ پرویز مشرف کے وہ غیر معقولی فیصلے نہیں تھے، جن کی وجہ سے امریکہ کو افغانستان میں درآنے کا موقع ملا. اس کے جواب میں تو بس مسکرایا ہی جا سکتا ہے. امریکہ ہزاروں میل دور سے آتا ہے، سارے عالمی اور علاقائي قوانین کو پس پشت ڈال کر ایک مستحکم اور خودمختار حکومت پر، اس ریاست کی مصالحت کے لیے پیش کردہ تمام ممکنہ آپشنز کو چھوڑ کر حملہ کرتا ہے، کوئی ثبوت نہیں، کوئی دلیل نہیں، بس اپنی چوہدراہٹ کے زعم میں دندناتا ہوا آتا ہے اور کارپٹنگ بمبنگ کرکے بموں کی تہہ بچھاتا ہے، معصوم عوام کا خون بہاتا ہے، آپ کو مگر یہ سب کچھ نظر نہیں آتا! یہی پاکستان پہلے موجود تھا، یہی علماء، یہی مدارس تھے، مگر ان کی طرف کبھی کسی نے ایسی بات منسوب کی تھی!
پھر اس میں بھی بات پوری نہیں کی جاتی، یہ بولتے یا لکھتے قلم و زبان کیوں دُکھتے ہیں کہ طالبان کو افغانستان میں لایا کون تھا؟ تسلیم کس نے اور کیسے کیا تھا؟ اور ابھی بھی ان کی حمایت کا الزام کس پر ہے؟ کسے حقانی نیٹ ورک اور افغان طالبان کا سرپرست کہا جاتا ہے. علمائے کرام کو یا ریاست کو؟ جواب تو آپ کو ہم سے زیادہ اچھی طرح معلوم ہے، مگر غامدی صاحب کے سائے میں معصومیت ایسی بھر گئی ہے کہ بس قربان جائیے. ویسے بھائی صاحب! یہ تو امریکہ ہے، جو افغان طالبان اور جہاد کو فساد کہتا ہے، آپ یہ بولی بول کر ان کے ہمنوا کیوں بن رہے ہیں؟ یا دل میں کچھ کالا ہے؟

4 – آنجناب کی علمی استعداد کا اندازہ تو اس وقت ہوگیا تھا، جب قرآن کی نص صریح کومعطل کرکے یہ فرما دیا تھا اگر ایکسرے وغیرہ سے معلوم ہوجائے، کہ حمل نہیں، تو خاتون تین حیض گزارے بغیر بھی نکاح کرسکتی ہے،! مگر خیر، کسی بھی حکومت کے خلاف خروج ایک شرعی حکم ہے، جو آپ کو بتاتا ہے کہ خروج کب جائز ہے، کب واجب ہے اور کب حرام ہے؟ چونکہ آپ کے سسر صاحب پہلے ہی کہہ چکے کہ میرے طریقہ سے اصول فقہ کی ضرورت ہی باقی نہیں رہے گی، لہذا اس مضمون کی طرف آپ کا عدم اعتناء سمجھ میں آنی والی چیز ہے. آپ کہتے ہیں کہ ان کے خروج کے عدم جواز کی وجہ بتا دیں، نص کیا ہے قرآن کی؟
تو عرض ہے، الفتنہ اشد من القتل، اور بیسیوں احادیث جو سلطان جائر کے ماننے پر آئی ہیں، وہ سب دلیل بنتی ہیں.
افغانستان میں جس دور میں طالبان کا ظہور ہوا، اس وقت کوئی مرکزی حکومت نہیں تھی، چند چند میل کے فاصلے پر وار لارڈز کی حکومتیں تھیں، لہذا افغان طالبان نے آسانی سے ان کو مغلوب کر کے اپنی کامیابی کو آگے بڑھایا، وہاں تو فتنہ پہلے سے موجود تھا، ان کے آنے سے تو فتنہ ختم ہوگیا.
جبکہ ہمارے ہاں ایک مضبوط ریاست موجود ہے، اس کا آئین اسلام کی بالادستی تسلیم کرتا اور قرآن و سنت کے مطابق قانون سازی کا حکم دیتا ہے. پھر ایک مضبوط ریاست کی موجودگی میں ایسی کوئی کوشش کامیاب نہیں ہوگی، صرف فتنہ ہوگا اور بڑھے گا، لہذا پاکستان میں بحکم شرعی ایسی حرکت جائز نہیں ہوگی.
ریاست پاکستان سے لڑنے والوں کی اکثریت البتہ اس دلیل سے متاثر ہوئی ہے، سو علمائے کرام سمجھاتے بھی ہیں اوران کی غلطی بھی واضح کرتے ہیں. سو اس میں اعتراض کیا ہے؟ یہ کیا کہ کارپٹ بمباری کرنے اور مسلمانوں کا قتل عام کرنے والے امریکہ و برطانیہ کا غم تو آپ کو کھاتا رہے، اور آپ جارح قوتوں کی نمائندگی کرتے ہوئے ڈائیلاگ ڈائیلاگ پکارتے رہیں، مگر اپنے اہل وطن کے لئے اس لفظ سے اتنی نفرت اور عدم برداشت! آخر بات کیا ہے!؟ کچھ ہمیں بھی سمجھائیے.

5 – آنجناب کو اس بات کی بڑی پریشانی ہے کہ علماء نے مفسدین سے مذاکرات کا مشورہ کیوں دیا؟ بقول آپ کے قرآن میں تو ایسا کچھ ہے ہی نہیں! ان کو تو بس بیخ و بنیاد سے ختم کرنا ہی بنتا ہے!
آپ کو بتانا بنتا ہے کہ قرآن میں تو صاف حکم موجود ہے کہ اگر مؤمنین کے دو گروہ لڑ پڑیں، تو ان کے بیچ صلح کرواؤ. علماء نے تو حکم قرآنی کی تعمیل میں یہ مشورہ دیا، اور اس وقت دیا جب ریاست خود راضی تھی، اور مذاکرات کر رہی تھی. آپ کس کے حکم کی تعمیل میں فساد بڑھانے کا مشورہ دیتے ہیں!

ان گروہوں میں مختلف گروہ اور مختلف ذہنیت کے لوگ شامل رہے ہیں. کچھ تو وہ ہیں، جو اپنے خاندان اور قبیلے پر ہونے والے ظلم کے ردعمل میں کھڑے ہوئے، ایسے لوگوں کے زخموں پر تو حکومت کو پاہا رکھنا چاہیے اور وہ آسانی سے شرپسندوں سے الگ ہوجائیں گے. جیسا کہ وزیر قبائل کے ساتھ ہوا، اور طالبان کا وزیری گروپ حکومت کا حمایتی رہا.

کچھ وہ ہیں، جو واقعی غلط فہمی کی وجہ سے اس سب کو شرعی جہاد سمجھ کر اس میں لگ گئے ہیں. ایسوں کو سمجھانا چاہیے، مکالمہ کرنا چاہیے، تاکہ وہ لوٹ کر آسکیں. یاد رہے کہ مکالمے کے سب سے بڑے دعویدار تو خود غامدی صاحب ہی ہیں.

جو باقی بچیں اور ہر حال میں ریاست کی مخالفت اور فساد پر جمے رہیں، تو ان عناصر کی واقعی بیخ کنی کرنی چاہیے!

آپ فرماتے ہیں علماء اور طالبان کے بیچ صرف طریقہء کار کا اختلاف ہے، باقی دونوں کا سٹینڈ ایک ہی ہے، نفاذِ شریعت! تو عرض ہے کہ طریقہ کار کے اختلاف سے تو ہی چیزیں حلال اور حرام بنا کرتی ہیں. جانور کو شرعی طریقہ پر ذبح کرو، تو حلال بھی، ثواب بھی، غیر شرعی طریقہ پر کرو، تو حرام. کسی دوسرے کی بیٹی سے شرعی طریقے یعنی براستہ نکاح جماع کرو، تو حلال بھی، ثواب بھی، بغیر طریقہ شرعی جماع کرو، تو حرام اور گناہ!

تو جناب امور تو سارے ہی طریقوں اور رستوں کی وجہ سے حلال اور حرام، اچھے اور برے، درست اور نا درست میں تقسیم ہوتے ہیں. علماء یہی کہہ رہے ہیں کہ شریعت کے نفاذ کا دعویٰ تو درست ہے، مگر اس کا طریق کار ملک و قوم سے دشمنی اور افراد ملت کو خون میں نہلانے کا نہیں ، بلکہ پارلیمنٹ اور عدالت کے رستے سے اس کے لئے جدوجہد کرنا اور قوم کو اس کے لیے تیار کرنا، درست راستہ ہے!

یہ بات صحیح ہے کہ شریعت فساد کی بیخ کنی کی بات کرتی ہے، مگر بیخ کنی کا سب سے احسن طریقہ یہی ہے کہ مخاطب کو پہلے سمجھایا جائے. ایک حضرت ابن عباس رضی اللہ عنھما کے سمجھانے سے چار ہزار خوارج باز آگئے تھے! جنگ نہروان سے پہلے حضرت علی المرتضی رضی اللہ عنہ نے ہر ممکن کوشش کی کہ خوارج سے صلح ہو جائے، اس وقت وہی ہوا جو اوپر کہا، کچھ لوگ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے آ ملے، کچھ الگ ہو کر چلے گئے، اور کچھ فساد پر قائم رہے تو ان سے جنگ کرکے ان کا قلع قمع کر دیا گیا.

آپ کے خیال میں حضرت ابن عباس اور حضرت علی رضی اللہ عنہما کا عمل کیسا تھا کہ انہوں نے فسادیوں کو مذاکرات کی دعوت دی اور لشکر کشی نہ ہونے دی، جب تک ان سے مکالمہ نہ کرلیا؟
جواب ضرور دیجیےگا.

6 – آپ کو شکوہ ہے کہ علماء عوام کو باطل نظام کے خلاف اکساتے ہیں. یہ آپ کی رائے ہو سکتی ہے، حقیقت نہیں. علماء اپنی زندگیوں میں اسلام لانے کےلیے خود بھی محنت کرتے ہیں اور اپنے متعلقین کو بھی اس پر لانے کی کوشش کرتے ہیں، یہی ان کی ذمہ داری بنتی ہے. خود غامدی صاحب ہی تو فرماتے ہیں نا کہ علماء کا کام سمجھانا ہے، اب آپ اس سے بھی روک رہے ہیںِ کیا علمائے کرام سمجھانے والا کام بھی روک دیں!
ذرا سسر داماد پہلے آپس میں بیٹھ کر طے کرلیں کہ کس نے کیا کرنا ہے اور کس نے کون سی بات کرنی ہے.؟
آپ ان کی بھی لٹیا ڈبونے لگے ہیں!
باطل کی ترغیب والی ذمہ داری کچھ دوسرے احباب نے اٹھائی ہوئی ہے..انھی کو ساجھے ہے.!

7 – آپ فرماتے ہیں کہ علماء نے حکومت کے ساتھ اپنی مدد کو نفاذ شریعت کے مطالبات ماننے کے ساتھ مشروط کیا ہے. مشروط تو نہیں کیا، ہاں مطالبہ ضرور کیا ہے. علماء تو تب سے اب تک تعاون کر رہے ہیں، حکومت کا ساتھ دے رہے ہیں. ضرب عضب تک انھوں نے ریاست کے ہر فیصلے کی تائید کی، منبر و محراب سے بھی، اور پارلیمنٹ میں بھی، پھر اعتراض کیسا ہے؟ اگرچہ حکومت خود علماء کی ہی دشمن بنی رہی، تاہم وہ اپنی دینی ذمہ داری کو پورا کرتے ہوئے حکومت کے ساتھ اطاعت اور فرمانبرداری کا ہی درس دیتے رہے اور اب تک اس پر عامل ہیں. الحمدللہ طبقہ علماء جتنا ملک و ملت سے مخلص ہے، اس کے لیے اسے کسی سے سند لینے کی ضرورت نہیں، بالخصوص ان سے جو چھوڑ کر اہل و عیال سمیت بھاگ نکلے.

9،8 – آپ کہہ رہے ہیں کہ علماء افغانستان کے معاملے میں پاکستانی حکومت کی پالیسی کو غلط قرار دے رہے ہیں، تو کیا کسی پالیسی سے اختلاف کرنا شرع غامدی میں جرم کہلاتا ہے؟ شاید آپ کے نزدیک یہ جرم ہو، لیکن اصلا یہ جرم ہے نہیں، اس لیے کہ قوم نے اس پالیسی کو پسند نہیں کیا. پرویز مشرف نے اس پالیسی کو اختیار کیا، اور ان پر ڈبل گیم کا الزام لگا. ایسی پالیسی کے بارے میں اگر کہا جائے کہ اسے ٹھیک کیا جائے تو کیا غلط ہے؟ علمائے کرام تو ریاست و حکومت کو بچانے کی خاطر پوری بات نہیں کہتے، کیا اس کے لیے بھی کسی افلاطونی کی ضرورت ہے.

امریکہ اس وقت دنیا کا سب سے بڑا دہشت گرد بنا پھرتا ہے. افغانستان میں تو آپ علمائے کرام سے نفرت کی وجہ سے امریکہ کی تائید کرتے ہیں مگر عراق اور دیگر ممالک کے بارے میں کیا خیال ہے، اب تو مغربی دنیا بھی مان گئی ہے کہ جھوٹ بول کر عراق کو نشانہ بنایا گیا، شرع غامدی اس بارے میں کیا کہتی ہے؟ کوئی حیلہ کوئی جواز ضرور اس کا بھی سوچ تو رکھا ہوگا، عوام الناس کو بھی آگاہی دیجیے، تاکہ معلوم ہو کہ فکری تابعدار پستی کی کس حد تک جا سکتے ہیں. ہاں‌! یاد آیا، شرع غامدی میں تو اسرائیل حق پر ہے، فلسطینی عوام اور مسلمانوں کا دعوی غلط ہے، اس کے بعد امریکہ کو حق پر ثابت کرنا کیا مشکل ہوگا. پھر کیا یہ حقیقت نہیں کہ امریکہ دنیا بھر کی فوجیں لانے کے باوجود افغانستان میں کامیاب نہیں ہو سکا. امریکی کمانڈرز تو اس کا اعتراف کرتے ہیں مگر کمانڈران غامدی ایسے وفا پرست ثابت ہوئے ہیں کہ امریکہ بہادر کو یقین دلانے میں لگے ہیں کہ نہیں وہ کامیاب ہوا ہے، یہ افغانستان میں لگنے والے کچکوکے تھے کہ آج مشرق وسطیٰ میں تلملانے کے سوا کچھ نہیں کر پا رہا، اور دینا کو ورلڈ آرڈر دینے والے امریکہ سے اب سب سے پہلے امریکہ کی آواز اٹھ رہی ہے. خیر یہ باتیں آپ کی تکلیف ہی بڑھائیں گی، لہذا لیو اٹ!
ہاں! عافیہ صدیقی کو تو خود انصاف پسند امریکی بھی معصوم قرار دیتے اور مقدمے کو دنیا میں فراڈ سمجھا جاتا ہے، مگر آفرین ہے سپاہیان امریکہ پر کہ بے دام بےلگام بندھےچلے آتے ہیں. بالفرض عافیہ صدیقی نے جرم کیا تھا تو قاعدہ یہی ہے کہ حکومت پہلے اپنے بندے کو پنجہ غیر سے چھڑاتی ہے، پھر اگر وہ غلط ہوتا ہے، تو اس پر اپنے ملک میں مقدمہ چلاتی ہے. مگر یہاں تو اسے اپنے ملک میں گرفتار کرکے امریکہ کے حوالے کر دیا گیا. پھر جو سلوک اس کے ساتھ کیا گیا، کوئی ذی شعور اس کی تائید کا سوچ بھی سکتا ہے، خاص کر وہ جو پاکستانی اور مسلمان ہونے کا دعویدار بھی ہو، مگر یہاں تو ایسے لگ رہا جیسے خوش ہوا جا رہا ہے، اور بتایا جا رہا ہے کہ ایسا ہی سلوک اس کے ساتھ ہونا چاہیے تھا.
کچھ تو ش ہوتی ہے، کچھ تو ح ہوتی ہے!
یہ وضاحت پہلے ہی کردی کہ علماء پاکستان میں عسکریت کے مخالف ہیں اور کیوں ہیں؟ وہ بھی بتا دیا

10 – آپ کہتے ہیں کہ علماء کو یورپ میں مسلمانوں کے ساتھ کیا جانے والا سلوک تو نظر آرہا ہے، مگر نائن الیون نظر نہیں آ رہا! واقعی شاہ سے بڑھ کر شاہ کا وفادار اسی کو کہتے ہیں. آپ کو بھی نائن الیون ہی نظر آ رہا ہے، اسلام اور مسلمانوں کے خلاف معاندانہ رویہ نہیں، دعوی اگرچہ اصلی اور حقیقی فہم والے مسلمان ہونے کا ہے. یہ بحث اپنی جگہ کہ یہ کس نے کرایا، مگر اس سے پہلے امریکہ اور یورپ نے مسلمانوں کے ساتھ جو کیا، وہ کس الیون کا نتیجہ تھا؟ گزشتہ دو صدیاں اور بالخصوص انیسویں صدی استعماریت اور تباہی سے بھرپور ہے ، یہ بھی آپ کو نظر آتا ہے .یہ عینک کے شیشے پورے کالے ہوجاتے ہیں. کالے شیشوں سے بھی کچھ نہ کچھ تو نظر آ ہی جاتا ہے، مگر آپ کو ”مظلوم“ امریکہ کے سوا کچھ نظر نہیں آتا. یہاں آ کر نظر سے محروم ہو جاتے ہیں، زبان ہی گنگ ہوجاتی ہے، اور اپنے سسر صاحب کی طرح سارا نزلہ بس مسلمانوں پر ہی ڈال کر گزر جاتے ہیں. فیا للعجب!
انصاف شرط ہے محترم! مگر شرع غامدی اور انصاف، جانے دیجیے.!

11- آپ کہتے ہیں، جو دہشت گرد پکڑے جا رہے، وہ مساجد اور مدارس سے پکڑے جا رہے ہیں، اور انہی جگہوں پر ان کے یہ نظریات بنتے ہیں! اس کی بات کوئی کیوں نہیں کرتا؟
مساجد و مدارس سے جن کو جن عتراضات کے تحت پکڑا جاتا ہے، اس کا حال بھی کوئی بیان کرنے کی چیز ہے؟
ویسے تو پکڑے جانے والے کالجز اور یونیورسٹیوں سے بھی ہیں، بلکہ زیادہ ہیں، کبھی ان کے بارے میں بھی بات کیجیے، سارے پروفیسر، ادارے اور نظام مورد الزام ٹھہرے گا؟ مگر خیر علمائے کرام تو کہتے ہیں کہ ایسے مدارس کی نشان دہی کیجیے، ہم آپ سے پہلے پکڑ کر حوالے کریں گے، پھر جو پکڑے جاتے ہیں، انھیں عدالتوں میں لائیں اور ان کے جرائم پوری قوم کے سامنے بیان کیے جائیں، تاکہ سب دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجائے، مگر ایسا کیا ہی نہیں جا رہا. اندازہ نہیں تھا کہ ایک مدرسے کا فارغ التحصیل بھی مساجد و مدارس فوبیا میں اس قدر مبتلا ہو سکتا ہے. ممکن ہے کہ کسی مولوی صاحب سے کوئی ذاتی مسئلہ ہو، مگر اس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ سب کچھ ہی لپیٹ دیا جائے؟؟
پس چہ باید کرد!

12 – آپ کو اعتراض ہے کہ علماء میڈیا کو بےحیائی قرار دیتے ہیں. خواتین کے مردوں کے ساتھ آزادانہ، بےروک ٹوک اختلاط سے منع کرتے ہیں. یہ اختلاط شرع غامدی میں تو جائز ٹھہرا ہے، تو کیا علمائے کرام بھی جائز قرار دے دیں، اور جو احساس یا ناپسندیدگی ہے، وہ بھی جاتی رہے.
آپ یوں شو کرانا چاہتےہیں، جیسے یہ اکتلاط سے بچنے والی بات علماء نے اپنی طرف سے گھڑی ہے، حلانکہ یہ تو خود شریعتِ اسلامی کا حکم ہے.
علمائے کرام ایسے نظام کا مطالبہ کرتے ہیں، جس میں خواتین مردوں کے ساتھ بےمحابا اور غیر ضروری اختلاط سے بچتے ہوئے اپنی صلاحیتوں کو کام میں لائیں، پڑھیں پڑھائیں، کسی بھی شعبے میں خدمات انجام دیں. ان پر ترقی، انٹرٹینمنت اور خوشحالی کے سارے رستے اپنے ماحول میں، مردوں کیساتھ اختلاط سے بچتے ہوئے کھلے ہیں. اب علماء آپ کے سسر جی کی طرح بےمہار ملنے، ہاتھ ملانے، میں تجھے قبول، تو مجھے قبول کہنے سے شادی ہوجانے کا تو نہیں دے سکتے نا فتویٰ!
اگر آپ قرن فی بیوتکن کا خداوندی حکم نہیں مانتے، تو آپ کی مرضی، علماء تو اسے مانتے بھی ہیں اور اس پر عمل کیے جانے کے خواہاں بھی ہیں. ویسے مسلمان بیبیوں کو بےپردہ ہوکر غیر مردوں کے ساتھ ویلنٹائن منانے، پھول تقسیم کرنے اور موسیقی کی دھن پر رقص کرنے کی اجازت دینے والوں کو عملی نمونے کے طور پر سامنے آنا چاہیے.!

14،13 – آپ کو اعتراض ہے کہ علماء ایک طرف عوام کو رواداری اور محبت کے ساتھ رہنے کا درس دے رہے ہیں اور دوسری طرف خود بین المسالک کفر کے فتوے موجود ہیں.
بین المسالک کفر کے فتوؤں پر شاید آپ کی تنقید بنتی ہو، اور ہم خود بھی اسے درست نہیں سمجھتے، مگر بتائیے گا کہ ان فتوؤں کے باوجود کتنے دیوبندیوں، بریلویوں اور اہل حدیث نے ایک دوسرے کو باہم مارا! پلیز ذرا اچھی طرح کیجیے گا تحقیق!
حقیقت یہ ہے کہ الحمدللہ! ہمارے ماحول میں ان مسالک کا باہمی جدل مناظروں سے آگے کبھی نہیں بڑھا ہے، ایک زمانے میں ہونے والا شیعہ سنی فساد بھی اصلا سازش کا نتیجہ تھا.
آخری نکتہ یہ کہ آپ فرما رہے ہیں کہ علماء بیرونی مداخلت کی نفی فرما رہے ہیں، جبکہ خود بیرون خدمات پیش کرتے رہتے ہیں.
سو بیرونی مداخلت کا مطلب علماء کا دوسرے ممالک میں اپنی خدمات پیش کرنے سے کرنا، اب اس پر کوئی کیا کہے! کہ جب آپ اپنے سسر سمیت خود باہر بیٹھے ہیں. فیا للعجب!

آخری بات یہ ہے کہ علماء نے تو واضح طور پر بتا دیا ہے کہ وہ اللہ، اس کے رسولﷺ اور وطن عزیز کے ساتھ کھڑے ہیں!
ذرا آپ بتائیے کہ آپ کس کے ساتھ ہیں!
یہ ساری باتیں تو واشنگٹن ڈی سی سے امریکی بیانیے کی صورت میں میں بولی، کہی جاتی ہیں، اور ان کے آلہ کار دیسی لبرلز ان کی جگالی یہاں کیا کرتے ہیں. یہ آپ کی تحریر میں کیسے آ گئیں!؟
پہلے شک تھا، اب یقین ہوگیا کہ فکر غامدی اور فکر واشنگٹن دونوں ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں، اور یہ متبادل بیانیہ نہیں، امریکی بیانیہ ہے.

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے