ماضی کا ترقی یافتہ انسان اور ہم

آج کا ہر انسان سمجھتا ہے کہ وہ اس جدید ترقی یافتہ دور میں ہے جو ٹیکنالوجی کا دور ہے اور سائنسی محقیقین بھی یہی تھیوریاں پیش کر رہے ہیں کہ ہم ترقی کے عرو ج پر ہیں ہم سے پہلے جو لوگ یا قومیں تھیں ان سے کئیں گنا زیادہ ہم ماڈرن دور میں ہیں ۔ اگر ایک نظر اس پہ سوچا جائے تو یہ بات بالکل درست لگتی ہے کہ آج کا دور انسانی تاریخ کی سب سے زیادہ ترقی یافتہ دور ہے ۔ پر میرا نقطہ نگاہ اس معاملے میں بالکل مختلف ہے ۔ میں یہ بات درست نہیں مانتا کہ آج کی قومیں یا لوگ پرانے لوگوں یا قوموں سے زیادہ ترقی یافتہ ہیں ۔ میرا یہ نا ماننا کچھ دلیلوں کی بنیاد پر ہے ۔
سب سے پہلے میں اس کتاب سے حوالہ دیتا ہوں جو تینوں زمانے کے حالات پر بات کرتی ہے یعنی ماضی ،حال اور مستقبل ، اس کتاب کی روشنی اور راہنماہی سے یہ بات معلوم پڑتی ہے کہ ہم سے کئیں گنا ترقی یافتہ قومیں ہم سے پہلے گزر چکی ہیں ۔

قرآن پاک میں رب تعالی فرماتا ہے ۔

”ہم نے تم سے پہلے کئیں ترقی یافتہ قوموں کو ان کے بد اعمالیوں کے باعث تباہ و برباد کیا ”

یعنی ہمیں ہمیں قرآن کریم یہ بتاتا ہے کہ تم ہی ترقی یافتہ قوم نہیں ہو تم سے پہلے بھی کئیں ترقی یافتہ قومیں گزر چکی ہیں ، قرآن کریم تینوں زمانوں پہ بات کرتا ہے ، یعنی یہ حکم ہر زمانے میں اسی طرح ہو گا جسطرح آج ہمیں ملتا ہے ۔ اس سے واضح ہو جاتا ہے کہ ہم اس جدید ماڈرن دور میں جدید ٹیکنالوجی کے دور میں بھی رہ کر ہم ترقی کے معاملے میں پرانی قوموں سے ثبقت نہیں لے گئے ۔ ہم سے پہلے بھی کئیں ترقی یافتہ قومیں گزر چکی ہیں ۔ اب انسان کو جب یہ بات معلوم پڑتی ہے تو وہ یقینا سوچ میں پڑھ جاتا ہے کہ ہم سے زیادہ ترقی یافتہ قومیں کیسے ہو سکتی ہیں ؟ وہ سوچتا ہے کہ آج سے تقریبا ۱۰ سال قبل جائزہ لیا جائے تو اس وقت نہ کوئی جدید ٹیکنالوجی تھی اور نہ ہی کوئی جدید سہولتیں ، وہ سوچتا ہے کہ آج سے ۳۰ سال قبل کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ ہزار میل سفر صرف گھنٹوں اور منٹوں میں طے کیا جا سکےگا ۔

اتنا سب ہونے کے باوجود بھی ہم ترقی کے معاملے میں کیسے پیچھے ہو سکتے ہیں ؟ وہ سوچتا ہے کہ وہ کیا چیز ہے جو آج کے دور میں نہیں ؟
اس ترقی کی ایک اور مثال ہم سے پہلے کی احرام مصر ہے ۔ یعنی آج سے کئیں سال پہلے تعمیر ہونے والا احرام مصر کو دیکھ کہ انسان حیران ہو جاتا ہے کہ آخر کیسی ٹیکنالوجی سے اس دور کے لوگوں نے اسے بنایا ۔ آج کے اس سائنسی اور ٹیکنالوجی کے دور میں بھی یہ بات معلوم نہیں کی جا سکی کہ احرام مصر کو کس چیز سے بنایا گیا ۔

اب ریسچر اس بات کو معلوم کرنے میں ناکام ہیں کہ یہ تعمیر کس چیز سے کی گئی ہے ۔ کچھ سال قبل محقیقین نے ایک تھیوری پیش کی تھی جس میں انھوں نے بتایا تھا کہ اہرام مصر کی تعمیر کسی ایسی مضبوط چیز سے ہوئی ہے اگر اس چیز سے ایک روڈ بنا دی جائے تو اس روڈ کو آنے والے سو سال میں ذرا بھر بھی خراش نا آئے ۔

اہرام مصر بلاکس کی صورت میں تعمیر کیا گیا یعنی نیچے سے لے کر اوپر تک بلاک پر مشتمل ہے ،اس ایک بلاک کا وزن کئیں ٹنوں کے برابر ہے ۔ اب یہاں بھی انسان حیران ہو جاتا ہے کہ اہرام مصر کی اونچائی تقریبا 481 فٹ تھی جو بعد میں 30 فٹ کم کر دی گئی تھی وہ کئی گنا ٹن پر مشتمل وزنی بلاک کیسے انسان نے اس اونچائی میں جا کر لگا یا ہو گا ، اس وقت انسان سوچتا ہے کوئی تو مشین ہوئی ہو گی جس کے ذریعے یہ کام سر انجام دیا گیا ، پھر انسان کہنے پہ مجبور ہو جاتا ہے کہ واقعی ہم سے پہلے بھی ترقی یافتہ قومیں گزر چکی ہیں ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے