عوام کو محفوظ بنانے کا فارمولہ

کیا عجب تماشا لگا ہوا ہے، ہر ادارہ تباہ ہو چکا ہے، ہر ذمہ دار اس تباہی کا ذمہ دار دوسرے ذمہ دار کو سمجھتا ہے۔

عام آدمی سیاست دانوں کو برا کہتا ہے، سیاست دان کے مطابق بیورو کریسی اس تباہی کی ذمہ دار ہے، بیورو کریسی سمجھتی ہے ، عدلیہ اپنا کام نہیں کر رہی جبکہ عدلیہ سمجھتی ہے پولیس رشوت لیتی ہے، سیاست دان صرف کرپشن کر سکتے ہیں، فوج بندے لاپتہ کرتی ہے، بیورو کریسی نکمی ہے جبکہ عام آدمی ان تمام شعبوں کو اس نہج تک پہنچانے کا قصور وار ہے۔

خود عدالت کی اپنے بارے میں کیا رائے ہے یہ آج تک کسی ریٹائر ہونے والے چیف جسٹس یا جج نے نہیں بتایا۔۔ عام آدمی عدلیہ اور عدالتی نظام کے حوالہ سے کیا کہتا ہے یہ جاننے کی کوشش کبھی کسی معزز منصف نے نہیں کی۔

میری پیدائش سے بھی پہلے میرے دادا کی ایک کمرشل جائیداد پر کرایہ دار قابض ہو گیا اس نے اس جائیداد کے جعلی کاغذات بھی تیار کرلیے اور کرایہ ادا کرنا بند کر دیا، کیس دائر ہوا، سیٹلمنٹ کمشنر سے سول جج، سیشن جج نے دادا کے حق میں فیصلہ دیا،وہاں سے وہ کرایہ دار ہائی کورٹ چلا گیا، وہاں یہ کیس تقریباً ستائیس سال چلتا رہا۔

کبھی جج نہیں ہوتا تھا، کبھی مخالف وکیل غائب اور تاریخ نئی مل جاتی تھی، ہمارا وکیل لاہور سے آتا تھاجسے ہر تاریخ پر ہوائی ٹکٹ اور اچھے ہوٹل میں رہائش دی جاتی تھی اور میں نے اپنی نوجوانی میں کبھی بھی وکیل کے آنے کے بعد کیس میں پیشرفت نہیں دیکھی۔ وکیل صاحب کئی سال تک ایسے ہی آتے اور جاتے رہے۔

ایک جج صاحب کو خیال آیا تو سماعت ہوئی اور پہلی ہی سماعت پر ہائی کورٹ کے معزز جج صاحب نے کرایہ دار کو جھوٹا قرار دے دیا اور کہا کیس کیوں اتنا لمبا چلا انہیں نہیں معلوم کیوں کسی نے پچھلے فیصلے نہیں پڑھے کیس بہت سادہ تھا۔ وہ کرایہ دار بھی بہت ڈھیٹ تھا وہ سپریم کورٹ چلا گیا وہاں زیادہ دیر نہیں لگی اور ہم کیس جیت گئے۔

اتنے برس گزر گئے، اس دوران پہلے میرے دادا کا انتقال ہوا تو میرے تایا نے کیس کی پیروی شروع کی، ان کے انتقال کے بعد میرے چچا اور میرے والد نے یہ ذمہ داری لی۔ اب جس وقت وہ جائیداد سب عزیز رشتے داروں میں تقسیم ہوئی تو نہ میرے والد رہے اور چچا بھی جو بعد میں فوت ہوئے وہ بھی ان دنوں بستر مرگ پر ہی تھے۔

یہ صرف ایک کیس ہے جس کا اہم فریق میں خود ہوں، اس میں کوئی سیاست دان ملوث تھانہ کوئی پولیس والا، نہ بیورو کریسی راہ میں حائل تھی اور نہ ہی کوئی فوج والا۔ بس تمام تر تاخیر کا باعث وہ معزز عدالتی نظام ہی ٹھہرا جس کے حوالہ سے کبھی کچھ کہنا بھی گناہ سمجھا جاتا ہے۔

اس عدالت نے کبھی چینی کی قیمت بڑھنے پر نوٹس لیا تو بڑے بڑے شوگر مل مافیا کے اس ناجائز فیصلے کو جائز حیثیت ہی ملی، اس عدالت نے یوسف رضا گیلانی کو خط نہ لکھنے پر تو وزارت عظمیٰ سے فارغ کر دیا مگر یہاں دو مرتبہ آئین توڑنے والے ڈکٹیٹر کو بیرون ملک جانے کی اجازت مل گئی۔ اجازت نہ بھی ملتی تو کون روک سکتا تھا؟۔ ریمنڈ ڈیوس کو کوئی روک پایا؟

یہاں جس کی لاٹھی اس کی بھینس والا قانون لاگو ہے تب ہی تو یہاں انتخابی عذرداری پر فیصلہ ہوتا ہے تو پانچ سال مکمل ہو چکے ہوتے ہیں لیکن یہ عدالت چاہے توایسے انتخابی عمل میں جعلی ڈگری میں ایم این اے یا ایم پی اے فارغ ہو جاتا ہے جہاں ڈگری شرط ہی نہیں ہوتی۔

یہاں ویج ایوارڈ کا کیس سپریم کورٹ میں جاتا ہے فیصلہ ورکر کے حق میں آتا ہے مگر اس عدالت عظمیٰ کے فیصلے کو عدالت عالیہ یعنی ہائی کورٹ میں چیلنج کیا جاتا ہے، پابندی ہے کہ چھ ماہ سے زیادہ کوئی بھی حکم امتناعی قانونی نہیں لیکن ہائی کورٹ میں یہ کیس ساڑھے پانچ سال تک حکم امتناعی پر چلتا رہا۔
یہاں عدالت نے پی آئی اے کے کسی اور معاملہ پر نوٹس لیا مگر اس کیس کے دوران وزیر اعظم کے مشیر برائے ہوابازی شجاعت عظیم کو مشیری سے فارغ کر دیا حالانکہ وہ اس کام کی کوئی تنخواہ نہیں لے رہے تھے۔ شجاعت عظیم پر الزام تھا کہ وہ کورٹ مارشل ہوئے تھے اس کے بعد وہ کسی سرکاری عہدے پر نہیں آ سکتے۔ بھائی صاحب کوئی بھی ذی شعور شخص یہ کہہ سکتا ہے جناب اگر وہ تنخواہ کے بغیر صرف ملکی ائیر لائن کا نظام ٹھیک کرنے آیا ہے اور وہ بے کار شخص نہیں اسے دنیا بھر میں ہاتھوں ہاتھ لیا جاتا ہے لیکن نہیں، عدالت کوئی غلط کام ہوتا نہیں دیکھ سکتی۔

کوئی پوچھے جناب پی آئی اے میں اب کوئی کورٹ مارشل والا شخص نہیں لیکن کیا وہ ادارہ اب بہتر ہے یا اس وقت اس میں کوئی بہتری کی امید دکھائی دے رہی تھی، کوئی پوچھے ان جج صاحب سے گیلانی کو تو آپ نے فارغ کر دیا تھا کہ انہوں نے سوئس حکام کو خط نہیں لکھا تھا کیا خط لکھنے کے بعد سوئٹزر لینڈ سے لوٹی ہوئی رقم واپس آ گئی تھی؟۔ نہیں جناب ایسا نہیں ہوا۔

یہاں جمہوریت میں فوجی عدالتوں کے قیام کی ضرورت ہی اس لیے پڑی کہ یہاں سے دہشت گرد ہتھیاروں سمیت بھی پکڑا جاتا تو عدم ثبوت کی بنا پر باعزت بری ہو جاتا تھا، یہاں سے ڈالر گرل ائیرپورٹ سے ڈالروں سے بھرے بریف کیس کے ساتھ پکڑی جائے تو بھی ثبوت ناکافی قرار پاتے ہیں۔ یہاں تمام چینلز نے ماڈل ٹاؤن میں ہونے والی ریاستی دہشت گردی کے مناظر بھی دکھائے تو پی ٹی وی اور شاہراہ دستور پر ڈنڈا برداروں کی بدمعاشی بھی براہ راست دکھائی ، عمران اور قادری کے بیانات بھی اس حوالہ سے میڈیا پر آئے مگر شواہد نہیں ہیں۔

رانا ثنا اللہ ہوں یا رانا مشہود ۔۔یہ سب بے گناہ ہیں کیونکہ ہمیں ٹھوس ثبوت چاہئیں، یہاں دہشت گرد کھلی دہشت گردی کریں اور اس کی سوشل میڈیا پر تشہیر بھی کریں مگر وہ بے گناہ قرار پاتے ہیں۔ اگر عدالتی نظام ٹھیک ہوتا تو دہشت گردوں کے سہولت کاروں کو کڑی سزائیں ملتیں لیکن انہیں معلوم ہے عدالت نے ٹھوس ثبوت مانگنے ہیں جو ملنے نہیں، پھر پنجرہ کھل جانا ہے۔ اس لیے کوئی کیس یا الزام اہم نہیں رہا۔

یہ کسی بیورو کریٹ یا سیاست دان نہیں بلکہ جج صاحبان کے لیے کہا گیا کہ مہنگے وکیل سے اچھا ہے جج ہی کر لیا جائے۔ اسی لیے آج حال یہ ہے ساری قوم کو کرپٹ قرار دے کر رخصت ہونے والے معزز چیف جسٹس صاحب ۔۔ کسی کو نہیں بتا پائے وہ پانامہ کیس کی سماعت کئی روز کرنے کے بعد اس کو نہ سنا گیا کیس کیوں قرار دے کر ریٹائر ہوئے؟ کیا انہوں نے ملک سے کرپشن ختم کرنے کے لیے کوئی قدم اٹھایا؟ کیا وہ پانامہ پر فیصلہ سنا کر ملک میں سکون کی فضا قائم نہیں کر سکتے تھے؟

اسی لیے آج حال یہ ہے کہ ملک بھر کے تمام شہری غیر محفوظ ہیں مگر عدالت میں پانامہ کیس کا فیصلہ کافی عرصہ سے محفوظ ہے۔ روز اس کیس کے حوالہ سے پی ٹی آئی ایک بڑھک بھرا بیان دیتی ہے تو اس کا جواب حکومتی بھونپو بھی اسی طرح دیتے ہیں، روز دونوں فریقین محفوظ ہونے والا فیصلہ اپنے حق میں قرار دیتے ہیں۔

ہماری چیف جسٹس صاحب سے درخواست ہے کہ تمام عدالتوں کو فیصلے جلد سے جلد کرنے کا پابند کیا جائے تاکہ کرپشن ختم ہو، دہشت گردی ختم ہو اورامن و امان قائم ہو سکے،مہنگائی کا خاتمہ ہو سکے اگر ایسا نہ ہو سکتا تو کم از کم عدالت انکل ۔خدا کے لیے پوری قوم کو بھی اپنا عدالتی فیصلہ فیصلہ ہی قرار دے دیں کم از کم اس طرح ہم محفوظ تو رہ سکیں گے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے