جنرل راحیل شریف سے میرا اختلاف؟

افوج پاکستان کا سابق سپہ سالار جنرل (ر ) راحیل شریف ،پاک دھرتی کا وہ فرزند ہے جسے وطن عزیز پاکستان کی سرحدوں کے اندر دہشتگردی و بد امنی کے خلاف لڑی جانے والی طویل ترین جنگی تاریخ کا فیصلہ کن موڑ اور کامیابی کا توازن دہشتگردوں سے واپس چھین کر قوم کے حق میں منتقل کرنیوالا ہیرو قرار دینا قطعی بے جا نہ ہوگا ۔ قریبا دو عشروں سے زائد عرصہ پر محیط اندرونی و بیرونی دشمنوں کی جانب سے مسلط کردہ دہشتگردی کے باعث وطن عزیز کا کونہ کونہ زخم خوردہ ہو چکا تھا اور نوبت بہ ایں جا رسید کہ قومی سلامتی ہی خطرے سے دوچار نظر آ رہی تھی۔

کہا جا تا ہے کہ جنگیں افواج نہیں بلکہ اقوام لڑا کرتی ہیں اور کسی بھی فوج کی کامیابی میں قوم کا جذبہ و کردار نہایت اہمیت کا حامل ہوتا ہے، تاہم عرصہ مدید سے دہشتگردی کا شکار پاکستانی قوم کے حوصلے جواب دینے لگے تھے اور اسے یہ جنگ جیتنا محال نظر آرہا تھا جبکہ ذاتی و جماعتی مفادات کے خول میں بند گو مگو ں کا شکار حکمران و سیاستدان قوت فیصلہ سے عاری نظر آتے تھے۔ ایسے حالات میں اپنی اعلیٰ خاندانی اور پیشہ ورانہ روایا ت کے پیش نظر پاک افواج کے سپہ سالار جنرل راحیل شریف نے وطن عزیزکی حفاظت کیلئے اٹھائے گئے حلف کی پاسداری میں دہشتگردی کے خلاف بھرپور آپریشن ضرب عضب کا آغاز کیا۔ جنرل راحیل شریف کی قیادت میں پاکستان کی بہادر افواج نے دہشتگردوں کے خلاف دفاعی کے بجائے جارحانہ حکمت عملی اختیار کی اور دہشتگردوں کے ٹھکانوں اور کمین گاہوں پر آگے بڑھ کر حملہ کر کے انہیں تباہ کرنے کا عمل شروع ہوا۔

جنرل راحیل شریف نے وطن عزیز کی بقا کی جنگ کو فرنٹ سے لیڈ کیا اور نہ صرف میدان جنگ میں دن رات اپنے سپاہیوں کے حوصلے بڑھاتے رہے بلکہ حکمرانوں کی جانب سے نظر انداز کیے گئے سیاسی و سفارتی خلا ء کو بھی پر کرتے نظر آئے جسکے لیے افغانستان و روس سمیت دیگر ممالک کے دورے کر کے دہشتگردی کے خلاف پاکستان کی کاوشوں اور کامیابیوں سے دنیا کو آگاہ کیا بالخصوص راحیل شریف کا دورہِ روس دونوں ملکوں کے درمیان ایک طویل مدت بعد تعلقات کی بحالی کی بنیاد بنا۔ پاک افواج کے آپریشن ضرب عضب کے ذریعہ حاصل کی گئی کامیابیوں کے نتائج ملک کے اندر و باہر واضح طور پر نظر آنے لگے، دہشتگردی و بدامنی میں خاطر خواہ کمی واقع ہوئی ، آئے روز دہشتگردی کے واقعات سے تھکی ماندی پاکستانی قوم کو کافی حد تک سکھ کا سانس لینے کا موقع ملا،کھوئے ہوئے جذبے اور امنگیں لوٹ آئیں اور ہر محب وطن پاکستانی راحیل شریف کو اپنا ہیرو اور نجات دہندہ قرار دینے لگا ۔

جنرل راحیل شریف کے حق میں پاکستانی قوم کے موقف کی بازگشت دنیا بھر میں پھیل گئی اورانکی قیادت میں جاری پاک افواج کے ضرب عضب آپریشن کی کامیابیوں کا اعتراف عالمی سطح پر کیا جانے لگا۔ اگر پاک افواج کے سپہ سالاروں کی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ راحیل شریف کو قومی و بین الاقوامی سطح پر جو عزت، وقار، اور پزیرائی حاصل ہوئی وہ کسی اور کے حصہ میں نہیں آئی۔

مشہور کہاوت ہے کہ بلند مقام حاصل کرنے سے زیادہ مشکل اسے قائم رکھناہے جبکہ قدرت کے اصولوں کے مطابق، مقام و مرتبہ کے ساتھ آزمائش و امتحان اور اختیار کے ساتھ ذمہ داری میں اضافہ ہو جاتا ہے ۔چنانچہ راحیل شریف کی ریٹائرمنٹ کے بعد جب یہ خبر منظر عام پر آئی کہ انہیں سعودی عرب کی جانب سے قائم کردہ اسلامی ممالک کے اتحادکی مشترکہ فوج کی کمان سنبھالنے کی پیشکش کی جا رہی ہے اور انہوں نے یہ پیشکش قبول کر لی ہے تو ہر صاحب نظر پاکستانی کے لیے یہ بات بعید از قیاس تھی کہ راحیل شریف جیسا زیرک او ر فہیم انسان ماضی کے تلخ ترین اسباق کو نظر اندازکرتے ہوئے کسطرح کسی ایسے اتحاد کا حصہ بننا قبول کر سکتا ہے جس پر اسلامی کے بجائے مسلکی چھاپ نمایاں ہو، جسے بعض اسلامی ممالک دہشتگردی کے بجائے اپنے خلاف اتحاد گردانتے ہوں، جس اتحاد کو مسلمانوں کا شیرازہ بکھیرنے اور بلا تفریق عرب و عجم، مسلم ممالک کی اینٹ سے اینٹ بجانے والے امریکہ اور اسکے بغل بچے اسرائیل کی پزیرائی و حمایت حاصل ہو ۔جبکہ جنرل (ر) راحیل شریف کی جانب سے ان خبروں کی واضح انداز میں تائید یا تردید بھی نہ کی جاسکی اور اسکے نتیجہ میں ایک کے بعد دوسری افواہ جنم لینے لگی، راحیل شریف جو ایک قومی ہیرو تھے، کے بارے مختلف آرا ء و نظریات کا اظہار ہونے لگا۔ کل کے ہیرو کو زیرو قرار دیا جانے لگا، کہیں دولت کی لالچ کے طعنے دیئے جانے لگے، اور کبھی پاکستان کی بہادر افواج کی تضحیک کرنے کی کوشش کی گئی۔ گو مگوں کی اس کیفیت کا سب سے زیادہ فائدہ ان قوتوں نے اٹھایا جنہیں یا توقوم و ملک کے حق میں انسداد دہشتگردی کیلئے راحیل شریف کی خدمات سے کسی قسم کی کوئی تکلیف پنہچی تھی یا پھرراحیل شریف کو حاصل ہونے والی غیر معمولی شہرت سے پریشانی لاحق تھی ، لہٰذا انہوں نے بھی بہتی گنگا میں خوب ہاتھ دھوئے یہانتک کہ اس خبر کی تردید کر دی گئی، اور ایسی کسی بھی پیشکش کی قبولیت کو چند شرائط سے مشروط قرار دیکر معاملے کو ٹھنڈا کر دیا گیا۔

کچھ عرصہ ذرائع ابلاغ اور سوشل میڈیا کی نظروں سے اوجھل رہنے کے بعد اب یہ خبر پھر گرم ہے کہ راحیل شریف نے سعودی عرب کی قیادت میں قائم کردہ ۳۹ملکی اتحاد ی افواج کی سربراہی قبول کر لی ہے اور اس سلسلے میں حکومت کی جانب سے این او سی جاری ہونے کے بعد پاکستان سے ریٹائرڈ فوجیوں کی مدد سے اتحادی افواج کے لیے مضبوط عسکری قوت تیار کی جائیگی۔ اسی کے ساتھ پاکستان کے فوجی دستوں کی یمن کے ساتھ موجود سعودی سرحدی علاقے میں تعیناتی کی خبریں بھی عام ہونے لگیں ہیں جس سے پاکستان کو بیرونی سیاسی تنازعات میں فریق بناکر ماضی کی طرح مسائل سے دوچار کرنے اور دوسروں کی جنگیں اپنی سرزمین پر گھسیٹ لانے کے خدشات ابھر رہے ہیں جو ملک و ملت کے لیے کسی صورت فائد ہ مند نظر نہیں آتا ۔یہ بات ذہن نشین رکھنی چاہیئے کہ جسطرح وطن عزیز پاکستان اپنی مخصوص نظریاتی اساس کے باعث دنیا بھر میں ممتا ز مقام کا حامل ہے اسی طرح اسکی افواج کی عزت و حرمت اور اعلیٰ مقام بھی عالمی سطح پر تسلیم شدہ ہے جو دھرتی کے فرزندان کی بیشمار قربانیوں کے نتیجے میں حاصل ہوا ہے۔

پاک فوج کی قوت کا سرچشمہ وطن عزیز اوراسکی بنیاد میں موجود نظریہ اسلامی سے محبت اورجارحیت کے خلاف ڈٹ جانے کا وہ لازوال جذبہ ہے جسکے پیش نظر اس نے ہر قسم کی جارحیت کے مقابل عظیم کامیابیاں حاصل کیں۔ ہر محب وطن پاکستانی چاہے فوجی ہو یا عام شہری، دراصل نظریہ پاکستان کے اس فلسفے کا امین ہے جو مسلمانوں کو ایک قوم گردانتا ہے ، انکے دکھ کو اپنا دکھ اور خوشی کو اپنی خوشی تصور کرتا ہے ، ظلم کے خلاف ڈٹ جانے اور مظلوم کی حمایت کرنے کا درس دیتا ہے اور مسلم امہ کی وحدت میں کسی سیاسی و مکتبی تقسیم کا قائل نہیں کیونکہ نظریہ پاکستان کی بنیاد وہ نظریہِ اسلامی ہے جسکی تفصیل و تشریح پیغمبر اسلام رحمت اللعالمین حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خطبہ حجت الوداع کی صورت میں بیان فرما ئی تھی جسمیں عصبیتوں کو رد کرتے ہوئے مسلمانوں کو رشتہ اخوت میں پرویا گیا اور ایک مسلمان پر دوسرے مسلمان کی جان ، مال ، اور عزت کو حرام قرار دیا گیا۔

کسی بھی جنگ میں شامل فوج کا جذبہ اس مقصد سے بالواسطہ طور پرمنسلک ہوتا ہے جسکے لیے وہ جنگ میں حصہ لیتی ہے، جتنا بلند و ارفع مقصد ہو، فوج کا جذبہ بھی اسی قدر بلند ہوتا ہے۔ ا علیٰ ترین اقدار کی حامل اور ظلم کے خلاف مظلوم کی حمایت جیسے عظیم مقاصد کے لیے لڑنے والی پاک افواج یا اسکے کسی جرنیل کو بالواسطہ یا بلاواسطہ ایک ایسی عسکری قوت یا اتحاد جسکے ہاتھ بیگناہ مسلمانوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں، جس پر اپنے ملک میں نظریاتی اختلافات کو بزور شمشیر دبانے ، عوام کے بنیادی حقوق غصب کرنے سے لیکر یمن و بحرین سمیت دیگر مسلم ممالک میں مداخلت کرنے اور ہزاروں بیگناہ افراد کا خون بہا کر جنگی جرائم کے مرتکب ہونے کے الزامات اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے غیر جانبدار عالمی اداروں کی جانب سے ثبوتوں کے ساتھ عائد کیئے گئے ہوں اور جسے عالم اسلام کے مشترکہ دشمن یہود و نصارٰی کی تائید و حمایت حاصل ہو ، کو تقویت پنہچانے کیلئے استعمال کرنا ایک ایساقبیح فعل ہوگاجو ایک جانب تو ظلم و جبر کی کھلی حمایت قرار پائے گا تو دوسری جانب مقاصد کی پستی کے باعث اس سے ہمارے فوجیوں کی کارکردگی اور باہمی جذبہ اتحاد بری طرح متاثر ہوگاجبکہ ایسی کسی شمولیت سے دنیا میں قائم پاک افواج کا مقام اور رعب و دبدبہ کو نقصان پنہچنے کے قوی امکانات ہیں ۔اسکے علاوہ پاک افواج کی اندرون ملک عزت اور عوام کی اپنی افواج سے محبت و عقیدت پر بھی کاری ضرب لگے گی۔

پاکستان کا عالم اسلام کی قیادت اور مسلم ممالک کے مابین اختلافات ختم کروا کے انہیں متحد کرنے جیسے عظیم مقاصد کو چھوڑ کر اپنی افواج و جرنیلوں کے ذریعہ مسلمانوں کی تفریق میں فریق بن جانا ایک ایسی سنگین غلطی ہوگی جس سے وقتی طور پر تو شائد کچھ مالی فوائد حاصل کر لیئے جائیں تاہم اسکا کفارہ وطن عزیز پاکستان میں بسنے والوں کو کئی نسلوں تک اپنے خون سے ادا کرنا پڑے گا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے