سپریم جوڈیشل کونسل سے ریفرنس کی ‘کھلی سماعت’ کا مطالبہ

اسلام آباد: سپریم جوڈیشل کونسل (ایس جے سی) میں ‘بد انتظامی’ کے الزامات میں ریفرنس کا سامنا کرنے والے ایک سپیریئر عدالت کے جج نے کونسل پر زور دیا ہے کہ ریفرنس کی سماعت بند کمرے میں کرنے کے بجائے اسے کھلے عام کیا جائے۔

اس پیش رفت سے واقف ذرائع نے ڈان کو بتایا ہے کہ سپریم جوڈیشل کونسل نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے سینئر جج کو 15 فروری کو شوکاز نوٹس جاری کیا تھا اور وہ 6 مارچ کو کونسل کے سامنے پیش ہوں گے۔

یہ ریفرنس کیپٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے) کے ایک ریٹائر ملازم کی شکایت پر قائم کیا گیا ہے۔

گذشتہ سماعت کے دوران جج نے ایس جے سی سے درخواست کی تھی کہ آئین کے آرٹیکل 10 اے کے تحت دی گئی گرینٹی کہ منصفانہ مقدمہ اور قانونی عمل، صرف اس صورت میں ممکن ہے جب ٹرائل اوپن کورٹ (کھلی عدالت) میں کیا جائے۔

ذرائع کے مطابق جج نے زور دیا تھا کہ ان کیمرہ کارروائی کی ضرورت کو 2005 میں سپریم جوڈیشل کونسل کے قوانین میں شامل کیا گیا تھا لیکن آرٹیکل 209، جس کے تحت کونسل وجود میں آئی ہے، بند کمرے میں سماعت کے حوالے سے خاموش ہے۔

اس کے علاوہ یہ ملزم کا استحقاق ہے کہ آیا وہ سماعت کھلی عدالت میں کرانا چاہتا ہے یا بند کمرے میں ٹرائل کا سامنا کرنے کا خواہش مند ہے۔

وکلا برادری کی جانب سے دی گئی ایک درخواست کے پس منظر میں اس وقت کے چیف جسٹس انور ظہیر جمالی نے 31 اکتوبر 2015 کو کونسل کو دوبارہ فعال کرنے کا اعلان کیا تھا تاکہ ان درخواستوں کو نمٹایا جاسکے جو طویل عرصے سے تعطل کا شکار ہیں۔

یہاں تک کہ انسانی حقوق کی سرگرم رکن عاصمہ جہانگیر نے کہا تھا کہ ماتحت عدالتوں کے ججز کا معیار ہائی کورٹ میں تعینات ججز سے بہتر ہے۔

واضح رہے کہ آرٹیکل 209 عدلیہ کو پاک کرنے کے لیے احتساب کے عمل کے انعقاد کی اجازت دیتا ہے۔

اس کے نتیجے میں مختلف ہائی کورٹس کے 5 ججز کو شارٹ لسٹ کیا گیا اور شو کاز نوٹسز بھیجے گئے تاکہ وہ خود پر شکایت کنندہ کی جانب سے لگائے گئے ‘بد انتظامی’ کے الزامات کا جواب دیں۔

رواں سال 28 فروری کو لاہور ہائی کورٹ کے جج مظہر اقبال سندھو نے سپریم جوڈیشل کونسل میں کرپشن ریفرنس کی سماعت سے دو روز قبل استعفیٰ دے دیا تھا اور کہا تھا کہ انھوں نے ذاتی وجوہات کی بناء پر استعفیٰ دیا ہے۔

اس کے علاوہ سپریم کورٹ میں پاکستان بار کونسل کے رکن بیرسٹر راحیل کامران شیخ کی جانب سے نظر ثانی درخواست دائر کی گئی، جس میں انھوں نے عدالت سے کہا کہ وہ جسٹس ظہیر جمالی کی جانب سے دیئے گئے 29 ستمبر کے فیصلے پر نظر ثانی کریں، جس کے تحت کونسل میں تعطل کا شکار سپیریئر ججز کے خلاف دائر ریفرنسز کی تعداد کے بارے میں آگاہ کرنے کے حوالے سے دائر ایک درخواست کو رد کردیا گیا تھا۔

خیال رہے کہ سابق چیف جسٹس نے بیرسٹر راحیل کامران شیخ کی اپیل کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ درخواست گزار کی جانب سے آئین کے آرٹیکل 184 تھری کے تحت انکوئری کے طریقہ کار کے لیے کی گئی درخواست آئین کے آرٹیکل 209 اور 211 کی خلاف ورزی ہے۔

لیکن درخواست گزار نے اپنی نظر ثانی پٹیشن میں زور دیا کہ چیف جسٹس یا سپریم کورٹ کا کوئی دوسرا جج، جو خود بھی کونسل کا رکن ہو، ایسی آئینی پٹیشن کی سماعت اور اس کا فیصلہ نہیں سنا سکتے جس میں کیس کے میرٹ پر سوال کیا گیا ہو۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے