ولید بن طلال نےاپنی ساری دولت 32 ارب ڈالر خیرات کر دی

میاں حامد

0,,16649230_303,00 (1) 

مشہور سعودی شہزادے ‘پرنس ولید بن طلال’ جو کہ بتیس ارب ڈالر(بیس ارب پاؤنڈذ) کے اثاثوں کے مالک ہیں انھوں نے یکم جولائی کو ایک اعلان میں اپنی تمام کی تمام دولت خیراتی اداروں کو دینے کا اعلان کیا ہے

شہزادہ ولید جوکہ پہلے ہی اپنی دریا دلی کے لئے مشہور ہیں انھوں نے یہ اعلان اپنے بچوں ‘پرنس خالد’ اور ‘پرنسس ریم’ کی موجودگی میں کیا اس موقع پر انکا یہ بھی کہنا تھا کہ اس معاملے میں انھیں اپنے بچوں کی بھرپور حمایت حاصل ہے
ان کے مطابق آئندہ سالوں میں انکے اثاثے انکے ذاتی خیراتی ادارے
‘Al-Waleed Philanthropic Foundation’
کو منتقل کر دئیے جائیں گے جس کے بعد یہ رقم یتیموں،نوجوانوں’عورتوں کی خومختاری اور معاشرے میں برداشت کو فروغ دینے کے لئے استعمال کی
جائے گی۔

11693853_10153407847173057_2264321067091808406_n

ارب پتی سعودی شہزادے الولید بن طلال نے اپنی تمام دولت یعنی بتیس ارب ڈالر فلاحی کاموں کے لیے وقف کرنے کا اعلان کیا ہے۔ ایک بیان میں انہوں نے کہا ہے کہ وہ یہ پیسہ آئندہ برسوں کے دوران فلاح عامہ کے منصوبوں پر خرچ کریں گے۔

ساٹھ سالہ الولید بن طلال کا تعلق سعودی عرب کے شاہی خاندان سے ہے اور وہ شاہ عبداللہ کے بھتیجے ہیں، جو اس سال 23 جنوری کو انتقال کر گئے تھے۔ یہ اور بات ہے کہ اُن کے پاس کوئی سرکاری عہدہ نہیں ہے۔ قدامت پسند سعودی بادشاہت میں مختلف اقتصادی امور پر الولید کی جانب سے وقفے وقفے سے کیے جانے والے نمایاں تبصرے ایک غیر معمولی بات ہیں۔

سعودی پرنس کی طرف سے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ ’خیراتی کاموں کے لیے پیسہ وقف کرنے کا یہ اعلان ثقافتوں کے درمیان افہام و تفہیم کو مستحکم بنانے کے سلسلے میں پُل بنانے کا کام دے گا، اس سے کمیونٹیز کو ترقی دی جا سکے گی، خواتین کو با اختیار بنایا جا سکے گا، نوجوانوں کی صلاحیتوں کو جلا دی جا سکے گی، آفات کی صورت میں اشد ضروری امداد فراہم کی جا سکے گی اور ایک زیادہ روادار اور بہتر دنیا تخلیق کی جا سکے گی‘۔

اس بیان میں کہا گیا ہے کہ یہ پیسہ اچھی طرح سے سوچ سمجھ کر تیار کیے گئے ایک پلان کے مطابق آئندہ برسوں کے دوران خرچ کیا جا ئے گا۔ اس بیان میں اس بات پر بھی زور دیا گیا ہے کہ اس عطیے کو خرچ کرنے کے لیے وقت کی کوئی قید نہیں رکھی گئی ہے۔

پرنس ولید بن طلال کے مطابق اُن کی اپنی سربراہی میں قائم امین لوگوں کا ایک بورڈ ان سارے فنڈز کے استعمال کی نگرانی کرے گا اور یہ کہ اُن کی موت کے بعد بھی یہ پیسہ انسانی بھلائی کے مختلف منصوبوں اور دیگر پروگراموں کے لیے خرچ کیا جاتا رہے گا۔

اُنہوں نے اپنی کمپنی کے مرکزی دفتر کی چھیاسٹھ ویں منزل پر صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے کہا:’’اس اعلان کا میری کمپنی ’کنگڈم ہولڈنگ‘ سے کوئی تعلق نہیں ہے اور نہ ہی اس اعلان سے اس لمیٹڈ کمپنی کے شیئرز کی قیمتوں پر کوئی فرق پڑے گا۔‘‘
’کنگڈم ہولڈنگ‘ نامی کمپنی نے، جس کے سربراہ الولید بن طلال ہیں، میڈیا کے شعبے میں سرمایہ کاری کے علاوہ یورو ڈزنی پارک سے لے کر ’فور سیزنز‘ ہوٹلوں اور ’سٹی گروپ‘ میں بھی پیسہ لگا رکھا ہے۔ الولید بن طلال ہی بحیرہٴ احمر کے کنارے واقع شہر جدہ میں وہ مینار نما عمارت تعمیر کر رہے ہیں، جس کی بلندی ایک کلومیٹر سے زیادہ (تقریباً تین ہزار تین سو فٹ) ہو گی اور جو اپنی تکمیل کے بعد دنیا کی بلند ترین عمارت ہو گی۔

0,,15894239_401,00

رواں سال کے آغاز پر الولید نے بحرین میں ایک عرب نیوز چینل کا افتتاح کیا تھا تاہم اسے پروگرام نشر کرتے چوبیس گھنٹے بھی نہیں ہوئے تھے کہ اسے بند کر دیا گیا۔ اب اس چینل کے ہیڈکوارٹر کے لیے کوئی اور جگہ تلاش کی جا رہی ہے۔

گزشتہ ہفتے الولید پیرس میں تھے، جہاں اُنہوں نے فرانس کی کمپنی ’سی ڈی سی انٹرنیشنل کیپیٹل‘ کے ساتھ پہلا فرانسیسی سعودی انویسٹمنٹ فنڈ تشکیل دینے کے سلسلے میں ایک ابتدائی سمجھوتے پر دستخط کیے۔ اس فنڈ کی مالیت چار سو ملین ڈالر ہو گی۔ ایک اور سودے کی رُو سے ایک فرانسیسی کنسورشیم اور سی ڈی سی آئی سی ’کنگڈم ہولڈنگ‘ میں 150 ملین ڈالر کی سرمایہ کاری کریں گے۔

الولید بن طلال کے مطابق وہ گزشتہ پینتیس برسوں سے زائد عرصے کے دوران ’الولید فلانتھروپیز‘ کے تحت پہلے ہی ساڑھے تین ارب ڈالر کی رقم فلاحی کاموں پر خرچ کر چکے ہیں۔ اس ادارے کے تحت سعودی عرب کی دور دراز آبادیوں میں گھر تقسیم کرنے اور اُنہیں بجلی فراہم کرنے کے علاوہ دنیا بھر میں منصوبوں کے لیے عطیات فرام کیے گئے۔

الولید نے کہا کہ اُنہوں نے آج کا یہ اعلان دو سال کی تیاریوں اور اس امر کو یقینی بنانے کے بعد کیا ہے کہ یہ منصوبے اُن کی زندگی کے بعد بھی جاری و ساری رہیں۔ اس پریس کانفرنس کے موقع پر الولید کا بیٹا شہزادہ خالد اور بیٹی شہزادی ریم بھی اُن کے ہمراہ تھے، جو الولید بن طلال کے بقول اُن کی موت کے بعد اس فلاحی منصوبے کے صدر اور نائب صدر ہوں گے۔

الولید کا کہنا تھا کہ ’اپنے عروج کے موقع پر انسان کو کچھ ڈرامائی اور انتہائی نوعیت کے فیصلے کرنے چاہییں‘۔ اُنہوں نے اس موقع پر یہ بھی کہا کہ وہ آج کل بھی اچھی صحت کے مالک ہیں اور صحت مند رہنے کے لیے روزانہ تین گھنٹے سائیکل چلاتے ہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے