’اے پی سی کا مقصد فوجی عدالتوں پر اتفاق پیدا کرنا ہے‘

اسلام آباد: پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری کا کہنا ہے کہ ان کی پارٹی چاہتی ہے کہ فوجی عدالتوں سے متعلق تمام سیاسی جماعتیں پارلیمینٹ میں ایک ہی موقف کے ساتھ پیش ہوں۔

فوجی عدالتوں پر اتفاق رائے پیدا کرنے کے لیے پیپلز پارٹی کے تحت آل پارٹیز کانفرںس (اے پی سی) کا انعقاد کیا تاہم اس میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) اور متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) نےشرکت نیں کی، جب کہ حکمران جماعت پاکستان مسلم لیگ(ن) کو مدعو ہی نہیں کیا گیا تھا۔

اے پی سی میں عوامی مسلم لیگ (اے ایم ایل) کے سربراہ شیخ رشید، قومی وطن پارٹی (کیو ڈبلیو پی) کے سربراہ آفتاب شیرپاؤ اور جمعیت علماء اسلام (جے یو آئی) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن سمیت دیگر سیاسی جماعتوں کے رہنماشریک ہوئے۔

رپورٹ کے مطابق اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین اور سابق صدر آصف علی زرداری نے کہا کہ اے پی سی کا مقصد فوجی عدالتوں کے معاملے پر اتفاق رائے پیدا کرنا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ چاہتے ہیں کہ پارلیمنٹ میں فوجی عدالتوں پر ہم سب کا مشترکہ مؤقف پیش ہو، اگر ہم نے پارلیمنٹ میں علیحدہ یا مشترکہ مؤقف دینا ہے تو بھی اس کا فیصلہ آج ہی کرلیتے ہیں۔

آصف زرداری کا کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی تمام سیاسی قائدین کے فیصلے کی تائید کرے گی،فوجی عدالتوں سے متعلق حتمی فیصلہ سب کی مشاورت سے ہونا چاہئیے۔

جمعیت علماء اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے اس بات پر زور دیا کہ پہلے لفظ ’دہشت گردی‘ کی تشریح کی جائے۔

مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ مذہب اور فرقے کو ٹارگٹ کرنے کے بجائے ہر مسلح گروہ کے خلاف کارروائی کی جائے،ریاست کے خلاف جو بھی ہتھیار اٹھائے دہشت گردی کے زمرے میں آنا چاہیے۔

انہوں نے فاٹا کو خیبرپختونخوا میں ضم کرنے کے حوالے سے کہا کہ اس حوالے سے فاٹا کے عوام سے رائے لی جائے، ان پر فیصلہ مسلط نہ کیا جائے ۔

اے پی سی ختم ہونے کے بعد میڈیا سے گفتگو کے دوران اے پی ایم کے سربراہ شیخ رشید نے بتایا کہ اے پی سی میں بھی فوجی عدالتوں کی مدت میں 2 سال کی توسیع پر اتفاق کرلیا گیا۔

شیخ رشید کے مطابق اے پی سی کو آگاہی دی گئی کہ پہلے ہی ملک کی 8 سیاسی جماعتیں عدالتوں کی توسیع پر متفق ہوچکی ہیں۔

اے پی ایل کے سربراہ نے مزید بتایا کہ آصف علی زرداری نے پاناما پیپرز اسکینڈل کے معاملے پر بھی جلد اے پی سی بلانے کا اعلان کیا۔

اس سے قبل گزشتہ ماہ 28 فروری کو ملک کی زیادہ تر سیاسی جماعتیں فوجی عدالتوں کی مدت میں 2 سال کی توسیع پر متفق ہوچکی ہیں۔

فوجی عدالتوں سے متعلق ہونے والے اس اجلاس میں پیپلز پارٹی شریک نہیں ہوئی تھی، تاہم اس سے پہلے ہونے والے فوجی عدالتوں سے متعلق پارلیمانی کمیٹی کے تمام اجلاسوں میں پی پی کے نمائندے شریک ہوتے رہے ہیں۔

اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے بتایا تھا کہ تمام سیاسی جماعتوں نے سیاست کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ملک اور قوم کے مفاد میں فیصلہ کیا۔

وزیر خزانہ نے فوجی عدالتوں کی دوبارہ بحالی پر اتفاق کرنے اور حکومت کی حمایت کرنے پر تمام جماعتوں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ انہیں امید ہے کہ 4 مارچ کو پیپلز پارٹی بھی قوم کے مفاد میں فیصلہ کرے گی۔

ملک میں گزشتہ ماہ یکے بعد دیگرے ہونے والے دھماکوں کے بعد فوجی عدالتوں کی ضرورت کا احساس بڑھا، جس کے بعد بظاہر تمام سیاسی جماعتیں فوجی عدالتوں کی 2 سالہ توسیع پر متفق ہوئیں۔

[pullquote]فوجی عدالتوں کا قیام کب ہوا اور کب ان کی مدت ختم ہوئی؟
[/pullquote]

فوجی عدالتوں کی 2 سالہ خصوصی مدت رواں برس 7 جنوری کو ختم ہوگئی تھی، جس کے بعد فوجی عدالتوں کی دوبارہ بحالی سے پر سیاسی جماعتوں اور حکومت کے درمیان ان کی دوبارہ بحالی پر اتفاق نہیں کیا جاسکا۔

فوجی عدالتوں کا قیام 16 دسمبر 2014 کو پشاور کے آرمی پبلک اسکول (اے پی ایس) پر حملے کے بعد آئین میں 21 ویں ترمیم کرکے عمل میں لایا گیا تھا۔

عدالتوں کا قیام 7 جنوری 2015 کو پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں بل کی منظوری کے بعد عمل میں لایا گیا، جن کی 2 سالہ مدت رواں برس 7 جنوری کو ختم ہوچکی ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے