وزیراعظم آزادکشمیر کا انوکھا میرٹ

پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کی موجودہ حکومت قائم ہونے سے چھ ماہ قبل ہی میں کشمیر سے ہجرت کر کے لاہور میں مقیم ہو گیا تھا۔ اس سے قبل پیپلز پارٹی کی حکومت کا تقریباً پورا دور وزیر اعظم چوہدری عبدالمجید کے آنسو بہانے سے گزرا۔پیپلز پارٹی اگرچہ روٹی ، کپڑا اور مکان کا نعرہ لے کر حکومت کے ایوانوں تک پہنچی مگر چوہدری عبدالمجید نے مجاور بن کر 5برس مکمل کیے۔

موجودہ وزیر اعظم راجہ فاروق حیدر نے ریاستی وسائل پر ریاستی باشندوں کے حق کا نعرہ لگا کر 2009ءمیں وزیر اعظم بنے اور صرف نو ماہ کی قلیل مدت کے بعد اِن ہاوس تبدیلی کے ذریعے گھر کو سدھار گئے۔ حکومت ختم ہونے کے بعد مسلم لیگ ن کو آزاد کشمیر میں لے کر جانے کا قومی فریضہ سرانجام دیا مگر 2011ء کے انتخابات میں میاں نواز شریف کی تمام کوششوں کے باوجود خاطر خواہ کامیابی حاصل نہ کر سکے کیونکہ اسلام آباد میں پیپلز پارٹی کی حکومت قائم تھی اس لیے حسب روایت آزاد کشمیر میں بھی پیپلز پارٹی نے ہی بر سر اقتدار آنا تھا۔

2016ء میں پاکستان میں مسلم لیگ ن کی حکومت نے آزاد کشمیر میں بھی حکومت قائم کر دی ۔فاروق حیدر ”میرٹ“ کا سیاسی نعرہ لے کر اقتدار میں آئے مگر میرٹ نام کی کوئی چیز دکھائی نہیں دے رہی ۔حکومت قائم ہونے کے چند ماہ بعد ہی دورہ کوٹلی کے دوران سرکاری ہیلی کاپٹر میں وزیر اعظم کے فرزند کی موجودگی کو بچوں کا شوق سمجھ کر نظر انداز کر دیا گیا ۔ ابھی حکومت کو ایک برس پورا نہیں ہوا کہ وزیراعظم کے فرزند عین میرٹ کے مطابق سرکاری وسائل کو اپنے والد کی جاگیر سمجھ کر ہڑپ کرنے میں مصروف ہوگئے ہیں ۔ میرٹ کے دعویدار فاروق حیدر کے دونوں بیٹے اپنے تئیں‌ لگژری سرکاری گاڑیوں پر پورا پورا استحقاق رکھتے ہیں۔

ایک ماہ قبل وزیر اعظم فاروق حیدر کے میرٹ کو آنکھوں سے نہ دیکھتا تو شاید کبھی سنی سنائی باتوں پر یقین نہ آتا۔ جنوری کے اوائل میں ماموں جان کی الم ناک وفات کے بعد نام نہاد آزاد کشمیر حکومت کے آئین وقانون کے تحت ان کے بیٹے نے بطور استحقاق ملازمت کیلئے درخواست دی مگر ایک ماہ تک کوئی واضح جواب نہ ملنے پر صورتحال معلوم کرنے مظفرآباد گیا تو وہاں رت ہی بدلی ہوئی تھی ۔وزیر اعظم سیکرٹریٹ کے مرکزی دروازے پر ہی عجیب وغریب چیزوں کا سامنا ، جب وزیر اعظم سیکرٹریٹ کے اندر داخل ہوا تو ہر کھونے کھدرے سے مخصوص لوگوں سے واسطہ پڑا ، ایسا معلوم ہوا کہ یہ ریاست کے وزیر اعظم کا دفتر نہیں بلکہ کسی خاص برادری کا گیسٹ ہاوس ہے ۔

ماموں کے بیٹے کو تواس کاقانونی حق نہ مل سکا ۔سادہ الفاظ میں میرٹ کی حکومت نے یتیم کا حق بھی کھو کر کھا لیا اور صاحبزادوں کو استحقاق نہ ہونے پر بھی سرکاری ہیلی کاپٹر اور سرکاری پراڈو میسر ہے ۔فاروق حیدر نے ثابت کر دیا کہ اس نے پر کھوں کی روایت کو زندہ سلامت رکھا ہوا ہے۔ ڈوگرہ دور کارٹ روڈ ختم ہونے کے بعد آج تک اس طرح کھو کر کھانے کا موقع میسر نہیں آیاتھ، ا اب جب موقع مل ہی گیا تو اصلیت بھی دکھا ہی دی ۔

مظفر آباد میں چار روزہ قیام کے دوران گاوں کے ایک لکھے پڑھے مسلم لیگی کارکن سے ملاقات ہوئی ، جس کی بھتیجی موجودہ حکومت کے قائم ہونے فوری بعد نوسری کے مقام پر بس حادثے میں جاں بحق ہوگئی تھی۔ نوجوان صبح سویرے میرے پاس آیا اور مجھے اپنے ساتھ ٹرانسپورٹ اتھارٹی کے دفتر لے گیا جہاں حادثہ میں جاں بحق اور زخمی ہونے والوں کے معاوضوں کی فائل گزشتہ چار ماہ سے پڑی گرد آلود ہو چکی تھی ۔ اکاونٹنٹ جنرل آفس( اے جی آفس) کی جانب سے فائل میں حادثے کا شکار گاڑی کے کاغذات شامل نہ ہونے پر تمام معاوضے روک دیے گئے تھے اور فائل ٹرانسپورٹ اتھارٹی کو اعتراض دور کرنے کیلئے واپس بھیجی گئی تھی ۔

دفتر پہنچے تو ایک پرنور نورانی شخصیت ماتھے پر محراب، چہرے پر مسنون داڑھی کے ساتھ بیٹھے ہوئے پائے گئے ۔ مدعا بیان کیا تو آئیں بائیں شائیں اور ساتھ ہی کائیں کائیں کر کے ہمیں ٹال دیا ۔ہمیں یہ کہا گیا کہ آپ گاڑی کے مالک سے کاغذات لے کر آئیں یا انکم ٹیکس دفتر جا کر کاغذات کی فوٹو کاپی لائیں۔ خیر ہم زیادہ الجھنے کی بجائے انکم ٹیکس دفتر چل پڑے وہاں جاکر مدعا بیان کیا تو انہوں نے بجلی نہ ہونے کا بہانہ بنایا۔ایک دو فون کالز کے بعد گاڑی کے مالک کا سراغ لگا لیا اور اسے کال کر کے مدعا بیان کیا تو اس نے فوری جواب دیا کہ گاڑی کے کاغذات ٹرانسپورٹ اتھارٹی کے دفتر کمرہ نمبر 8میں ارشد اعوان نامی ملازم کے پاس ہیں ، ہم دوبارہ ٹرانسپورٹ اتھارٹی کے دفتر پہنچے تو مرغا پھنسنے کی خوشی میں دوچار فائلیں الٹ پلٹ کر کے ایک ملازم کے ساتھ نوجوان کو فوٹو کاپی کرانے بھیج دیا ۔کمرہ نمبر8 میں گاڑی کے کاغذات جبکہ کمرہ نمبر9میں معاوضوں کی فائل پڑی تھی، معاوضوں کی فائل والے نورانی چہر ے والی شخصیت کو جب یہ علم ہوا کہ ہم گاڑی کے کاغذات تک پہنچ چکے ہیں اور حاصل بھی کر لیے ہیں تو وہ دفتر چھوڑ کر فرار ہو گیا اورتین دن تک حرام کے چندٹکوں کی خواہش میں مسلسل چکر لگوانے کے بعدکاغذات وصول کیے گئے ۔

موجودہ حکومت کے برسر اقتدار آنے کے بعد یہ پہلا بڑا حادثہ تھا مگر جاں بحق افراد کے لواحقین اور زخمی آج بھی حرام خوروں کی وجہ سے معاوضہ سے محروم ہیں . آخرمحروم کیوں نہ ہوں فاروق حیدر نے میرٹ جو قائم کر دیا ہے۔ چار روزہ دورہ مظفر آباد کے یہ عام سے دو واقعات تھے اس کے علاوہ میرٹ کا جو حال ان چار دنوں میں دیکھا اور محسوس کیا گیا اسے آئندہ ضبط تحریر میں لایا جائے گا۔ اسلام آباد کی جانب سے فاروق حیدر کو مسلط کرنے کے مقاصد اور ان کی کا بینہ کے معاملات بھی آئندہ تحریر میں زیر بحث لائیں جائیں گے۔ چار روز ہ مشاہدہ کے بعد اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کے پیپلز پارٹی حکومت اگر چوروں کا ٹولہ تھی تو موجودہ فاروق حیدر حکومت ڈاکووں اور نوسر بازوں کا اکٹھ ہے جس میں عام آدمی کو کھو کر کھایا جارہا ہے ۔پیپلز پارٹی میں تمام لوگ حصہ بقدر جثہ تقسیم کرتے تھے مگر موجودہ لوٹ مار کا حق صر ف اس کو حاصل ہے جو اپنے نام کے ساتھ راجہ فاروق حیدر کی برادری کا لاحقہ لگا ہوا ہو.

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے