صوبہ ہزار ہ کیوں نہیں ؟

مجھے اچھی طرح یاد ہے2013میں جھوٹے وعدے کرنے اور لوگوں کو سبز باغ دکھانے کا سیاسی کھیل عروج پرتھا۔۔۔ ملک میں عام انتخابات کے میلے لگے تھے ایسے میں ہزارہ ڈویژن میں بابا حیدر آباد زمان اور سردار یوسف الگ الگ ٹھیلے لگا کر صوبہ ہزار کا منجن بیچ رہے تھے۔۔اس سے تین سال پہلے صوبہ ہزار ہ تحریک کے پلیٹ فارم سے ہونے والے احتجاج میں 10افراد ایبٹ آباد میں پولیس کی فائرنگ سے شہید ہو چکے تھے۔۔۔ پہلی برسی پر بابا حید ر زمان نے دعویٰ کیا تھا کہ اگر شہدا صوبہ ہزارہ کو انصاف نہ ملا تو میں خود کو آگ لگا دوں گا۔۔۔ سردار یوسف صاحب فرماتے تھے کہ صوبہ ہزار ہ کی تحریک سیاسی وابستگیوں سے بالا تر ہو کر چلتی رہے گی۔۔

الیکشن ہوئے بابا حیدر زمان کے حق میں نعرے مارنے والوں اور ریلیوں میں ساتھ رہنے والوں نے خودنیچے سے تختہ ایساکھینچا کہ بابا حیدر زمان ہارے ہی نہیں تنہائیوں کی کھائی میں جا گرے۔۔سردار یوسف صاحب کو برداری کی اندھی حمایت نے ایوان اقتدار تک پہنچا دیا۔۔ جہاں نواز شریف نے مسلم لیگ ن میں شامل ہونے والے سردار یوسف کو وزیر بنانے میں ذرا دیر نہیں لگائی۔۔ بس پھر وہیں سے صوبہ ہزار ہ تحریک اقتدار کی غلام گردشوں میں گم ہو تی چلی گئی۔۔ جگہ جگہ سڑک پر بیٹھ کر پریس کانفرنسیں کرنے والے سردار یوسف صاحب کو وزارت کا تریاق ایسا راس آیا کہ انھوں نے مڑ کر تحریک کی جانب دیکھنا گوارا نہیں کیا۔

حقیقت یہ ہے خیبر پختونخواہ اسمبلی میں تحریک انصاف اور مسلم لیگ ن سے تعلق رکھنے والے ہزارہ کے ایم پی ایز ہوں یاقومی اسمبلی میں ان ہی جماعتوں کے ارکان قومی اسمبلی سب میں اتنا حوصلہ نہیں ہے کہ وہ اپنی قیادت یعنی مسلم لیگ ن کے سر براہ نواز شریف اور تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کے ساتھ بیٹھ کرصوبہ ہزارہ کی بات کرسکیں۔۔نواز شریف صاحب تو مانسہرہ کے جلسہ میں پیر صابر شاہ کے ساتھ مل کر یہ اعلان کرکے آئے تھے کہ صوبہ ہزارہ ہم ہی بنائیں گے۔۔۔اب جب موقع آیا ہے اور فضا بھی ساز گار ہے تو نہ کے پی اسمبلی سے آواز بلند ہورہی ہے نہ قومی اسمبلی میں کوئی صوبہ ہزارہ کا کوئی نام لیوا ہے.

ہزارہ ڈویژن کی سیاسی قیادت آواز بلند کرنے کی بجائے ایک ایسے موقع پر بھنگ پی کر سوئی ہوئی ہے جب وفاقی کابینہ نے فاٹا کو خیبر پختونخواہ کا حصہ بنانے کی سفارشات بھی منظور کرلی ہیں۔۔جو پانچ سے آٹھ سال تک صوبہ کے پی کا حصہ بنے گا۔۔ بظاہر الفاظ خوشنما ہیں۔۔۔خیال اچھا ہے لیکن جو طریقہ کار اپنایا جارہاہے اس سے ،،بیل منڈے چڑھتے،، نظر نہیں آرہی۔۔وہ اس لئے بھی کہ پانچ سال بعد ایوان اقتدار میں نئی صف بندی ہوچکی ہوگی۔۔ سیاسی جماعتیں نئے پینترے بدل چکی ہوں گی۔۔ اور اس بات کا بھی امکان موجود ہے کہ فوج کے دباو پر خاموش فاٹا کے لوگوں کاموقف بھی تبدیل ہو جائے۔

دوسری طرف ڈیورنڈ لائن کی تاریخی اہمیت پر بھی افغانستان کی طرف سے اعتراض سامنے آیا ہے۔۔اگر فاٹا کو کے پی کے کا حصہ بنانا ہی ہے تو پھر آپ پانچ سال کی اتنی لمبی ، ، لسی ،، کیوں بنا رہے ہیں ؟ ۔۔۔فوری نوعیت کی قانون سازی کرلی جائے۔۔ جن باتوں پر وقت لینا ضروری ہے ان پر بعد میں کام کرتے رہیں۔۔۔پانچ سال کی تاخیر کے حوالے سے مولانا فضل الرحمان کا موقف حق بجانب ہے۔

افغانستان اور پاکستان کے درمیان سرحد کی لمبائی تقریباً 2600 کلومیٹر ہے جسے ڈیورنڈ لائن کہا جاتا ہے کیونکہ اس حد بندی کا تعین 1893 میں اس زمانے کے افغان بادشاہ امیر عبد الرحمٰن خان اور برصغیر میں برطانوی حکومت کے وزیر خارجہ مورٹمر ڈیورنڈ کے درمیان ایک معاہدے کے بعد کیا گیا تھا لیکن افغانستان نے آج تک ڈیورنڈ لائن کو پاکستان کے ساتھ اپنی سرحد کے طور پر تسلیم نہیں کیا بلکہ وہ قیامِ پاکستان ہی سے یہاں کے قبائلی علاقوں پر اپنی ملکیت کا دعویدار ہے۔ اس کے برعکس پاکستان کا کہنا ہے کہ ڈیورنڈ لائن ایک طے شدہ معاملہ ہے جس کی رْو سے فاٹا، پاکستان میں شامل ہے۔

تاریخی اہمیت اور حوالے ہمارے سامنے ہیں اس کے باوجود پانچ سال پر مبنی سفارشات دینے والوں کو یہ فکر دامن گیر نہیں کہ کل اگر فاٹا کے کچھ گروپ فاٹا کو کے پی کے میں ضم کرنے کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے تو پھر ایک نیا پنڈورا باکس کھل جائے گا۔۔فاٹا کو خیبر پختونخواہ میں ضم کرنے کے ساتھ ساتھ فاٹا میں کوئی خود قبائلیوں کو با اختیار بناکر انھیں آئین اور قانون کی عملد اری میں لے آناہی کامیابی ہے۔۔ایف سی آر ختم ہونے کا عوام کو فائدہ ہو گا تو تب ہی نئے نظام کو شرف قبولیت نصیب ہوگا۔۔

دوسری طرف اس زمینی حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا ہے کہ چھوٹے چھوٹے صوبے ہوں گے تو خوشحالی بھی آئے گی اور احساس ذمہ داری کا فقدان بھی نہیں ہوگا۔۔کوئی مانے یا نہ مانے اے این پی نے قومیت کے نام پر صوبے کے نام کی تبدیلی کے نام پر جو تعصب بویا تھا وہ دلوں میں کھڑی کی گئی ایک ایسی دیوار ہے جو وقت کے ساتھ اوپر اٹھ رہی ہے۔۔فاٹا کو کے پی کے میں شامل ہونے سے اس سوچ کو اور تقویت ملتی ہے کہ اب ہزارہ ڈویژن کو الگ صوبہ بنا لیا جائے۔۔اگر اس میں ضلع اٹک شامل ہو تو زبان ،تہذیب و تمدن اور ثقافتی رنگوں کے ہم آہنگ لوگ زیادہ آسانی محسوس کریں گے۔۔ اور اگر ضلع اٹک نہ بھی شامل ہو تو ہزارہ ڈویژن کے چھ اضلاع کے اتنے وسائل موجود ہیں کہ یہ مختصر عرصہ میں ملک کا امیر ترین صوبہ بن سکتاہے۔

یہ اوپر کی سیاسی قیادت ہی ہے جو مقامی سطح کی آرا کو ملیا میٹ کرکے ہزارہ کی سیاسی قیادت کو ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا دیتی ہے۔۔اب ایسے منتخب نمائندوں کی ، سینئر سیاستدانوں کی ضرورت ہے جو بلی کے گلے میں گھنٹی باندھ سکیں۔۔ تاکہ نواز شریف اور عمران خان بھی صوبہ ہزار ہ تحریک کی صدا پر ہم آواز ہو جائیں۔۔ یہ ناقابل تردید حقیقت ہے کہ اگر ہزارہ کی قیادت صوبہ ہزارہ کے مطالبے پر نواز شریف اور عمران خان کو ایک صفحے پر لانے میں کامیاب ہو جائیں تو اسمبلیوں کی اسی مدت میں صوبہ ہزارہ بنایا جاسکتاہے۔۔ فاٹا کی طرح صوبہ ہزارہ بنانے کیلئے پانچ سال انتظار کی بھی ضرورت نہیں پڑے گی۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے