کیا سیاستدان دہشت گردوں کے آلہ کار ہیں؟

پاکستان میں موجودہ دہشت گردی کی نئی لہر ایک ایسے وقت میں ہورہی ہے جب ہم دنیا کو اس بات پر آمادہ کرنے اور باور کروانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ دہشتگرد دم دبا کر پاکستان سے بھاگ رہے ہیں اور اب ہمارے شہر بین الاقوامی کھیلوں اور ثقافتی ومذہبی تقاریب کے انعقاد کے لیے ہر طرح سے محفوظ ہیں۔
مگر گزشتہ جمعرات کی شام دہشت گرد اپنا ناپاک ارادہ لیکر صوفی بزرگ لعل شہباز قلندر کی درگاہ سہیون شریف میں عین اس وقت حملہ آور ہوئے جب مزار کے احاطے میں سینکڑوں لو گ دھمال ڈال رہے تھے ایک خود کش بمبار نے خود کو اڑا لیا جس کے نتیجے میں 100 سے زائد افراد شہید اور تقربیاً 300 افراد شدید زخمی ہوئے۔

اگر حقائق پر ایک نظر ڈالے تو 2005 سے لیکر اب تک مزارات میں ہونے والے حملوں میں تقربیاً 300 افراد شہید اور جبکہ 500 سے زائد افراد زخمی ہوچکے ہیں۔سوال یہ ہے کہ جتنی بھی درگاہیں اور مزارات ہیں یہ نا کسی خاص مذہب،فرقے رنگ و نسل رکھنے والوں کی نہیں ہوتی،مزارات اور درگاہیں ہر مذہب فرقے عقیدے اور ہر قسم کے رنگ و نسل کے لوگوں کی ہوتیں ہیں۔ہر مکتب فکر کا انسان حیران و پریشان ہے کہ یہ کون سے درندے اور دہشت گرد ہیں جو انسانوں کے روح پرور مقامات کو دہشت گردی کا نشانہ بناتے ہیں،جہاں پر مذہب رنگ و نسل اور فرقے کی تقسیم نہیں ہے۔

دماغ میں یہ سوال بھی ابھرتا ہے حالیہ دہشت گردی حملے کیا یہ فرقہ واریت ہے ہا اس کے پیچھے اندرونی و بیرونی کوئی بڑا علاقائی ایجنڈاہے؟

حالیہ دہشت گردی میں وقت بہت اہمیت رکھتا ہے،اس بات سے تو انکار نہیں کیا جا سکتا کہ بھارت پاکستانی سیاست پر اثرانداز ہونے کے لیے دہشت گردوں کی مالی معاونت کررہا ہے۔ را اور این ڈی ایس کا گٹھ جوڑ پاکستان کے خلاف کھل کر سامنے آگیا ہے ان کی ایجنسیز کا بنیادی مقصد پاکستان میں دہشت گردی کو فروغ دینا اور دنیا کو یہ باور کروانا کہ پاکستان ایک دہشت گرد ملک ہے اور دنیا میں پاکستان کو تنہا کرنا ہے۔

پاکستان نے افغانستان، جس کے لاکھوں پناہ گزین ہمارے ملک میں موجود ہیں، جس کے تجارتی قافلوں بشمول ہندوستان کی جانب برآمدات کو ہم اپنی سر زمین سے گزرنے دیتے ہیں، جس ملک کی خانہ جنگیوں سے ہمارے ملک میں دہشتگردی آئی ہے، اور جس کی انٹیلی جنس ایجنسیاں بھارتی شراکت سے ٹی ٹی پی کی دہشتگردی اور بلوچ دراندازی کو ہوا دینے میں مصروف ہیں مگراس کے باوجود پاکستان نے اس کے امن و سلامتی اور مفاہمت کے لیے مسلسل کوششیں کی ہیں، افغانستان کی جانب سے بارہا لگائے جانے والے سنگین الزامات کو بھی بغیر ثبوت کے برداشت کیا ہے۔ مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سزا کے ساتھ ساتھ صبر کا مقصد کیا ہے؟ جواب کئی ہوسکتے ہیں؟اب وقت آگیا ہے کہ ان تمام تر الزامات جواب دیا جائے اور دنیا کو بتایا جائے کہ پاکستان دہشت گردی کے پیچھے بھارتی اور افغان انٹیلی جنس ایجنسیاں ملوث ہیں۔

ماضی کے کئی دہشتگرد حملوں کی طرح چاروں صوبوں میں ہونے والے خودکش بم دھماکوں کے بارے میں بھی پیشگی اطلاعات موجود تھی، مگر پھر بھی حملوں کو روکا نہ جا سکا۔یہ کس کی نا کامی کس کی ذمہ داری ہے؟ہماری سب سے بڑی بد قسمتی یہ ہے کہ ہم جاگنے کے لیے کسی بڑے سانحہ کا انتظار رہتا ہے۔

لاہور میں ہونے والے دہشت گردی کے بڑے حملے کے بعد چاروں اطراف سے رینجرز آپر یشن کی باز گشت سنائی دے رہی ہے مگر بدقسمتی سے پنجاب، جو کہ وزیر اعظم کا آبائی گھر ہے اور اس صوبے کے وزیراعلیٰ انکے چھوٹے بھائی ہیں ،وہاں پر چند انتہا پسند گروپس اور کالعدم تنظیموں کی جانب اپنی مبہم پالیسی کو جاری رکھے ہوا ہے جو صوبے میں آزادی سے کام کر رہی ہیں۔ صوبائی حکومت،وزیراعلیٰ پنجاب وزیر داخلہ،وزیرقانون رانا ثنااللہ انٹیلیجنس رپورٹس کو مسترد کرتی رہی ہے جس کے مطابق جنوبی اور وسطی پنجاب اب بھی کالعدم تنظیمیں فرقہ ورانہ سر گرمیاں کھلے عام کررہی ہیں اور ان کا اہم بھرتیوں کے مراکز بھی موجود ہیں،لشکر جھنگوں اور دیگر کالعدم تنظیموں کے خلاف کاروائی سے حکومت اب بھی کترا رہی ہے آخر اس کی بنیادی وجہ کیا ہے کیا یہ تظیمیں الیکشن میں سیاسی جماعتوں کو فائدہ دیتی ہے؟

اگر نیشنل ایکشن پلان پر نظر دوڑائی جائے تو سوائے فوجی عدالتوں کے قیام کے علاوہ نیشنل ایکشن پلان کی باقی 18 نقات صرف اور صرف وعدوں کی حیثیت رکھتے ہیں اور کسی ایک پر بھی صحیح اور واضح طریقے سے عمل نہیں ہو سکا۔ اور نوبت اس حد تک آ پہنچی ہے پاناما لیکس اور ڈان لیکس میں نیشنل ایکشن پلان کہیں پیچھے رہ گیا،اور ریاست کے مختلف اداروں کے درمیان تناؤ ابھر کر سامنے آ گیا ہے۔

کیا نیشنل ایکشن پلان اجلت ترتیب دیا گیا اگر اس کے نفاذ کی جامع حکمت عملی نہیں تھی تو یہ سیاسی جماعتوں اور چاروں صوبوں کی بڑی ناکامی ہے۔
فوجی عدالتوں کی مدت ختم ہونے بعد حکمران جماعت،اپوزیشن اور دیگر سیاسی جماعتیں ہچکچاہت کا شکارہیں۔نیشنل ایکشن پلان کے بعد جس نقطہ پر سب سے پہلے اور موئثر طریقے سے عمل درآمد ہوا تھا وہ فوجی عدالتیں ہی تھی۔مگر موجودہ صورتحال کے پیش نظر حکومت بڑھتے ہوئے دہشت گردی کے واقعات کو روکنے میں بری طرح ناکام ہوگئی ہے لہٰذا فوجی عدالتوں کا قیام وقت کی اہم ضرورت بن گیا ہے۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے اگر فوجی عدالتیں انصاف کی موثر فراہمی نہیں دے پائی گزشتہ دو سالوں میں تو جوڈیشیل سسٹم میں ریفارمز کیوں نہیں ہو پائی جوڈیشل ریفارم کس کی ذمہ داری تھی؟

دہشتگردی کو ایک بار پھر اپنا سر اٹھاتے دیکھنا کوئی حیرات کی بات نہیں ہے۔ ملک کے چاروں صوبوں پر دہشت گردوں کے حملے ، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی جانب سے نئے ناموں کے ساتھ فعال کالعدم عسکریت پسند اور فرقہ وارانہ تنظیموں کے خلاف مؤثر انداز میں کارروائی کرنے میں ریاستی اداروں، خصوصی طور پر وزارت داخلہ کی ناکامی کے الزام کو درست ثابت کرتا ہے۔

تاہم اب یہ دیکھنا ہوگا کہ آیا اس بار سیاسی قیادت ثابت قدمی کا مظاہرہ کرتی ہے اور ایک بار پھر اپنے کاہل ،سست اور نا موثر طور طریقوں پر نہیں آتی جیسا ہمیں 2014 میں ہونے والے پشاور آرمی پبلک سکول سانحے کے بعد دیکھنے کو ملا تھا۔

تاریخ سے ہمیں یہی تلخ سبق ملتا ہے کہ کمزوری جارحیت کو دعوت دیتی ہے ۔ سہمے رہنے سے پاکستان کا استحصال اور اس پر دباؤ مزید بڑھے گا۔ پاکستان کو اپنے قومی مفادات کے تحفظ کے لیے ایک زیادہ جامع اور مضبوط پوزیش اختیار کرنی پڑے گی۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے