سندھی قوم پرست پیپلز پارٹی کیلئے چیلنج ؟

اگر آپ سندہ کے حیدرآباد جیسے شہر میں ہزاروں افراد جمع کرکے ، دهشتگردی ،مذھبی انتھاپسندی اور کرپشن کے خلاف سارا دن شہر میں گشت کرنے کے بعد کامیاب جلسہ کرکے پرامن طور پر ختم کر جائیں اور ملکی میڈیا اس کی اتوار کے دن اسلام آباد، لاھور اور کراچی میں سری پائے ، حلوہ پوری اور روغنی نان والے ناشتے والی خبر کے بیسویں حصے کے برابر بھی خبر نہ دے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ تو زیادتی ہے نہ ؟ منسلک تصویر سندہ يونائيٹڈ پارٹی کے چند دن پہلے کے اس جلسہ کی ہے جس کا ملکی میڈیا نے مکمل بلیک آئوٹ کیا۔

سندھہ يونائيٹڈ پارٹي قومپرست پارٹی ضرور ہے مگر نہ تو یہ سندھودیشی سیاست کرتی ہے اور نہ ہی تشدد کی۔ اس کی سیاست تو وفاق پاکستان بمعہ صوبائی حقوق میں یقین والی ہے اورانہوں نے آپریشن ردالفساد کی حمایت کرتے ہوئے اس کا دائرہ کار سندہ میں کی گئی کرپشن تک بڑہانے کا مطالبا بھی کیا ہوا ہے ۔ پھر بھلا اوپر والے میڈیا کوریج سے کیوں روکیں گے ؟ ۔ یہ نیچے والوں کا ہی کام لگتا ہے۔

اس پارٹی کے سربراہ جلال محمود شاہ ہیں ۔ ان کی سب سے بڑی پہچان یہ ہے کہ وہ سندھی قومپرستی کے بانی سائیں جی ایم سید کے پوتے اور سندہ اسیمبلی میں سابق قائد حزب اختلاف امداد محمد شاھہ کے بڑے بیٹے ہیں۔ جلال شاہ ، وزیر اعلٰی مراد علی شاہ کے والد عبداللہ شاہ کو جو خود بھی وزیر اعلٰی سندہ رہ چکے ، الیکشن ہرا کر سندھہ اسیمبلی کے ڈپٹی اسپیکر اور اسپیکر بھی رہے ہیں لیکن اس کے بعد وہ مسلسل چار مرتبہ پیپلز پارٹی سے الیکشن تو ہارے ہیں مگرسیاست میں حوصلہ نہیں ہارے ۔

جلال شاہ کے نوابشاہ میں سوسائٹی والے گھر اور آصف علی زرداری کے گھر کے درمیان صرف ایک دیوار ہے۔ ان دونوں کے والد امداد محمد شاہ اور حاکم علی زرداری کافی اچھے دوست تھے۔ دونوں گھرانوں میں کافی آنا جانا رہا ہے
یہ ہی نھیں جلال شاہ اور آصف زرداری دونوں ـ بھائی جان ـ بھی ہیں ( کیڈٹ کالج (پیٹارو میں پڑہنے والے ایک دوسرے کو بھائی جان پکارتے ہیں

2008 کے الیکشن کے دوران ، محترمہ بے نظیربھٹو کی شہادت سے چند دن پہلے دبئی میں اپنے گھر پرظہرانے میں آصف زرداری نے جلال شاہ اور ان کے بھائی زین شاھہ کو پیپلز پارٹی میں شامل ہونے کی دعوت دی تھی مگر جلال شاہ نے یہ کہہ کر معذرت کرلی کہ سندھہ کے مفاد میں آپ اور ہم ملکر ساتھہ چل تو سکتے ہیں مگر پیپلز پارٹی میں شامل ہونے کی اجازت میری سات پشتوں کے اصول مجھے نہیں دیتے۔

حیدرآباد والے حالیہ جلسے میں یہ پیغام دیا گیا کہ ملک کے دشمن ہم نہیں کرپٹ حکمران ہیں۔ ہم پر امن ہیں، عدم تشدد پر یقین رکھتے ہیں۔ ھم ہر قسم کی دہشتگردی کے خلاف ہیں۔ ہمارا قصور صرف یہ ہے کہ ہم سندھہ سے غیر مشروط پیار کرتے ہیں۔

صرف یہ ہی نہیں،سندھہ میں کئی اور پارٹیاں بھی آج کل سرگرم ہیں۔

رسول بخش پلیجو کی عوامی تحریک بھی آج کل متحرک ہے۔ ان کا سندہ قومی لانگ مارچ اسلام کوٽ تھر پارکر سے شروع ہو کر ٹھٹہ پہنچا ہے ۔ جس کی منزل کراچي پريس کلب ہے۔ پانچ سو کلو میٹر پیادل مارچ تھر میں گوڑانو ڊيم بنانے ، سندہ میں کرپشن، تعليم اور صحت کی تباہی اور خراب حکمراني کے خلاف ہو رہا کے۔

قادر مگسی کی ترقی پسند پارٹی نے بھی حال ہی میں یوم مادر وطن کے نام سے ایک جلسہ حیدرآباد میں کیا ھے۔ ان کا بھی یہ مطالبا ھے کہ ملکی آئین کے مطابق سندہ کو حقوق دیئے جائیں ۔

ایازلطیف پلیجو اپنی پارٹی قومی عوامی تحریک کو کافی متحرک رکھے ہوئے ہیں۔ مذہبی انتہا پسندوں اور پیپلز پارٹی ، خاص کر آصف علی زرداری کے کافی ووکل نقاد ہیں۔ آئے دن ان کا کوئی نہ کوئی جلسہ، مارچ، احتجاج، سیمینار، کانفرنس منعقد ہوتے رہتے ہیں جن میں خاص طور پر حکمرانوں کی کرپشن کا ذکر بڑی بہادری سے کرتے ہیں۔

عوامی جمہوری پارٹی بھی مسلسل میدانِ سیاست میں ہے۔ حال ہی میں ان کا مرکزی کنوینشن ہوا ہے جس میں پرانے ترقی پسند قومپرست رہنماء امان اللہ شیخ وکیل ان کے سربراہ منتخب ہوئے ہیں۔

سندہ میں اور بھی چھوٹی بڑی پارٹیاں ہیں کمال کی بات ہے کہ سب ہر قسم کی دہشتگردی بمعہ مذھبی دہشتگردی کے خلاف ، پروگریسو اور پر امن ہیں۔ سب سرگرم بھی ہیں مگر ھمارے قومی میڈیا کے بلیک آئوٹ کی وجہ سے ایسا تاثر بناہوا ہے کہ سندہ میں پیپلز پارٹی کے سوا باقی اور کوئی نھیں ۔ یہ نہ صرف ان پارٹیوں کے ساتھہ زیادتی ہے بلکہ ملک کے ان سب عوام کے ساتھہ بھی زیادتی ہے جن کو اصل حقیقت سے دور رکھا جاتا ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے