پاکستانی ریاست اورانوکھی سیاست

حقیقت کو مان لینا یا حقیقت کا سامنا کرنا انتہائی مشکل ہوتا ہے،ذاتی قدر و اہمیت کے عہد میں غرور کی حد تک معاشرے شان و شوکت کا مظاہرہ کرنے لگتے ہیں اور جب معاشرے پر سوالات اٹھنے لگتے ہیں تو معاشرے یا تو سوالات کا جواب دینے سے قاصر ہوتے ہیں یا ان سوالات سے نئی کہانیوں کی بنیاد رکھنے لگتے ہیں۔

گزشتہ کئی سالوں سے پاکستان کی عوام ایک ایسے مرحلے سے گزر رہی ہے جس کے ختم ہونے کے دور دور تک اثرات نظر نہیں آتے،جس میں ابتدا میں تو پاکستان میں موجود کچھ تلخ حقائق سے انکار کیا گیا اور پھر جوش خطابت میں غلط کہانیوں کو بیان کیا گیا ،پھر کچھ عرصہ ان کہانیوں پر تنقیدمیں گزارا
گیاجنہیں متعدد لوگ حقیقت مانتے ہیں۔

جن بنیادی حقائق کو پاکستان میں نظر انداز کیا جاتا رہا ہے ان میں سے ایک حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں سیاست ملک کی فلاح و بہبود کے لیے نہیں ہے اور نہ ہی یہاں سیاست ووٹرز کے فیصلے کے لیئے ہے ۔یہاں طرز حکمرانی میں یہ معاملہ اہمیت نہیں رکھتا کہ ملک میں آمریت ہے یا مطلق العنان جمہوریت ،یہاں اقتدار میں کوئی بھی ہو اس کا مقصد اپنے معاشی اور سماجی مفادات کا تخفظ اور ان کو فروغ دینا ہوتا ہے ،جس کے لیئے وہ مختلف پروپیگنڈوں کو اپنی ڈھال بناتا ہے۔پاکستا ن میں رائج سیاسی نظام نہ تو ملک کی ترقی کے لیئے ہے اور نہ ہی یہ نظام اسلامی اصولوں کے مطابق ہے ۔

اسلام میں سیاست اس فعل کو کہتے ہیں جس کے انجام دینے سے لوگ اصلاح سے قریب اور فساد سے دور ہو جائیں ،قرآن کریم میں لفظ سیاست تو نہیں لیکن ایسی بہت سی آیات ہیں جو سیاست کے مفہوم کو واضح کرتی ہیں ،مثلاََ قرآن میں امربالمعروف و نہی عن المنکر،مظلوموں سے اظہار ہمدردی و حمایت ،ظالم و ظلم سے نفرت اور اس کے علاوہ انبیاء اکرام کا انداز سیاست بیان کیا گیا ہے۔مگر ہمارے ہاں سب کچھ اسلامی اصولوں کے بر عکس ہے ،یہاں نہ تو سیاست سے عوام کی اصلاح ہو رہی ہے اور نہ لوگ فساد سے دور ہورہے ہیں بلکہ فساد پھیلتا جارہا ہے ،یہاں نہ تو مظلوم اور لاچار سے ہمدردہ کا کوئی تصور ہے اور نہ ظالم اور ظلم سے نفرت کا۔

ہمارے ہاں سیاست میں جمہوریت کی رٹ بھی بہت لگائی جاتی ہے ،جمہوری نظام کے بھی بہت چرچے ہوتے ہیں اور اس نظام کی سب سے بڑی خوبی یہ بتائی جاتی ہے کہ اس میں عوام کی نمائندگی کا مکمل تصور پایا جاتا ہے ،عوامی کثرت رائے کے اصول کے تحت ہر علاقے سے نمائندوں کا انتخاب کر کے انہیں پارلیمنٹ بھیجا جاتا ہے ،اس میں مملکت کا ہر فرد اپنی ذاتی حیثیت سے اثر انداز ہوتا ہے اور یہی عوامی نمائندگی کی مکمل اور عام فہم شکل ہے ،مگر جمہوری نظام کی یہ عام فہم شکل صرف الیکشن کے دنوں میں نظر آتی ہے ۔اس کے بعد جمہوریت کے دعویدار عوامی نمائندے عوام ہی کو بھول جاتے ہیں ۔عوام کے انہی نمائندوں کے سامنے کبھی اجتماعی زیادتی کا شکار لڑکی انصاف نہ پا کر خودکشی کر لیتی ہے اور کبھی کوئی فرض شناس افسر فرض شناسی کے جر م میں قتل ہو جاتا ہے ،اور یہ نمائندے محمل کے بستر پر گہری نیند سو رہے ہوتے ہیں ۔اور یہی جمہوریت و جمہوری نظام پاکستان میں سالوں سے چلا آرہا ہے۔

اب اگر اسلامی نقطہ نظر سے بات کریں تو اسلام میں اس طرح کے جمہوری نظام کا کوئی تصور نہیں ،اسلام میں حکومت کا تصور بالکل مختلف ہے ،اسلام میں نمائندگی ووٹوں کے ذریعے نہیں بلکہ اہلیت کی بنا پر اعتماد کی صورت میں ابھر کر سامنے آتی ہے ۔اہلیت معاشرے میں ایک معلوم و معروف شے ہوتی ہے ،معاشرے کے مختلف طبقوں میں سے مختلف لوگ اپنی اپنی اہلیت کی بنا پر نمایاں ہو جایا کرتے ہیں اور عوامی اعتماد سے وہ عوام کی نمائندگی کرتے ہیں۔
جمہوریت مغربی طرز حکمرانی ہے اور اس کی تقلید کے لیئے تمام تر مثالیں بھی مغرب ہی سے لی جاتی ہیں۔جمہوریت خود کوئی نظام بھی نہیں ہے بلکہ سرمایہ داری جیسے معاشی نظام کو چلانے اور اس کے تخفظ کے لیئے ایک طرز حکمرانی ہے ۔سرمایہ داری اور معاشی استحصال لازم و ملزوم ہوتے ہیں ،اس نظام میں طبقات کا پیدا ہونا اور ان کا برقرار رہنا لازمی ہے،اس نظام کو لانے کے لیئے محنت کش طبقہ،انتظامی امور چلانے والا طبقہ اور درمیان میں جھولتے رہنے والا متوسط طبقہ سب لازمی ہوتے ہیں اور ان کے درمیان تضادات اس نظام کے چلتے رہنے کا سبب بنتے ہیں ،جمہوریت انتہائی مکارانہ طریقے سے ان شدت پکڑتے ہوئے تضادات کو کسی حد تک کنٹرول کرتی ہے اور یہ نظام چلتا رہتا ہے۔

پاکستان میں یہ سرمایہ دارانہ ،جمہوری نظام اپنی ارتقائی مراحل سے گزر کر یہاں تک نہیں پہنچا بلکہ برصغیر کی تقسیم کے بعد یہ نظام پاکستان کے وڈیروں اور جاگیرداروں کو ورثہ میں ملا ،بلکہ اگر یوں کہا جائے تو غلط نہ ہوگا ان راویتی جاگیرداروں اور وڈیروں نے انگریزوں کی غلامی کرکے پاکستان کی حکمرانی حاصل کی اور آج بھی یہی لوگ پاکستانی سیاست پر قبضہ جمائے ہوئے ہیں، آج بھی پاکستانی سیاست میں یہی لوگ اور ان کے بچے فیصلہ کن کردار ادا کرتے ہیں۔
پاکستان میں سیاست آج بھی موروثی ہے اور اس مورثی سیاست کی تاریخ لمبی چوڑی فہرستوں سے بھری پڑی ہے ۔صرف پاکستان پیپلزپارٹی کی بات کریں تو ہمیں ذوالفقار علی بھٹو،نصرت بھٹو ،ممتاز بھٹو ،بے نظیر بھٹو،مرتضیٰ بھٹو اور غنویٰ بھٹو جیسے نام دکھائی دیتے ہیں ۔زرداری فیملی میں حاکم علی زرداری ،آصف علی زرداری ،فریال تالپور،منور تالپور اور بلاول زرداری وغیرہ نمایاں ہیں۔مسلم لیگ(ق) کی طرف نگاہ ڈالیں تو چوہدری ظہور الہٰی،شجاعت حسین،پرویز الٰہی،شفاعت حسین ،وجاہت حسین،ریاض اصغر،زین الہٰی اور مونس الہٰی وغیرہ بلدیاتی اداروں ،سینٹ ،قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں نظر آتے رہے ہیں۔
عسکری گھرانوں کی اگربات کی جائے تو ایوب خان،گوہر ایوب اورعمر ایوب کے نام نظر آتے ہیں۔ضیاالحق کے اقتدار کے بعدان کے صاحبزادے اعجاز الحق اور انوارالحق بھی سیاسی میدانوں میں نظر آئے ہیں۔

ملک کی سیکولر جماعت عوامی نیشنل پارٹی میں بھی موروثی سیاست کے رنگ ولی خان ،بیگم نسیم ولی خان ،اسفند یار ولی اور امیر حیدر ہوتی کی صورت میں نظر آتے ہیں ۔ملک میں دینی جماعت میں بھی موروثی سیاست کے اثرات کی چھاپ مولانا محمود کے صاحبزادے ،جمعیت العلمائے اسلام (ف) کے مولانا فضل الرحمن کے اردگرد ان کے بھائیوں مولانا عطا الرحمن،مولانا لطف الرحمن ،مولانا عبیدالرحمن،اور ان کے سمدھی مولانا غلام علی کی صورت میں نظر آتی ہے ۔

معروف کالم نگار عامر خاکوانی کے مطابق پاکستان میں پاکستاں تحریک انصاف،متحدہ قومی موومنٹ اور جماعت اسلامی ہی ایسی جماعتیں ہیں جو موروثی سیاست کے اثرات سے کچھ حد تک محفوظ ہیں اوراس کی ہلکی سی جھلک خیبر پختونخواہ اسمبلی میں نظر آتی ہے ۔

ٓآج ملک میں نام نہاد جمہوریت اور سیاسی نظام کی حالت یہ ہو گئی ہے کہ کسی بھی سیاسی پارٹی کا کوئی منشور نہیں،ہر سیاسی جماعت الیکشن کے دنوں میں ووٹز کے حصول کے لیئے سیاسی نعرے لگاتی ہے مگر قابل عمل منشور پیش نہیں کر سکتی ،اقتدار میں آنے کے بعد ہر سیاسی جماعت عوام کو مہنگائی ،بے روزگاری ،گیس اور بجلی کے بحرانوں کا تحفہ دیتی ہے اور اب تو موجودہ حکمران جماعت اسلام کے نام پر بننے والے ملک کا بیانیہ ہی بدل دینے کی باتیں کر رہی ہے ۔مزے کی بات یہ ہے وہ حکمران ملکی بیانیہ تبدیل کرنے کی بات کر رہے ہیں جن کا اپنا سیاسی بیانیہ تبدیل ہونے جارہا ہے ۔

اس وقت ملک انتہائی نازک دور سے گزر رہا ہے ،ہم دہشت گردی سے نبز آزما ہیں ،حکمرانوں کی تمام تر توجہ پھن پھلائے دہشت گردی جیسے ناگ کو کچلنے پر ہونی چاہیئے نہ کہ ایسے موضوعات چھیڑنے پر ہونی چاہیئے جن سے ملک کے اندر شدت پسندی کو ہوا ملنے اور فساد پھیلنے کا حدشہ ہو۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے