انسداد سود کی کوشش اور ہمارا المیہ

ہمارایہ المیہ رہا ہے کہ 70 سال بیت چکے اسلام کے نام پر وجود میں آنے والے ملک میں عملی طور پر آئین میں موجود اسلامی دفعات کا بھی مکمل طور پر نفاذ ممکن نہیں ہو سکا ، بد قسمتی سے اسلامی قوانین کی راہ میں ہمیشہ روڑے اٹکائے گئے اور ان کے نفاذ میں لیت و لعل سے کام لیا گیا یہی وجہ ہے کہ اس پاک سر زمین کے حصول کے لیے قربانیاں دینے والوں کا خواب شرمندہ تعبیر نہ ہو سکااور یہ ملک چند مفاد پرست عناصر کے ہاتھوں میں کھلونا بن کر رہ گیا ۔ مثال کے طور پر اس ملک کا معاشی نظام مکمل طور پر شریعت مطہرہ کی تعلیمات کے مطابق ہونا چاہیے تھااور سود جیسی لعنت سے اسے بالکل پاک ہونا چاہیے تھا جیسا کہ 1956اور 1962کے آئین میں واضح طور پر یہ بات درج تھی کہ حکومت پاکستان نظام معیشت سے سودکی لعنت کو ختم کرنے کیلئے بھر پور کوشش کرے گی ۔پاکستانی عوام کی زندگیاں اسلامی سانچے میں ڈھالنے کی غرض سے 1962کے آرٹیکل 38کی ذیلی دفعہ کے تحت اسلامی نظریاتی کونسل کے نام سے ایک دستوری ادارہ تشکیل دیا گیا جس نے دسمبر 1969میں اپنی آئینی ذمہ داری پوری کرتے ہوئے اتفاق رائے سے اس امر کا اظہار کیا کہ "ربا” اپنی ہر صورت میں حرام ہے اور شرح سود کی کمی بیشی اس کی حرمت پر اثر اندا نہیں ہوتی مزید یہ کہ موجودہ بینکاری نظام کے تحت افراد ،اداروں اور حکومتوں کے درمیان قرضوں اور کاروباری لین دین میں اصل رقم پر جو اضافہ اور بڑھوتری لی یا دی جاتی ہے وہ ربا کی تعریف میں آتی ہے ۔1973 کے متفقہ آئین میں بھی یہ بات غیر مبہم طور پر موجود ہے کہ حکومت جس قدر جلد ممکن ہو سکے ربا کو ختم کرے گی۔

جون 1980میں اسلامی نظریاتی کونسل نے سود کے متبادل نظام کی جملہ تفصیلات اس وقت کے صدر ضیاء الحق مرحوم کو پیش کیں اور کہا گیا کہ ان تجاویز پر عمل در آمد سے سال کے اندر اندر پاکستان کی معیشت سود سے مکمل طور پر پاک ہو سکتی ہے ۔مگر پاکستان کے اس آئینی ادارے کی تجاویز اوراور رپورٹ کو در خور اعتنا نہ سمجھا گیااور مسلسل پاکستان کا نظام معیشت سود پر برقراررہا۔

اس کے بعد کی کہانی بڑی ہی بھیانک ہے ، اہل پاکستان نے اپنے آئینی حق کے حصول کیلئے عدالتوں کا دروازہ کھٹکٹایا ۔1990 میں محمود الرحمن فیصل نامی ایک پاکستانی نے وفاقی شرعی عدالت میں ایک پٹیشن دائر کی، جس میں عدالت سے استدعا کی گئی کہ آئین پاکستان کے مطابق سودی نظام معیشت کو غیر اسلامی قرار دے کر اس پر پابندی عائد کی جائے اور حکومت وقت کو یہ ہدایت کی جائے کہ پاکستان کے معاشی نظام سے سود جیسی لعنت کا خاتمہ کیا جائے۔
وفاقی شرعی عدالت نے اس کیس اور اس سے ملتے جلتے 114دیگر کیسز کی سماعت کی اور اقتصادی ماہرین ،حکومتی نمائیندوں اور علماء کرام کو تفصیلی طورپرسنا اور دقیق بحثیں کیں ،تحریری وزبانی بیانات حاصل کیے اور اکتوبر 1991میں اپنا تاریخی اور تفصیلی فیصلہ سنایا جس میں تمام سودی لین دین کو حرام قرار دیتے ہوئے وفاقی حکومت اور صوبوں سے کہا گیا کہ وہ 30جون 1992تک سودی قوانین کا خاتمہ یقینی بنائیں اور یکم جولائی 1992 سے تمام سودی قوانین غیر آئینی ہو جائیں گے ،اور تمام سودی کاروبار کوغیر اسلامی ہونے کی بناء پر ممنوع قرار دیا جائے گا۔

عدالت کے اس فیصلے کو عوامی سطح پر زبردست پذیرائی ملی مگر جنہیں سود خوری کی لت پڑ چکی تھی وہ کہاں ٹھنڈے پیٹوں اس فیصلے کو ہضم کرنے والے تھے ؟چنانچہ 30جون 1992سے پہلے پہلے کچھ مالیاتی اداروں ، بینکوں اور بعض افراد نے سپریم کورٹ اپیلیٹ بنچ میں وفاقی شرعی عدالت کے اس فیصلے کو چیلنج کرتے ہوئے اس کے خلاف اپیلیں دائر کر دیں ، یہ اپیلیں اس تاریخی فیصلے کے نفاذ کی راہ میں رکاوٹ بن گئیں ،سات سال تک یہ اپیلیں مسلسل زیر التوا رہیں ۔ بالآخر 1999میں سپریم کورٹ آف پاکستان میں ایک پانچ رکنی شریعت ایلیٹ بنچ تشکیل دیا گیا جس میں جناب جسٹس خلیل الرحمن چیئرمین تھے جبکہ جسٹس وجیہ الدین ، جسٹس منیر اے شیخ ،جسٹس مفتی تقی عثمانی ،اور جسٹس ڈاکٹر محمود احمد غازی بطور ممبر شامل تھے ،فاضل عدالت نے بھی تفصیلی طور پر اس مقدمے کو سنا،فریقین کیطرف سے فراہم کردہ سارے مواد کی چھان بین اور علماء ووکلاء کی بحثوں کی سماعت کرنے کے بعد سپریم کورٹ کے شریعت اپیلٹ بنچ نے وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کو عمومی طور پر درست قرار دیتے ہوئے سودی قوانین کو اسلام کی تعلیمات کی روشنی میں حرام اور ممنوع قرار دیا ،اور حکومت وقت کو مزید مہلت دیتے ہوئے ہدایت جاری کی کہ وہ جون 2001تک تمام غیر اسلامی قوانین کو بدل کر بینکنگ سمیت دیگر معاشی معاملات کو سود سے پاک کرے ،

سپریم کورٹ کے اس واضح فیصلے کے بعد سود خوروں اور مفاد پرست عناصر کی نیندیں حرام ہو گئیں چنانچہ حکومت نے عدالت سے دو سال کی مہلت کی درخواست کی جسے عدالت نے منظور کرتے ہوئے حکومت کو ایک سال کی مہلت دی اور ہدایت کی کہ جون 2002تک مطلوبہ آئینی و انتظامی اقدامات مکمل کر لئے جائیں ۔ ایک سال کی مہلت ختم ہونے کو آئی تو ظلم یہ کیا گیا کہ پی سی او کے تحت حلف نہ اٹھانے پر شریعت بنچ کے چیئرمین جسٹس خلیل الرحمن اور جسٹس وجیہ الدین احمد کو ریٹائر کر دیا گیا ، جسٹس محمود غازی بھی ایک حکومتی عہدے پر فائز ہونے کی وجہ سے بنچ کا حصہ نہ رہے ، جسٹس مولانا مفتی تقی عثمانی کو بغیر کوئی وجہ بتائے اپیلٹ بنچ سے فارغ کر دیا گیا ۔ دریں اثناء یو بی ایل کی جانب سے نظر ثانی کی اپیل بھی دائر کی گئی تھی، اب سابقہ بنچ کے صرف جسٹس منیر اے شیخ باقی رہ گئے تھے نئے بنچ نے نظر ثانی کی درخواست کی سماعت کی بد قسمتی سے یہ آمریت کا دور چل رہا تھا ،چنانچہ 24جون 2002کو اس نئے بنچ نے اپنا فیصلہ سناتے ہوئے شریعت اپیلٹ بنچ کا 23دسمبر 1999کا فیصلہ اور وفاقی شرعی عدالت کا 14نومبر 1991کا فیصلہ بیک جنبش قلم منسوخ کر دیا اور مقدمے کو از سر نو سماعت کے لئے دوبارہ وفاقی شرعی عدالت میں بھیجنے کے احکامات صادر کر دیئے ،یوں انسداد سود کی سابقہ نصف صدی کی تمام کوششوں پر پانی پھر گیا، 14سال سرد خانے میں رہنے کے بعد اب ایک بار پھر وفاقی شرعی عدالت میں اس کیس کی سماعت دوبارہ شروع ہوئی ہے ،نا امیدی اور مایوسی کفر ہے مگر درج بالا داستان غم چیخ چیخ کر کہہ رہی ہے کہ یہاں انصاف ملنا مشکل ہے ، اس وطن کے بانیوں کے خوابوں کو شرمندہ تعبیر نہیں ہونے دیا جا رہا اس ضمن میں جماعت اسلامی ،تنظم اسلامی ،پاکستان شریعت کونسل کے جنرل سیکرٹری مولانا زاہد الراشدی اور تحریک انسداد سود کے رہنماؤں کی کاوشیں قابل قدراور لائق تحسین ہیں ،اللہ پاک ہمارے ان بزرگوں کو استقامت نصیب فرمائے اور ہمارے ملک کو مکمل اسلامی ،فلاحی ریاست بنائے۔ آمین

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے