توہین رسالت کا ملزم 5 سال بعد بری

چکوال: لاہور ہائی کورٹ کے راولپنڈی بینچ نے 5 سال قبل توہین رسالت کے الزام میں موت کی سزا پانے والے شخص کو بری کردیا۔

تلہ گنگ کے رہائشی ملزم کو ماتحت عدالت نے 10 سال قید اور 2 لاکھ روپے جرمانے کی سزا بھی سنائی تھی، تاہم لاہور ہائی کورٹ نے ملزم کی نظرثانی درخواست قبول کرتے ہوئے اسے بری کرنے کا حکم دیا۔

عدالت کی جانب سے تفصیلی فیصلہ کچھ دن بعد جاری کیا جائے گا۔

ملزم ایک روحانی پیر ہیں، جن کے سیکڑوں مرید ہیں، پہلے وہ امریکا میں رہائش پذیر تھے اور وہاں بطور مذہبی عالم کام کرتے تھے، بعدازاں 2009 میں وہ اپنے آبائی شہر واپس آئے آگئے۔

وطن واپسی پر مخالفین نے ان کے خلاف مہم شروع کردی اور اسداللہ نامی ایک سرکاری ملازم نے جولائی 2009 میں ان پر توہین رسالت کا الزام عائد کیا۔

پولیس نے ان کے خلاف پاکستان پینل کوڈ (پی پی سی) کے سیکشن 295 اے اور 295 سی کے تحت مقدمہ درج کرکے نہ صرف ملزم کے لیے بلکہ ان کے خاندان، رشتہ داروں اور دوستوں کے لیے بھی مشکلات پیدا کیں۔

دوسری جانب مقامی بار ایسوسی ایشن کے وکلاء نے ملزم کا مقدمہ لڑنے سے بھی انکار کردیا تھا۔

ملزم کے ایک قریبی شخص نے بتایا کہ انہوں نے اسلام آباد سے ایک وکیل کی خدمات حاصل کیں اور ضمانت کے لیے درخواست دائر کی، مگر ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج نے ان کی درخواست مسترد کردی۔

کیس سے حوالے سے کشیدہ صورتحال کے پیش نظر ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج تلہ گنگ مہدی خان نے کیس کو چکوال کی مقامی عدالت کو منتقل کردیا۔

چکوال کے ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج ساجد اعوان نے اس کیس کی سماعت مکمل کی، مگر فیصلہ سنانے سے قبل انہوں نے لاہور ہائی کورٹ کو خط لکھا جس میں درخواست کی کہ سیکیورٹی خدشات کے باعث کیس کسی اور جگہ منتقل کیا جائے۔

جس پر عدالت نے کیس کو ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج جہلم ممتاز حسین کے پاس منتقل کردیا، جنہوں نے مقدمے کی سماعت اڈیالہ جیل میں چلانے کے بعد 30 جون 2012 کو فیصلہ سنایا۔

ایڈوکیٹ چوہدری محمود اختر نے لاہور ہائی کورٹ کے راولپنڈی بینچ میں ملزم کی نظرثانی درخواست جمع کرائی، جس میں مؤقف اختیار کیا گیا کہ ان کا مؤکل بے قصور ہے اور ان کے خلاف جھوٹے الزامات عائد کیے گئے۔

ایڈووکیٹ چوہدری محمود اختر کا کہنا تھا کہ انہوں نے کیس کا اچھی طرح سے جائزہ لینے کے بعد مقدمہ لڑنے کا فیصلہ کیا، انہیں ایک بار اس بات پر یقین ہوگیا کہ ان کے مؤکل نے توہین رسالت نہیں کی اور اسی یقین کی وجہ سے ہی انہوں نے کیس لینے کا فیصلہ کیا۔

ساتھ ہی ان کا کہنا تھا کہ ’کسی کے بھی خلاف توہین رسالت کا الزام لگانا بہت آسان ہے، جس کے ذریعے ملزم اور اس کے خاندان کی زندگی تباہ و برباد کی جاسکتی ہے’۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے