میڈیا کی کالی چادراورجمیعت

میڈیا کی بات نہ کیجئے ، اس نے عزت اور حیاء کی چادر اوڑھی ہی کب تھی جو اسے اترنے کی فکر رہے … رہا پاکستان ہمارا وطن ، بھلے کوئی مانے نہ مانے یہ ہمارے ان "میڈیائی فنکاروں ” کی ترجیح کب رہا ہے ؟ – آج آپ نوٹ دکھائیں اور ان سے ان کی زبان خرید لیں ، قلم سے تو اس طبقے کا تعلق پہلے ہی دور کا ہے ، علم سے واسطہ ہی کوئی نہیں …

اس طبقے کا معیار صحافت دو چیزوں کے گرد گھومتا ہے …
ایک یہ کہ آپ جھوٹ کیسا اچھا بول سکتے ہیں
دوسرا آپ اونچا اور گلہ فار کے کتنا بول سکتے ہیں ؟؟

یہی حال زنانہ اینکرز کا ہے … وہاں گلا پھاڑنے کا عمل ذرا "دوہرا” ہو جاتا ہے ، اور ظاہری صورت بھی اضافی "صلاحیت ” ہوتی ہے … اگر آپ کو اچھی اردو نہیں آتی تو کیا ہوا ..اگر آپ کو تاریخ کا ، سیاسیات کا ، جغرافیے کا رتی بھر بھی علم نہ ہو کاہے کی فکر سب چل جائے گا ، بس صورت اچھی ہونی چاہیے –
میڈیا کا یہ ہلکا پن اگلے روز پنجاب یونی ورسٹی میں ہونے والے ہنگامے میں کھل کے سامنے آیا …

وہ بچہ "عمیر” جس کے بازو ٹوٹ گئے اور سر پر گہری چوٹ آئی ، اسلامی جمعیت طلبہ کا تھا ، دل خراش ویڈیو ، بچیاں پس منظر میں چیخ رہی تھیں کہ نہ مارو مر جائے گا … نہ مارو …لیکن انسان ایسا ہی وحشی ہوتا ہے …سو انہوں نے مارا اور خوب مارا ..

اس واقعے میں میڈیا کی رپورٹنگ جانبدارانہ نہیں بلکہ "مجرمانہ ” رہی –
کیا ہمارے میڈیا نے فیصلہ کر لیا ہے کہ محض اپنی بریکنگ نیوز ، ریٹنگ اور مذھب دشمنی میں ہر وہ کام کر گزرنا ہے کہ جس سے چاہے پاکستان کی بنیادیں بھی کھوکھلی ہو جائیں ؟ ملک برباد ہو جائے ؟ –

یہ سوال کیوں نہیں اٹھا کہ ایک لسانی تنظیم کو رقص و سرود پر مبنی بے حیائی کا پروگرام کرنے کی اجازت کیوں دی گئی ؟
سوال کیوں نہیں اٹھتا کہ تعلیمی ادارے کسی فلمی سٹوڈیو کا منظر پیش کیا کریں گے ؟
وائس چانسلر کی اس غیر ذمے داری اور مجرمانہ غلفت پر ان سے باز پرس کون کرے گا ؟ –

ہم مانتے ہیں کہ جمیعت کو اپنی حدود سے تجاوز نہیں کرنا چاہیے تھا ، اگر کوئی موسیقی اور فحاشی کا پروگرام ہونے جا رہا تھا تو اسے وقت سے پہلے انتظامیہ سے بات کرنا چاہیے تھی ، ورنہ عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانا چاہیے تھا ، ایک سٹے آرڈر اس پروگرام کو بند کروا سکتا تھا –

اس واقعے کے بعد میڈیا کا جو سیاہ چہرہ سامنے آیا گو وہ کوئی نئی بات نہیں ، لیکن سوال تو مکرر اٹھے گا کہ جانب دارانہ رپورٹنگ کی کیا حد ہوتی ہے ؟
جمیعت کی خواتین کے کیمپ پر حملہ ہوا لیکن اس کا ذکر تک نہیں کیا گیا ، لیکن جمعیت چونکہ مولویوں کا سمبل ہے مذھب کا کنایہ ہے سو اہل مذھب کی کردار کشی کے وسطے دو روز خوب دھول اڑائ گئی
، کیا ہمارے میڈیا اپنا ضمیر ، دماغ ، دل اور اخلاقی قدریں اور اپنے پیشہ ورانہ امور سب چند روپوں کے عوض بیچ چکا –

کیا محض دل کو یہ تسلی ہے کہ جو مرضی دکھا لو ، جو جی چاہے چھپا لو ، جس کی چاہے عزت اچھال دو ، جس کو چاہو مظلوم اور ظالم کر دکھاو ..بزنس تو چل رہا ہے نا … جناب "برقی صحافیان ” بات تو سچ ہے مگر "بزنس ” تو پھر طوائف کا بھی چل رہا ہے اور کبھی آپ سے فزوں تر –

اصل میں الیکٹرانک میڈیا کے مالکان ایک آدھ کو چھوڑ کر غیر صحافی ہیں .. غیر نظریاتی تو وہ پہلے سے ہیں …ان کا نظریہ مکمل کاروبار ہے ، سو خوب روپیہ بنا رہے ہیں ..لیکن معاملہ روپیہ بنانے کا نہیں ، پہلے سے بنا ہوا "کالا روپیہ ” بچانے کا ہے آپ دیکھیں گے کہ بہت سے گروپ ایسے ہیں جن کے مالکان صحافی نہیں – اصل میں وہ دوسرے کاروباروں سے بے تحاشا مال بنا چکے تھے ..اب اس کو محفوظ کرنے کا مرحلہ درپیش تھا ..سو اس سے اچھی کیا صورت ہو سکتی تھی …

رہے پرانے اور باضابطہ ورکر صحافی ..وہ بھی تو اسی معاشرے کا حصہ تھے ..کچھ پیٹ کے ہاتھوں مارے گئے ، کچھ "تاریک راہوں ” میں مارے گئے ..
اوپر سے مصیبت ہے کہ ولایتی شراب مہنگی بھی بہت ہو چکی ہے … کہاں تک صحافت کے "درد ” کو سینے سے لگاتے ..سو ان میں سے بہت سے ضمیر کے مینار پاکستان پر چڑھے پھر کود کے خود کشی کر لی اور اب بڑے بڑے نام سچی مچی قلم نہیں دم سے لکھتے ہیں ..آپ کیا سمجھتے ہیں دم صرف ہلانے کے کام آتی ہے نہیں بھائی کبھی کبھی لکھنے کے بھی کام آتی ہے …

بچ رہے جو ضمیر کے ہاتھوں مجبور ہیں – ان کا یہ حال ہے کہ بے بس کونوں میں گھسے دل جلاتے ہیں ..ہمارے ایک دوست ہیں شائد تیس برس سے ایک بڑے گروپ میں ہیں…بے تحاشا امیر مالکان ان کو ذاتی طور جانتے ہیں کہ تین عشرے سے ہمارے ادارے میں ہیں ..ایک بڑے اخبار کے ایک شعبے کے انچارج …دیانت داری شعار کی ، سو چند ہزار روپے پر کام کر رہے ہیں ..مزاج کے درویش ہیں ، معاملہ چل رہا ہے …

دوسری طرف یہ جو چیختی چلاتی بیبیاں آپ کو نظر آتی ہیں نا ان کی تنخواہ بسا اوقات کئی کئی لاکھ کو چھو جاتی ہے ..اور اوپر کی آمدنی مستزاد کہ کسی کی مرضی سے بولو ، کسی کا پول کھولو اس کے پیسے الگ …

اور دل چسپ بات یہ ہے کہ آپ کسی سے پوچھ لیجئے ، جی ہاں کسی بھی عام آدمی سے اس شعبے کے بارے میں رائے لیجئے ، جو زبان بولے گا آپ بھی شرما جائیں گے ..کیا یہ میڈیا والے نہیں جانتے کہ لوگ ان سے کتنی نفرت کرتے ہیں ، ان کو مکمل جھوٹا جانتے ہیں ، ان کی بات پر اعتبار نہیں کرتے ، اگر عزت بھی کرتے ہیں تو اس لیے کہ ان کے شر سے بچ سکیں .. یقینا یہ سب جانتے ہیں ، ان کو سب معلوم ہے لیکن روپے نے ان کی عزت نفس اس حد چھین لی ہے کہ گالی کھا کے بھی طمانیت محسوس کرتے ہیں …

ایک طوائف اپنے گھر کے صدر دوازے کی سیڑھیوں پر بیٹھی پان کھا رہی تھی ، پیک پھینکی تو ایک نوجوان کے سفید کپڑوں پر جا گری ، اس نے غضب ناک ہو کے گالی جو بکی تو طوائف مسکرا اٹھی ، کہنہ برس ، عمر گزار چکی ، جوانی کب کی خواب ہوئی اور راتیں بے مہر ہوئیں …. انگڑائی لے کر بولی :
"جوانی یاد کروا دی ، تمہاری گالی نے ”

سو دوستو ! جو گالی کھا کے مسکرا دیں ان کا کیا علاج ؟

پنجاب یونی ورسٹی کے معاملے میں ہم جماعت اسلامی کے کارپردازان سے بھی کچھ گزارشات کریں گے …حضور زمانہ بہت بدل گیا ، پانی بہت آگے نکل گیا ، دریا کب کے خشک ہو چلے اب خاک اڑے گی آپ کے سر پر بھی پڑے گی … آپ بھی اپنے اداؤں پر غور کریں …ہر دوسرا بندہ جو آپ کی تنظیم کا حصہ نہیں آپ سے شکوہ کناں ہے ..آپ کے ورکرز کے معاملات ایسے شفاف نہیں کہ اجلی چادر کہیں …جب آپ رشد ہدایت کی ، دین کی ، اصلاح کی بات کرتے ہیں تو اپنے معاملات کو ،کردار کو اتنا ہی اجلا کرنا ہو گا …

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے