مدرسے کی شرارتیں اور ہمارے استاد

مددرس نظامی کا دوسرا سال تھا۔ سردیوں کے دن تھے۔ مدرسہ کی بالائی منزل پر بیٹھے ہم ترجمہ قرآن پڑھ رہے تھے۔ استاد جی کو ایک پرچی ملی انہوں نے پرچی لانے والے کو مخصوص اشارہ کیا۔ اتنے میں ایک اور استاد اوپر آئے اور سب کو حکم دیا کہ فورا ہاتھ اوپر کر کے اپنی اپنی جگہ کھڑے ہو جائیں۔ جسے ہی ہم سب کھڑے ہوئے ہماری جامہ تلاشی شروع ہوگئی۔ میری جیب میں ہتھیلی جتنا ایک ریڈیو تھا اگر پکڑا جاتا تو مدرسہ سے اخراج لازمی تھا سو انتہائی احتیاط سے اساتذہ کو چکمہ دے کر ریڈیو جیب سے نکالا اور ساتھ ہی بیٹھے دوسری کلاس کے طلباء میں سے ایک دوست کو اشارہ کیا اور ریڈیو اس کی طرف اچھا ل دیا. اس نے کمال مہارت سے ریڈیو ہوا ہی میں اچک کر اپنی بغل میں دبا دیا. یوں ہم اس پہلی تلاشی میں رنگے ہاتھوں پکڑے جانے سے بچ گئے۔ یہ واقعہ اس لئے یاد آیا کہ آج کل سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو بہت مقبول ہو رہی ہے۔ جس میں جامعہ حقانیہ کے نائب مہتمم مولانا انوار الحق حقانی کچھ طلباء کے موبائل فونز کو آگ لگا رہے ہیں۔ میرے خیال میں یہ کوئی قبل اعتراض عمل نہیں تھا اس لیے کہ ہر ادارہ اپنی ترجیحات کے مطابق قواعد و ضوابط بناتا ہے۔ ادارے میں پڑھنے والوں کو ان قواعد و ضوابط پر عمل کرنا چاہیے وگرنہ خلاف ورزی کی صورت میں معقول سزا کے لئے بھی تیار رہنا چاہیے.

البتہ ویڈیو دیکھ کر مجھے زمانہ طالب علمی کے چند واقعات یاد آگئے. اس وقت ہمارے ادارے میں موبائل رکھنے پر پابندی تھی لیکن ہم چونکہ شرارتی تھے اس لیے چھپ چھپا کر اس قانون کی خلاف ورزی کرتے تھے۔ ایک دفعہ یوں ہوا کہ ہمارے ایک دوست بیمار ہو گئے چونکہ ہمارا مدرسہ دیہات میں تھا اس لئے بیمار دوست کو شہر لے کر جانا تھا. مہتمم صاحب سے اجازت لیکر نکلا جونہی مدرسہ سے ذرا دور کھیتوں میں پہنچا تو عقب سے ایک طالب علم کی آواز آئی کہ مہتمم صاحب بلا رہے ہیں۔ میری چھٹی حس نے اشارہ دیا کہ ہو نہ ہو کسی یار رازدار نے شکایت لگا دی ہے کہ بلال کے پاس موبائل ہے۔ مہتمم صاحب ہماری پھرتیوں سے واقف تھے اس لئے انہوں نے ہمیں رنگے ہاتھوں پکڑنے واسطے یہ ترکیب نکالی کہ چونکہ شہر جا رہا ہے تو لازما موبائل ساتھ لے کر گیا ہوگا سو انہوں نے ذرا دور جانے کا انتظار کیا اور پھر بلاوا دے بھیجا۔ جس طالب علم نے بلایا تھا اس کی ڈیوٹی میں یہ دھیان رکھنا بھی شامل تھا کہ راستے میں بلال کہیں کسی کو اگر موبائل پکڑانے کی کوشش کرے تو نظر رکھے۔ ہم بوجھل قدموں سے خراماں خراماں چلتے مہتمم صاحب کے پاس پہنچے تو انہوں کہا: موبائل نکالو۔ ہم نے معصومیت سے عرض کیا: استاد جی ! میرے پاس تو موبائل نہیں ہے۔ انہوں نے کہا: میرے پاس پکی خبر ہے کہ تمہارے پاس موبائل ہے۔ میں نے پھر سے انکار کیا تو کہنے لگے: جیب میں جو کچھ ہے سب باہر نکالو! میں نے جیب خالی کر کے سامنے ڈھیر کردی۔ سبھی کچھ نکلا مگر نہ نکلا تو ایک موبائل نہ نکلا. جان بچی سو لاکھوں پائے۔ حالانکہ اس میں ہماری سیان پتی کا ہرگز کوئی کردار نہیں تھا. ہوا کچھ یوں تھا کہ شہر جانے سے پہلے موبائل ایک دوست نے مانگ لیا تھا اور ہم نے بھی بادل نخواستہ دے دیا تھا حالانکہ ہم اتنے دیالو کبھی نہ تھے.

ایک بار تو بس پکڑے ہی جانے والے تھے جب مغرب کے بعد مسجد کے ہال میں تکرار و مطالعہ میں مصروف تھے کہ اچانک دو اساتذہ مسجد میں داخل ہوئے اور قطار میں بیٹھے طلباء کے ایک سرے سے جامہ تلاشی شروع کر دی۔ ہم مسجد کے دوسرے کونے میں بیٹھے تھے. لکڑی کا بنا منبر ہمارے قریب رکھا ہوا تھا۔ ہم نے چالاکی سے موبائل اس کے نیچے سرکا دیا۔ اتنی مہلت نہ تھی کہ موبائل سوئچ آف کرتے۔ اساتذہ آئے تلاشی ہوئی لیکن کچھ نہ نکلا۔ ہماری جان میں جان آئی کہ آج پھر بچ گئے لیکن سوئے قسمت کہ ایک دوست کا موبائل پکڑا گیا جسے ہم نے اسی روز عصر کے وقت کال کی تھی۔ اساتذہ نے جب اس کے موبائل کا کال ریکارڈ چیک کیا تو ہمارا نمبر ہمارے نام نامی کے ساتھ جگمگا رہا تھا. ہمارا نمبر ڈائل کیا گیا. ٹرن ٹرن کی جگہ یوفون کی کالر ٹون جلترنگ موسیقی کے ساتھ بجنے لگی. اب بیل جارہی ہے لیکن کال کوئی اٹھا نہیں رہا۔ ادھر ہماری اوپر کی سانسیں اوپر اور نیچے کی نیچے اٹک گئی تھیں اور پیشانی پسینے میں شرابور۔ خیر فوری طور پر دل ہی دل میں بہانہ سوچا کہ اگر ہم سے پوچھا گیا تو کہیں گے کہ ایمرجنسی تھی سو مدرسہ سے باہر کے ایک دوست کے موبائل میں سم ڈال کر کال کی تھی۔ لیکن اس کا کیا جواب ہو کہ اب بھی کال جا رہی ہے؟ ادھر سے ایک دوست ہاتف غیبی کی صورت گویا ہوا کہ اصل میں کبھی کبھار یوں بھی کال جاتی رہتی بھلے موبائل بند کیوں نہ ہو۔ اساتذہ کو تسلی ہوئی اور ایک بار پھر ہم بچ گئے.

واقعات تو اور بھی کافی سارے ہیں جن میں ہم بال بال بچے لیکن بکرے کی ماں آخر کب تک خیر مناتی دو دفعہ موبائل پکڑا بھی گیا۔ ایک مرتبہ سردیوں کی ٹھنڈی یخ رات میں رضائی میں موبائل استعمال کر رہا تھا کہ استاد محترم پہنچ گئے۔ انہوں نے سوچا کہ یہ کون الله کا ولی ہے جس کی رضائی سے نور کی کرنیں پھوٹ رہی ہیں. قریب آئے رضائی سرکائی تو دیکھا کہ وہ نور نہیں تھا بلکہ پاکستانی فلمی ہیروئن نور تھی جس کے گانے ہم ہینڈز فری لگا کر سن رہے تھے. تین ماہ تک ہمارا موبائل قید تنہائی کا شکار رہا اور ششماہی امتحان کے بعد واپس ملا۔

مدارس میں گزری زندگی کے کئی اور یاد گار واقعات ہیں۔ جو پھر کبھی سہی.. وہ کہتے ہیں نا.. یار زندہ صحبت باقی

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے