غَلَطُ العَوام اَلفاظ اور اِملا

اُردُو زبان کی بابت داغؔ دہلوی نے قریب سو بَرَس قبل کہا تھا:

؂ نہیں کھیل اے داغ ؔ یاروں سے کہہ دو
کہ آتی ہے اُردُو زباں آتے آتے

اس بات کو اگر آج کے تناظر میں بھی دیکھا جائے تو بالکل سچ لگتی ہے ۔موجودہ دور میں اردو کی صورتِ حال دیکھ کر یہی اندازہ ہوتا ہے کہ یہ مشکِل زبان سیکھنا اب کوئی گوارہ نہیں کرتا۔اردو کو اپنے گھر کی باندی سمجھتے ہوئے جیسے جی چاہے بولا اور لکھا جاتا ہے۔نہایت افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ ان مسائل کی ایک وجہ ہمارے اَساتذہ کی عدم توجہ بھی ہے ۔اساتذۂ کرام اردو کے معاملے میں وہ رویّہ نہیں رکھتے جو دیگر مضامین کے حوالے سے دیکھنے کوملتا ہے۔

اساتذہ سے مجھے یہ گلہ ہے کہ وہ انگریزی میں تو رموزِ اوقاف کی چھوٹی سے چھوٹی غلطی نکالتے ہیں لیکن اردو میں ایسا کوئی قانون لاگو نہیں کرتے۔تلفظ کو ثانوی چیز سمجھا جاتا ہے۔حالاں کہ کسی بھی زبان کا حسن اس کے درست تلفظ میں ہوتا ہے ۔ہمارے اِداروں میں اکثر اردو کے اساتذہ خود ہی غلط املا اور تلفظ کا استعمال کرتے ہیں جو کہ باعثِ تشویش ہے۔ہم لوگ تحقیق سے عاری ہو چکے ہیں مکھی پہ مکھی مارنا ہمارا وتیرہ بن چکا ہے۔ہمارے اخبارات ،ریڈیو اور ٹیلی ویژن والے غلط اردو کے استعمال سے رہی سہی کسر پوری کر دیتے ہیں، جو املا اور تلفّظ کا خیال رکھے بغیر سب اچھا کی بنا پر غلط اردو استعمال کرتے نظر آتے ہیں ۔

میں نے اردو کا طالب علم ہونے کے ناتے ہمیشہ اغلاط کی نشان دہی کرنے کی سعی کی ہے۔اس مضمون میں بھی کچھ ایسی ہی غلطیوں کی طرف توجہ دلائی گئی ہے جو عام طور پر کی جاتی ہیں۔

مثلاً ہمارے ہاں عموماً ’’دن بدن‘‘ کی ترکیب استعمال کی جاتی ہے جو کہ درست نہیں ہے۔ ’’دن بدن ‘‘ کی بجائے ’’روز بہ روز‘‘ درست ترکیب ہو گئی ۔’’بمعہ‘‘ یا ’’بمع‘‘ ہمارے ہاں کثرت سے استعمال ہوتا ہے۔ لیکن یہ بھی غلط ہے ۔ اس کے لیے اردو میں مستعمل درست لفظ’’مع‘‘ ہو گا۔جس کا مطلب’’ ساتھ ‘‘ہوتا ہے۔ہمارے ہاں کسی کا شکریہ ادا کرنے کے لیے لفظ ’’مشکور‘‘ عام طورپر استعمال کیا جاتا ہے جو معنوی اعتبار سے درست نہیں۔’’ مشکور‘‘ کا مطلب ہے’’شکریہ ادا کروانے والا‘‘ بالکل جیسے’’مقتول ‘‘ قتل ہونے والا یا ’’مخدوم‘‘ خدمت کروانے والا۔ میں آپ کا مشکور ہوں۔ اس جملے کا مطلب ہوا کہ آپ میرا شکریہ ادا کریں ۔ درست جملہ ’’ میں آپ کا شکر گزار ہوں ‘‘ ہو گا۔ ’’قریب المرگ‘‘ ایسے شخص کی یہ اصطلاح استعمال کی جاتی ہے جو موت کے قریب ہو ۔ لیکن قواعد کی رو سے یہ ترکیب درست نہیں ہو گی۔’ ’قریب اور مرگ ‘ ‘دونو ں فارسی الفاظ ہیں جب کہ’’ ال‘ ‘ عربی ہے اس لیے ان کی ترکیب نہیں بنے گی ۔’’ قریب المرگ‘‘ کی بجائے ’’قریبِ مرگ‘‘ یا پھر ’’قریب الموت‘‘ ٹھیک اصطلاح ہو گی۔اکثر کسی رشوت خور شخص کے لیے ’’راشی‘‘ کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے۔ ہم اس بات کو یاد نہیں رکھتے کہ ’’راشی‘‘ کا مطلب ’’رشوت دینے والا‘‘ ہوتا ہے نہ کہ لینے والا۔ رشوت لینے والے کو ’’مرتشی ‘‘ کہا جاتا ہے ۔ہمارے اخبارات میں’’آفیسران‘‘ کا استعمال’’آفیسر‘‘ کی جمع کے طور پر نظر آتا رہتا ہے۔ اس حوالے سے وضاحت کر دوں کہ’’آفیسر‘‘ چوں کہ انگریزی زبان کا لفظ ہے جس کی جمع’’آفیسرز‘‘ہوگی نہ کہ’’آفیسران‘‘ یا دوسری صورت میں’’افسر‘‘ ہوتا ہے جس کی جمع’’افسران‘‘ ہو گی ۔اس لیے بہتر ہو گا کہ ’’آفیسرز‘‘ یا ’’افسران‘‘ استعمال کیا جائے۔

مندرجہ بالا اغلاط کے علاوہ مزید کچھ تلفّظ اور اِملا کے حوالے سے غلطیاں ملاحظہ ہوں۔تلفّظ کے معاملے میں اکثر لوگ زیر، زبر کا خیال نہیں کرتے عربی کی طرح اردو میں حرکت بدلنے سے معانی بدل جاتے ہیں۔

مثال کے طور پر ’’اَخلاق‘‘ اور ’’اِخلاق ‘‘ میں تمیز نہیں کی جاتی۔لوگ ’’خُلق‘‘ کی جمع’’اِخلاق‘‘ بناتے وقت یہ بھول جاتے ہیں کہ’’اِخلاق‘‘ کا مطلب’’پُرانا کرنا یا پُرانا ہونا‘‘ہے۔’’اَخلاق‘‘ جمع ہو گی ’’خُلق ‘‘کی۔ اسی طرح کے دیگر الفاظ دیکھیں جن میں حرکت بدلنے سے معانی بدل جاتے ہیں۔ ’’شَفا‘‘ کا مطلب’’ کنارا‘‘ ہے اسی کو جب زیر سے لکھیں گے تو’’شِفا‘‘ کا مطلب’’ صحت یابی‘‘ ہو جائے گا۔ لڑکوں کا ایک نام ’’اَسرار‘‘ ہوتا ہے جو ’’سِر‘‘ کی جمع ہے جس کامطلب’’راز یا بھید‘‘ ہوتا ہے۔ اسی لفظ کو جب’’اِسرار‘‘ کر دیا جاتا ہے تو اس کا مطلب ’’بھوت یا بد روح‘‘یک سر بدل جاتا ہے۔اسی وزن کو جب’’ص‘‘ سے لکھا جاتا ہے تو’’اِصرار ‘‘ کا معنی ’’ضد ‘‘ ہو جاتا ہے۔’’خودکَشی‘‘ یا ’’خودکُشی‘‘ کے استعمال میں بھی احتیاط نہیں برتی جاتی۔ ’’کَش‘‘ کا معنی’’کھینچنا‘‘ ہے جیسے ’’آرا کَش‘‘وغیرہ۔ جب کہ’’کُش‘‘ کا مطلب’’تلف کرنا ،مارنا یا تباہ کرنا‘‘ ہوتا ہے مثلاً ’’جراثیم کُش‘‘۔ان مطالب کے مطابق’’خودکُش‘‘ درست ہو گا۔’’نِقاب‘‘ بھی ایک کثیر الاستعمال لفظ ہے جس کا مطلب’’پردہ ‘‘ ہے کئی لوگ اس کو زبر سے ’’نَقاب‘‘ادا کرتے ہیں۔ ’’نَقاب‘‘کا مطلب ’’نقب لگانے والا‘‘ہوتا ہے۔’’آب وہوا‘‘ کے لیے ’’فِضا‘‘ درست تلفّظ نہیں ہو گا۔’’فِضا‘‘کا مطلب ’’مِٹّی یا کیچڑ‘‘ہوتا ہے۔ ’’آب وہوا‘‘کے واسطے ’’فَضا‘‘درست ہے۔اسی طرح کے دیگر الفاظ دیکھیں جن میں حرکت بدلنے سے یا تلفّظ بدلنے سے معانی بدل جاتے ہیں۔’’سَلائی‘‘ بہ معنی’’ سلاخ،سیخ،دیا سَلائی‘‘ ۔’’سِلائی‘‘ بہ معنی’’سینا ،کپڑوں کی سِلائی‘‘۔’’سَلَف‘‘بہ معنی’’اگلا،سابقہ،پہلے،جمع اسلاف۔’’سُلَف‘‘بہ معنی’’سامان ،اسباب،سوداسُلَف۔’’سِحر‘‘مطلب’’جادو،فسوں،‘‘ ۔’’سَحر‘‘ مطلب’’صبح،صباح،‘‘ اسی سے ’’سَحری‘‘ ہے جسے عام طور پر’’سِحری ‘‘پڑھا جاتا ہے جو غلط ہے۔’’سَمَندر‘‘بہ معنی’’آتشی کیڑا‘‘۔’’سَمُندر‘‘بہ معنی’’بحر،ساگر‘‘ اس کو ’’سَمَندر‘‘ پڑھا جاتا ہے جو غلط العام ہے۔’’دَامَن‘‘مطلب’’پلو‘‘۔’’دامِن‘‘مطلب’’آسمانی بجلی،صاعقہ‘‘ ۔’’اَنعام‘‘کا مطلب’’مویشی ،جانور،نعم کی جمع‘‘۔ ’’اِنعام‘‘ مطلب’’عطیہ،تحفہ‘‘۔’’مُقرِر‘‘ کا مطلب’’تقریر کرنے والا‘‘ ہوتا ہے جب کہ’’مُقرَر‘‘کا مطلب’’متعین،تقرر کیا گیا‘‘ہوتا ہے۔’’نَثار‘‘ مطلب’’نثر نگار،نثر لکھنے کا ماہر‘‘ جب کہ’’ نِثار‘‘کا مطلب’’صدقہ‘‘ہے۔

اس کے علاوہ ذیل میں چند ایسے الفاظ کی نشان دہی کی گئی ہے جو بولنے میں ایک جیسے ہیں لیکِن ان کا املا الگ الگ ہے۔ہم ان کو لکھتے وقت خیال نہیں رکھتے اور غلطی کا ارتکاب کر جاتے ہیں۔

figar2

بعض الفاظ ایسے بھی ہیں جن کی حرکت بدل جانے سے وہ غلط ہو جاتے ہیں، عموماً ہم اپنے علاقائی لہجے کی وجہ سے ان کو غلط پڑھتے ہیں ضرورت ہے کہ ان کو درست ادا کیا جائے۔
figar3

جو الفاظ اپنی الگ شناخت رکھتے ہیں ان کو جوڑ کر لکھنا غلطی تصوُّر کی جاتی ہے۔ اس لیے بہتر ہے ایسے الفاظ کو علاحدہ علاحدہ لکھا جائے۔مثال کے طور پر’’جب کہ‘‘ دو الفاظ ہیں اور دونوں کی الگ پہچان ہے ان کو جوڑ کر نہ لکھا جائے۔ایسے ہی مزید کچھ الفاظ دیکھیں:
figar 4

آخر میں ایسے الفاظ درج کیے جاتے ہیں جو عام طور پر غلط ہی استعمال ہوتے ہیں۔

figar5

 

اُردُوسیکھنے اور اردو سے مَحبَت کرنے والوں کے لیے ایک ادنٰی سی کوشش کی ہے اگر کوئی دوست اس حوالے سے تفصیل جاننا چاہے تو شان الحق حقی صاحب کی’’ فرہنگِ تلفُّظ‘‘ کے علاوہ رشید حسن خان کی’’عبارت کیسے لکھیں؟‘‘اور’’ اردو کیسے لکھیں؟‘‘ پروفیسر غازی علم الدین کی کتاب’’لسانی مطالعے‘‘ ڈاکٹر آفتاب احمد ثاقب کی کتاب’’اردو قواعد و اِملا کے بنیادی اُصول‘‘ڈاکٹر سہیل عباس بلوچ کی کتاب’’بنیادی اردو قواعد‘‘ محمد عبداللہ خویشگی کی ’’فرہنگِ عامِرہ‘‘کے علاوہ بابائے اُردُو ڈاکٹر مولوی عبدالحق کی ’’قواعدِ اردو‘‘ کامطالعہ کرے۔

اردو بلاشبہ ایک مشکِل زبان ہے لیکِن تھوڑی سی کوشش اس مشکِل زبان کو آسان بنا سکتی ہے۔ اُمید ہے اس مضمون سے آپ احباب ضرور مستفید ہوں گے۔ احباب کی قیمتی آرا ء کا اِنتظار رہے گا۔قمرؔ عباس کے اس خوب صورت شعر کے ساتھ اجازت دیجیے۔

؂ تمھاری بزم میں جتنے مرے مخاطب ہیں
خدا کا شکر ہے اُردُو زبان بولتے ہیں

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے