داستانِ لوٹ مار

کرپشن اور لوٹ مار کی کہانی کوئی نئی بات نہیں۔۔ تاریخ کھنگالیں تو یہ مذموم ریت ماضی میں بھی پوری آب و تاب کے ساتھ ملتی رہی اور صرف پاکستان میں نہیں بلکہ دنیا بھر میں۔

یہ معاملہ بھی بالکل واضح ہے کہ لٹیرے جب بھی ہندوستان (اس وقت ہندوستان سونے کی چڑیا کہلاتا تھا) پر حملہ آور ہوئے تو شہر کے شہر تاراج کئے یہاں کی دولت لوٹی اور اپنے دیسوں کو چل دیئے۔

مؤرخ مبارک علی کے بقول جب محمد بن قاسم نے سندھ فتح کیا اور ملتان بھی زیردست کیا تو ایک خط کے ساتھ مال و دولت کا انبار بصرہ روانہ کیا اور یہ وضاحت بھی بھیجی کہ یہ دولت سندھ کی مہم پر خرچ کی گئی دولت سے کئی گنَا زیادہ ہے۔

عربوں کے بعد ترکوں کی نظرہندوستان پرپڑی تومحمود غزنوی نے 17 حملوں میں یہاں سے ’’بھاری دولت‘‘ غزنہ منتقل کی۔ جس کے بعد شہاب الدین غوری کو ہاتھ صاف کرنے کا موقع ملا۔

لوٹ مار کا یہ سلسلہ اس وقت بھی جاری رہا جب 1526 میں مغل ہندوستان پر حملہ آورہوئے۔۔ ظہیر الدین بابر نے ایک معرکے میں ابراہیم لودھی کو شکست دی اور جو مال ہاتھ لگا کابل بھیج دیا۔

مگر لٹیروں کی کہانی یہاں ختم نہیں ہوتی ۔۔ 18 ویں صدی میں جب مغل کمزور ہوئے تو ایک بار پھر بیرونی حملہ آوروں کی نظریں ہندوستان کی دولت دیکھ کر خیرہ ہوئیں۔۔ 1737 میں نادر شاہ نے ہندوستان کی اینٹ سے اینٹ بجا دی اور مغلوں کی صدیوں سے جمع شدہ دولت لوٹ لی ۔۔ ایک اندازے کے مطابق نادرشاہ نے 30 ملین روپے سے زائد مالیت کے برابر دولت شاہی خزانے سے لوٹی۔ 15 ملین کے جواہرات، 30 ملین کی مالیت کا تخت طاؤس اور 150 ملین روپے شاہی کارخانہ جات سے ہتھیائے۔

نادرشاہ کے بعد احمدشاہ ابدالی نے 1762 میں دہلی پر حملہ کیا اوربچے کھچے ہیرے جواہرات کا خزانہ لوٹا۔ اس کی فوج نے شمالی ہند، کشمیر، سندھ اور پنجاب کو بھی نہ بخشا اور یہاں سے بھی ’’بھاری دولت‘‘ افغانستان منتقل کی۔

تاریخ کی یہ ستم ظریفی بھی ملاحظہ ہو کہ 1757 میں جنگ پلاسی ہوتی ہے تو ایسٹ انڈیا کمپنی ایک سیاسی قوت کے طور پرابھرتی ہے اور بنگال میں حکومت بناتی ہے۔ سب کچھ بدل جاتا ہے لیکن لوٹ مار کی کہانی یہاں بھی حسب سابق چلتی رہتی ہے۔۔ انگریز یہاں سے دولت لوٹ لوٹ کر برطانیہ لے جاتے ہیں جہاں وہ بڑی جاگیریں ، جائیدادیں اور پارلیمان میں نشستیں خرید لیتے ہیں اور ’’ڈیوک‘‘ کہلاتے ہیں۔

مگر تاریخ کا پہیہ جب آگے چلتا ہے تو یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ 1764 میں جنگ بکسر کے بعد دیوانی قوانین بھی فرنگیوں کے دائرہ اختیار میں آجاتے ہیں توبھاری ٹیکسوں اور لگان سے مقامی لوگوں کا بھرکس نکال دیا جاتا ہے۔

1857 کی جنگ آزادی کے بعد تو حالت اور بھی پتلی ہوجاتی ہے فرنگی لٹیرے امن و امان کی آڑ لیکر مقامی لوگوں پرمظالم کی انتہا کرتے ہیں تو لوٹ مار کا بازار اور بھی گرم ہوجاتا ہے۔

فاسٹ فارورڈ میں چلتے ہوئے 1947 کا دور دیکھتے ہیں۔۔ جب ہندوستان تقسیم ہوتا ہے تو کچھ لوگوں کو یہ یقین محکم ہوتا ہے کہ وقتی طور پر جبر ہی سہی ، تلخ ہی سہی لیکن یہ وقت کٹ جائے گا پھر اپنا ملک ، اپنی دھرتی اور اپنا نظام ۔۔۔ لیکن ان امید پرستوں کی یہ امید برنہ آئی جب انہیں بیچ راہ لٹنے پرخبرہوئی کہ یہ تو راستہ ہی کوئی اور ہے۔۔۔

آزادی کے بعد حالات بدلے بھی تو صرف اس قدر کہ پہلے لٹیرے دولت لوٹ کر غزنہ، کابل اور لندن بھیجتے تھے آج ان وارداتیوں کا طریقہ کچھ اور ہے اسلئے دولت خاص طریقوں سے لوٹ کر سوئس اور امریکہ کے بینکوں میں جمع کرائی جاتی ہے۔ تاکہ نہ سیخ جلے اور نہ ہی کباب جھلسے۔

پاکستان میں کرپشن اور لوٹ مار کی کہانی اتنی ہی پرانی ہے جتنا کہ پاکستان کی تاریخ ۔۔ ایوب خان کے دس سالہ نام نہاد ترقیاتی دور میں بڑے بڑے جاگیرداروں سے لیکر کرپشن کنگ اور کرپشن کوئین سے ہوتے ہوئے، سوئس بینکوں اور پانامہ کے ہنگامہ تک ۔۔۔ ایک سے بڑھ کر ایک طلسم ہوشربا ہے۔۔۔ جسے جو بھی پڑھتا ہے سرشرم سے جھک جاتا ہے۔

زمانہ بدل گیا تو وارداتیوں کا انداز بدل گیا۔۔ پہلے بزور شمشیر قومی دولت لوٹی جاتی تھی تو اب لوگوں کو جمہوری زنجیر سے باندھ کر لوٹی جاتی ہے۔۔ پہلے بوریاں بھر بھر کر وارداتیے مال و دولت ساتھ لے جاتے تھے تو اب سوٹ کیس بھر بھر کر بھیجے جاتے ہیں۔۔۔ پہلے لگان بلاواسطہ لگائے جاتے تھے تو اب بالواسطہ ٹیکس لگا کر عوام کی کمر توڑی جاتی ہے۔ پہلے صاحب بہادر کو خوش کرنے کا طریقہ کچھ اور تھا تو اب ورلڈ بینک اورآئی ایم ایف کو رام کرنے کا انداز کچھ اور۔۔ بدلتے ادوار میں بہت کچھ بدلا اگر نہ بدلا تو قصہ لوٹ مار کا۔۔۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے