دہشت گردی: پاکستان نہیں خطے کی جنگ

ستمبر 2016 میں اڑی اٹیک کے بعد دئے گئے انٹریو میں دفاعی تجزیہ نگار بریگئڈئر ریٹائرڈ اسد منیر نے بتایا تھا کہ دسمبر 2001 میں جب انڈین پارلمنٹ پر حملہ ہوا تھا ۔ اور اس کے بعد تورا بورا کا آپریشن ہو رہا تھا ۔ایسے وقت میں القاعدہ کے بڑے لیڈر فرار ہو کر پاکستان آنا شروع ہو گئے تھے ۔ ان دہشت گردوں کے کے انسداد کے لیے پاک آرمی نے پاکستان اور افغانستان کے سرحدی اور قبائلی علاقوں کی طرف پیش قدمی شروع کی تا کہ القاعدہ سمیت دیگر دہشت گرد گروپوں کی آمد کو روکا جا سکے۔ یہی وہ وقت تھاجب انڈٰیا نے اپنی فوج مشرقی بارڈر پر بھیجنا شروع کر دی جس کی وجہ سے پاکستانی فوج کو ملکی دفا ع کے لئے مشرقی بارڈر پر توجہ مرکوز کرنی پڑی ۔ انڈیا نےتقریبا ڈیڑھ سال تک فوج کو بارڈر پر لگائے رکھا جس کا یہ نقصان ہوا کہ اس دوران القاعدہ سمیت بین الا قوامی اور لوکل عسکری گروپوں جیسا کہ لشکر جھنگوی اور دیگر دہشت گرد تنظیموں کو یہ موقع ملا کہ وہ شمالی اور جنوبی وزیرستان میں خود کو مضبوط کریں اور وہاں اپنی بناہ گائیں بنائیں ۔ اس سے ان کو مزید موقع ملا کہ وہ دیگر علاقوں میں بھی پھیل جائیں ۔ اس نقصان کو پورا کرنے لے لئے آپریشن ضرب عضب کا آغاز کیا گیا۔

گزشتہ منگل کو امریکی فوج کے جنرل جوزف ووٹیل نے اپنی سنٹرل کمانڈ کو بریفنگ میں بتایا کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان ایٹمی جنگ کے امکانات موجود ہیں اور اس کی بڑی وجہ انڈیا کی وہ پالیسی ہے جس کا مقصد پاکستان کو عالمی سطح پر تنہا کرنا ہے ۔ جنرل نے کہا کہ ایک طرف انڈیا پاکستان کو کہتا ہے کہ پاکستان کے اندر دہہشت گرد پناہ گائیں ختم کی جائیں ۔ لیکن دوسری طرف مشرقی پارڈر پر بھارت کی طرف سے دباوٗ کے باعث پاکستان کی وہ ساری کوششیں کم پڑ جاتی ہیں جو پاکستان مغربی سرحد پر القاعدہ اور طالبان کو روکنے کے لئے کر رہا ہے۔

بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی نے کئی دفعہ عوامی خطابات میں کا کھل کر اظہار کیا ہے ۔کہ وہ پاکستان کو تنہا کرنے کی پالیسی جاری رکھے گا۔ گزشتہ سال نریندر مودی نے کہا تھا، ’’پانیوں کا تعلق انڈیا سے ہے اور ہم اس کو پاکستان جانے کی اجازت نہیں دیں گے‘‘ ریاست اتر پردیش کا الیکشن بھی اسی نعرے پر لڑا جا ریا ہے۔ بھارت عالمی سطح پر کوشش کر رہا ہے کہ پاکستان کو ایسی ریاست کے طور پر شناخت کیا جائے جو دہشت گردی کو سپورٹ کرتا ہے۔ جب کہ خود بھارت میں اس وقت انتہا پسند تنظیمیں ملک کی بھاگ دوڑ سنبھالے ہوئے ہیں۔

پاکستان دہشت گردی کے خلاف ایک طویل جنگ میں ہے پاکستانی فوج اس جنگ میں ہر اول دستے کا کردار ادا کر رہی ہے۔ ہمارے جوان دن رات قربانیاں دے رہے ہیں۔ سیکیورٹی فورسز کے ساتھ ساتھ عوام کو ملا کر ساٹھ ہزار کے قریب لوگ جاں بحق ہو چکے ہیں۔ ہزاروں معذور ہو گئے ہیں۔ دہشت گردی کی جنگ سرحدوں سے نکل کر شہروں تک آ چکی ہے ۔ اس سب کے باوجود بھارت چاہتا ہے کہ پاکستان کو عالمی سطح پر تنہا کیا جائے ۔ اور مشرقی سرحد پر دباوٗ برقرار رکھتے ہوئے پاکستان کو مشکل میں ڈالا جائے۔ بھارت کو یہ سمجھنا ہو گا کہ پاکستان کی جنگ صرف پاکستان کی جنگ نہیں بلکہ پورے خطے کی جنگ ہے۔ ہمسائے میں اگر آگ لگی ہو تو اس پر تیل نہیں نہیں پانی چھڑکا جاتا ہے ۔ دوسری طرف عالمی طاقتوں کو بھی اپنے پیمانے اور معیار بدلنے ہوں گے۔ ایسا کب تک چلے گا کہ مریں بھی ہم اور مجرم بھی ہم۔ افغانستان کے اندر بھی دہشت گرد کاروائیوں میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔ دارالحکومت کابل اس وقت دہشت گردوں کا بہت بڑا نشانہ بنا ہوا ہے۔ پاکستان ہو یا افغانستان ، دونوں طرف لوگ مر رہے ہیں۔ اس لئے ضرورت ہے کہ افغانستان ایسے فریق کے ساتھ کھڑا ہو ۔ جو دہشت گردوں کے خلاف برسر پیکار ہے ۔ افغناستان اور پاکستان کو ساتھ مل کر دہشت گردی کے خاتمے کے لئے کردار ادا کرنا ہو گا۔ کیونکہ ریاستیں تب ہی ترقی کرتی ہیں ۔ جب وہاں سماجی اور معاشی خوشحالی ہو ۔ اور یہ دہشت گردی کے عفریت کے ساتھ ممکن نہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے