عیاش ماں کی مَمتا جاگےگی؟

ایک منظر ہے جو کئی دنوں سے ذہن کے پردے سے چپکا ہوا ہے۔ یہ رات کا وقت ہے اورلاہور کی ایک مارکیٹ کے سامنے کا فٹ پاتھ ہے ۔ یہ دو بچے اپنے پورے خاندان کے ساتھ یہاں ہر روز بھیک مانگتے دکھائی دیتے ہیں ۔یہ کھانا کھانے والے گاہکوں کے آس پاس گھومتے رہتے ہیں ۔انواع واقسام کے رزق سے اَٹی پلیٹوں کی طرف ٹکٹکی باندھے دیکھتے رہتے ہیں کہ ابھی کوئی گاہک اٹھے گا اور یہ اس کا پس خوردہ اچک لیں گے ۔

ننگے پاؤں اور خاک سے اٹے بالوں والے ان بچوں اور ہوٹلوں کے بیروں میں لڑائی چلتی رہتی ہے ۔ بیرے باقی بچا کھانا فوراًکسی بدبودار ڈرم میں پھینکتے ہیں اور خالی برتن نل کے نیچے رکھے بڑے سے ٹب میں ڈال دیتے ہیں۔ وہ لمحہ ان بچوں کے لیے سب قیمتی ہوتا ہے جب کوئی گاہک اٹھتا ہے اور اونچی کرخت آواز میں بولنے والا بیرا ابھی دُور ہوتا ہے۔ یہ تیزی سے پلیٹ کی جانب لپکتے ہیں اور کھانے کی چیز چَٹ کر جاتے ہیں۔

انہیں ان کی ماں نے کچھ جملے سِکھا رکھے ہیں جن کا مطلب یہ خود بھی نہیں جانتے ۔ ہاں اتنا ضرور جانتے ہیں کہ یہ ”جادوئی جملے” بولنے پر انہیں چند سِکّے مل سکتے ہیں ۔

اس منظر میں ایک پھیری والا ہے جو سَستے کھلونے بیچ رہا ہے ۔ یہ دو بہن بھائی کھلونے دیکھ رہے ہیں اور پھیری والے سے کوئی بات کر رہے ہیں۔ چھوٹا بھائی کسی کھلونے میں دلچسپی لے رہا ہے اور اس کی بہن اپنے ننھے سے ہاتھ میں سختی سے دس روپے کا نوٹ پکڑے ہوئے کسی دوسرے کھلونے کو دیکھ رہی ہے۔ شاید پلاسٹک سے بنے ایک ماسک کو۔ وہ نہیں جانتی کہ یہاں گھومتے پھرتے لوگوں کے چہروں پر کتنے تہہ بہ تہہ ماسک چڑھے ہوئے ہیں ۔ ایک ایک آدمی میں کتنے ہی آدمی یہاں ٹہلتے پھرتے ہیں ۔ آپ ان دونوں کی آنکھوں میں موجود چمک دیکھیے۔ وہی چمک جو ہم سب کے بچوں کی آنکھوں میں اپنی پسند کا کھلونا دیکھ کر در آیا کرتی ہے ۔چمک خالص ہے اور چہروں کی معصومیت بھی ۔

میں یہ منظر دیکھ کرعجیب کیفیت سے دوچار ہوا۔ غمگین ہونے کی وجہ تو سب سمجھ سکتے ہیں ، خوشی کی وجہ البتہ الگ ہے ۔ وہ یہ کہ اس قدر تلخ زندگی کے باجود ان بچوں کے اندر کا ’’بچہ‘‘ ابھی زندہ ہے ۔ جس کی آنکھوں میں ابھی تک شوخی اترتی ہے۔ وہ ابھی مرا نہیں۔ مجھے یقین ہے انہیں ابھی احساس نہیں ہو گا کہ یہ غریب ہیں ۔ یا غربت کا کیا مطلب ہے ۔ ابھی یہ علّت ومعلول کی باریکیوں سے ناواقف ہیں۔ یہ کہاں سوتے ہیں ۔ ان کا مستقبل کیا ہوگا۔ انہیں اس کی کوئی پروا یا فکر نہیں ۔ بالکل ایسے ہی جیسے اسی عمر کے ہمارے بچے۔

ایسے موقع پر مجھے سماج کو بہت کچھ کہنے کو جی چاہتا ہے لیکن کیا کروں میں خود بھی اسی بے رحم سماج کا ایک فرد ہوں ۔ ایک منظر دیکھتا ہوں ،گھڑی بھر اثر لیتا ہوں اور پھرسب کچھ بھول بھال کر اپنی زندگی کے بھنور میں چَکر کاٹنے لگتا ہوں ۔

مجھے وہ غیر سرکاری فلاحی ادارے(این جی اوز) یاد آتے ہیں جو اپنی کوئی ڈاکیومنٹری بیچنے یا ایوارڈ لینے کے لیے ایسے مناظر ڈھونڈتے رہتے ہیں ۔

مجھے ریاست کا خیال آتا ہے جس کے بارے میں پڑھے لکھے لوگوں نے کہہ رکھا ہے کہ ’’وہ ماں کے جیسی ہوتی ہے۔‘‘ مجھے لگتا ہے وہ ایسی ماں ہے جو اپنے بچوں کو جنم دینے کے بعد کسی کوڑے کے ڈھیر پر پھینک دیتی ہے اور اپنے نئے آشنا کے ساتھ وصل کے لمحوں کا لطف لینے لگتی ہے ۔ ایک انتہائی خودغرض اور ذاتی خواہشوں کی اسیرماں۔ کیا ایسا ممکن ہو سکے گا کہ اس ’عیاش‘ ماں(ریاست) کے دِل میں کبھی مَمتا جاگے اور کُوڑے کے ڈھیروں پر رزق تلاش کرتے اپنے ان سب ’’میلے بچوں‘‘ کواٹھا کر اپنی آغوش میں لے لے ؟

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے