غزل گو شاعر ناصر کاظمی کی آج 45ویں برسی منائی جارہی ہے

ناصر رضا کاظمی آٹھ دسمبر انیس سو پچیس کو انبالہ میں پیدا ہوئے۔ تقسیم ہند کے بعد لاہور میں سکونت اختیار کی۔ ابتدائی تعلیم انبالہ میں ہوئی۔ اس کے بعد اسلامیہ کالج لاہور میں زیر تعلیم رہے۔ اعلیٰ تعلیم کی تکمیل نہ ہو سکی۔ شعر گوئی کا آغاز جوانی میں ہو گیا ۔ شاعری کے علاوہ موسیقی سے بھی گہری دلچسپی تھی۔

،کبھی دیکھ دھوب میں کھڑے تنہا شجر کو’’
‘‘ایسے جلتے ہیں وفاؤں کو نبھانے والے

،دنیا نے مجھ کو یوں ہی غزل گر سمجھ لیا’’
‘‘میں تو کسی کے حسن کو کم کر کے لکھتا ہوں

”بھری دنیا میں جی نہیں لگتا
جانے کس چیز کی کمی ہے ابھی”

اس طرح کے کئی لازوال شعر ان کی تخلیق ہیں۔ ناصر کاظمی نے میر تقی میر کی پیروی کرتے ہوئے غموں کو شعروں میں سمویا اور ان کا اظہار غم پورے عہد کا عکاس بن گیا۔ ناصر کاظمی غزل کو زندگی بنا کر اسی کی دھن میں دن رات مست رہے۔ ناصر نے غزل کی تجدید کی اور اپنی جیتی جاگتی شاعری سے غزل کا وقار بحال کیا اور میڈیم نور جہاں کی آواز میں گائی ہوئی غزل ’’دل دھڑکنے کا سبب یاد آیا ‘‘ منہ بولتا ثبوت ہے۔ اسی طرح خلیل حیدر کو بھی ناصر کی غزل ’’نئے کپڑے بدل کر جاؤں کہاں ‘‘ گا کر پہچان ملی۔

"برگِ نَے””دیوان“ اور ”پہلی بارش“ ناصر کاظمی کی غزلوں کے اور ”نشاطِ خواب“ نظموں کا مجموعہ ہے۔ سٔر کی چھایا انکا منظوم ڈراما ہے۔ برگِ نَے انکا پہلا مجموعہ کلام تھا جو 1952ء میں شائع ہوا۔

ناصر کاظمی جدید غزل کے اولین معماروں میں ہیں۔ چند مضامین لکھے اور نظمیں بھی لکھیں لیکن ان کی شناخت غزل کے حوالے سے قائم ہے جس میں کیفیت، روانی اور لہجے کی نرمی کا بڑا دخل ہے۔ پہلا مجموعہ “برگ نے” ان کی زندگی میں شائع ہوا۔ ۔ دوسرے دو مجموعے “دیوان” اور “پہلی بارش” ان کی وفات کے بعد سامنے آئے۔ یہ مجموعے صرف غزلوں پر مشتمل ہیں جس کی بنیاد پر ناصر کاظمی کے مقام و مرتبے کا تعین ہوتا ہے۔ ناصر کاظمی 2 مارچ 1972 کو خالق حقیقی سے جا ملے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے