پاکستان جیت گیا مگر خان صاحب!

پاکستان جیت گیا مگر سیاست بھی خوب دکھائی دی، میرا اشارہ پاکستان میں ہونے والے پی ایس ایل کا فائنل کی طرف ہے ، جس میں نہ صرف پاکستانی قوم نے جس جوش اور جذبے سے امن کا پرچار کیا بلکہ دنیاکو یہ بھی باور کروایا کہ ہم امن پسند اور زندہ قوم ہیں ، کرکٹ جیت گئی دہشت گردی ہار گئی۔

اس ایونٹ کو نہ صرف بین الاقوامی ذرا ئع ا بلاغ نے سراہا بلکہ برطانوی اخبار نے ستمبر میں ورلڈ الیون کی پاکستان آمد کی نوید بھی سُنا دی مگر نہ جانے خان صاحب نے اپنی توپوں کے رُخ کھیل کے میدان کی طرف کر لیے اور لاہورمیں ہونے والے فائنل کو پاگل پن قرار دیا ،بیانات کا سلسلہ یہاں تک نہ رکا بلکہ آنے والے مہمان کھلاڑیوں کو پھٹیچر اور ریلو کٹے جیسے القابات سے بھی نواز دیا، جس سے نہ صرف شائقین کرکٹ نے مایوسی کا اظہار کیا بلکہ سیاسی ایوانوں میں بیٹھے لوگوں نے بھی خان صاحب کی منفی سوچ کی عکاسی قرار دیا،

انتہائی احترام کے ساتھ خان صاحب سے عرض ہے کہ آپ نے بہت سے موقعوں پر انتہائی مایوس بیانات دیتے رہتے ہیں جنہیں ہم شاید مسکرا کر آگے بڑھ جاتے ہیں ، ہم مانتے ہیں آپ کی پارٹی اپوزیشن میں دوسرے درجے کی اس لئے آپ پر ذمہ داری بنتی ہے کہ آپ حکومت کی اچھے یا بُرے کاموں پر تنقید کریں ، بھلے بعد میں آپ نے وُہ کام خود کرنا ہو جس کی مثال خیبر پختون خواہ حکومت کی طرف سے جیتنے والی ٹیم کو دو کروڑ روپے کا اعلان ہے مگر سر دست پی ایس ایل کے فائنل میں آپ کے رویہ کو نظر انداز کردینا ناممکن ہے،

آپ بھی ایک اچھے کھلاڑی اور محب وطن پاکستانی ہیں ، مجھے یہاں ڈاکٹر مارٹن لوتھر کا ایک جملہ یاد آگیا جس میں وُہ کہتے ہیں "ایک فرد واحد اُس وقت تک جینے کا آغاز نہیں کر تا جب تک وُہ اپنے تنگ اور محدود انفرادیت پسندانہ افکار کو وسیع تر افکار میں بدل کر تمام انسانیت کیلئے نہیں سوچتا”۔

خان صاحب جنگیں توپوں سے نہیں لڑی جاسکتی ورنہ سب کچھ تباہ ہو جائے گا ، جناب عالی!یہ سمجھ کی بات ہے کبھی کبھی سیاست بازی اور کینسر ہسپتال بنانا کرکٹ بن جاتا ہے ، آپ ہی کے کراچی والے شوکت خانم ہسپتال کے اشتہارمیں کرکٹ کے الفاظ کا خوب چناؤ کرتے ہیں۔کبھی کبھی کرکٹ کا میدان کھیل نہیں میدان جنگ بھی بن جاتا ہے جس کا عملی مظاہرہ ہم نے قذافی اسٹیڈیم میں دیکھا۔

خان صاحب کبھی آپ پاکستان کو شام،عراق،اور افغانستان سے تشبیہہ دیتے ہیں حتیٰ کہ آپ نے یہاں تک کہہ دیا 60 ہزار پولیس اہلکاروں اور 30 ہزار تماشائیوں سے کیا پیغام جائے گا؟ ہم آپ سے پوچھتے ہیں کہ اگر پی ایس ایل کا فائنل دبئی یا کسی اور جگہ ہوتا تو پھر کیا پیغام جاتا؟۔ہاں جی آج قوم آپ کے کیری پیکر ایوارڈ کو بہت یاد کر رہی ہے جو آپ نے انڈیا میں جا کروصول کیا تھا وہ سب ٹھیک تھا؟

ملکی حالات پر ا گر آپ کی بات کو ایک لمحہ کیلئے مان لیا جائے تو سانحہ اے پی ایس کے بعد کو ئی بچہ اسکول نہ جاتا،23 مارچ کی پریڈ کبھی نہ ہوتی،حالیہ ہونے والی اکنامکس کانفرنس پاکستان میں کبھی نہ ہوتی۔سی پیک منصوبہ دھرے کا دھرا ہی رہ جاتاآپ کو لاہوربند کرنے پراعتراض ہے لیکن اسلام آبادبند کرنے پر کوئی مسئلہ نہیں، اس سے آپ کی نظر میں دنیا کواچھا پیغام جاتا ہے؟

خان صاحب آٹھ سال بعدکھیل کے میدان آبادہوئے!ہونا تو یہ چاہیے تھا آپ سیاست اور سیاسی بیا ن بازیوں سے بالا تر ہو کر غیر ملکی مہمان کھلاڑیوں کا استقبال کرتے ، اس سے نہ صرف آپ کی سیاست کو چار چاند لگتے بلکہ پی ایس ایل کا میلہ لوٹ لیتے لیکن بقول شہباز شریف کے آپ کے پاگل پن بیان سے کوئٹہ گلیڈی ایٹر کے غیر ملکی کھلاڑی نہیں آئے ، ہم تو اس انتظار میں بھی تھے کہ شاہدخان صاحب پی ٹی آئی ورکز کو بھی اسٹیڈیم جانے سے منع کر دیں ، چلو خیر آپکی مہربانی کہ آپ نے کوئی ایسا قدم نہیں اُٹھایادوسری جانب آصف علی زرداری صاحب بھی پیچھے نہ رہے انھوں نے بھی اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے کی کوشش کی مگر اس کوشش کو شیخ رشید نے مسترد کر دیا۔

خان صاحب کتنی مشکلات کے بعد اللہ نے آپ کو اتنی عزت اور شہرت دی خدارا! سیاست اور کھیل کو الگ الگ رکھیں ، ملکی مفادات کو اپنی سیاست سے بالا تر رکھیں ورنہ ایسا نہ ہو کہ آپ اکیلے ہی رہ جائیں۔آخر میں جون ایلیا کا ایک شعر

مجھ کو تو گر کر مرنا تھا،
باقی کو کیا کرنا تھا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے