با مقصد زندگی

اگر انسان یہ سمجھتا ہو کہ اس کا وجود میں آنا ایک حادثہ ہے تو یہ با لکل غلط ہے ۔کیونکہ انسان کا اس عرض پہ تشریف لانا کسی مقصد کے تحت ممکن ہوا ہے ۔ اب انسان رب کے دیے ہوئے ذہن سے سوچ و فکر کر کہ یہ ڈھونڈنے کی کوشش کرے کہ وہ اس دنیا میں کیوں آیا؟ تو اسے اس دنیا میں آنے کا مقصد معلوم پڑ جاتا ہے ۔اسے اسی سوچ و فکر سے علم ہوتا ہے کہ اس کو پیدا کرنے والی ایک ذات ہے جو کل کائنات کی مالک ہے ،جس نے یہ زمیں بنائی اور اس آسماں بغیر ستونوں کے کھڑا کیا اور اسے یہ بھی علم ہوتا ہے کہ اس با برکت ذات نے اسے ایک مقصد کے تحت اس دنیا پر بھیجا ہے ۔ انسان کا اس دنیا پر آنے کا مقصد کوئی ڈھکا چھپا نہیں کسی سے بلکہ اس ذات نے عیاں کیا ہے ، اپنے انبیا اکرام اور رسولوں کے ذریعے اور ان پر اترنے والے صحیفوں اور کتابوں کے ذریعے ۔اس ذات نے صاف صاف دو راستے بتا دیے ہیں اور ان راستوں پہ چلنے کی جزا و سزا کا بھی علم دیا ہے اور یہ بھی کہ انسان کو اس کی مرضی پہ چھوڑ دیا گیا ہے اگر وہ صحیح راستے پہ چلتا ہے تو اسکے لیے اس دنیا میں بھی اجر ہے اور یوم آخرت کے دن بھی بہت نعمتوں اور نوازشوں سے نوازا جائے گا ۔

قرآن کریم میں رب تعالی ارشاد فرماتا ہے
” بیشک ہم نے جن و انس کے اپنی عبادت کے لیے پیدا فرمایا ہے ”

اب اس آیت سے صاف واضح ہو گیا کہ انسان کو کس مقصد کے لیے پیدا کیا گیا ہے ۔اگر انسان سمجھتا ہے کہ وہ اس دنیا میں بے مقصد آیا ہے تو اس کے لیے سزا رب نے مقرر کر دی ہوئی ہے ۔ اس کے لیے جہنم کے بھڑکتے آگ کے شعلے انتظار میں ہیں ۔ یہاں اس مراد یہ نہیں کہ انسان دنیا کہ ہر کام چھوڑ کہ عبادت کرنا شروع کر دے کیونکہ رب تعالی نے قرآن کریم میں یہ ارشاد فرمایا ہے ، نہیں اس نے رب کی عبادت کرنی ہے اس دنیا میں رہ کر اس دنیا کے طور طریقوں میں رہ کر ہی ۔ اسے یہ ہر گز نہیں بتایا گیا کہ وہ دنیا سے قطعی تعلق کر دے ، یا عبادت کا یہ مطلب ہے کہ وہ دنیا سے الگ ہو کر ایک بیاباں جنگل میں جا کر عبادت شروع کر دے ۔ اشفاق احمد کے الفاظ ہیں "میں جانتا ہوں کہ میں کچھ تو ہوں ، کیونکہ میرا راب کوئی بھی چیز بےکا ر نہیں بناتا”۔

انسان کو جب مقصد زندگی پتا چل گیا تو وہ ہر ممکن طریقے ،عمل سے اس مقصد کو پورا کرنے کی کوشش کرے ،کیونکہ اسی مقصد کے حصول کے لیے کی گئی جدو جہد انسان کو دونوجہاں میں دنیا وی اور اخروی میدانوں میں کامیاب کرتی ہے ۔

یہ بالکل اسی طرح ہے جیسے ایک انسان سفر کے لیے کہیں نکلا ہے گھر سے اور اسے یہ علم نہیں اس نے جانا کدھر ہے؟ اسکی منزل کیا ہے؟ اب وہ جائے گا تو جائے گا کدھر ؟ اسے کوئی پرواہ نہیں ہو گی اگر وہ راستے میں ہی بیٹھا اپنا وقت ضائع کرتا رہے ایسے ہی جب انسان کو یہ معلوم ہو گا کہ اس کی منزل فلاں جگہ پہ ہے اور اس نے اس وقت وہاں پہنچے گا ۔۔تو وہ نہ کہیں رکے گا اور نا ہی اپنا وقت ضائع کرے گا ۔

اگر اس زندگی جو کہ تھوڑی سی ہے ،اسکو ہم نے سہی معنوں میں جینا ہے تو ہمیں زندگی کی کہ ہر وقت میں اپنے ٹارگٹ اور گولز رکھنے ہیں ، ایک تو اصل مقصد یہ کہ رب کی منشا کے مطابق اس کے طور طریقوں پہ چلنا اور اسی راضی کرنے کے لیے جدوجہد کرنا ایک طرف یہ مقصد رکھنا ہے اور دوسری طرف زندگی کہ ہر معاملات میں چھوٹے چھوٹے ٹاسک اور گولز رکھنے ہیں ، یوں جب ہمیں وہ گولز اور ٹاسکس نظر آئیں گے تو ہم نہ چاہتے ہوئے بھی اس کے حصول کے لیے جدوجہد کریں گے ۔۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے