اُن کا میڈیا اور ہمارا میڈیا

22مارچ کو لندن کے ویسٹ منسٹر کے علاقے میں دہشت گردی کا ایک واقعہ ہوا ، ایک شخص نے پارلیمنٹ کے سامنے فٹ پاتھ پر گاڑی چڑھا دی اورپولیس کے ایک سپاہی پر چاقو سے حملہ کیا،پھر پولیس کے جوابی وار میں اُس حملہ آور کو بھی ہلاک کردیاگیا ۔اس سانحے میں مجموعی طور پر چار ہلاکتیںہوئیں اور تقریباً چالیس افراد زخمی ہوئے۔ یہ مقام برطانیۂ عُظمیٰ کے لیے اتنا اہم ہے کہ اُن کے نظام کو ”ویسٹ منسٹر ڈیموکریسی‘‘سے تعبیر کیا جاتا ہے ، جو آگے چل کر پارلیمانی جمہوریت کی بنیاد بنا اوراِسی بنا پر برطانیہ کی پارلیمنٹ کو ”مَدر پارلیمنٹ‘‘ یعنی اُمُّ البرلیمان کہاجاتا ہے ،کیونکہ اُس کے بعد سابق سلطنتِ برطانیہ (British Empire)کی آزاد کردہ نو آبادیات میں بھی برطانوی طرز کی پارلیمانی جمہوریت قائم ہوئی ۔بعد میںاُن کا ایک مشترکہ سیاسی فورم دولتِ مشترکہ (Commonwealth)کے نام سے وجود میں آیا،جو آج تک قائم ہے۔ مدر پارلیمنٹ کی اصطلاح سب سے پہلے جون برائٹ نے 18جنوری1865ء کو برمنگھم میں استعمال کی ۔

یہ مختصر پس منظر ہم نے اس مقام کی تاریخی اہمیت کی طرف متوجہ کرنے کے لیے بیان کیا ہے ۔میں اس واقعے کے بعد بی بی سی اور سی این این کو دیکھتا رہاکہ وہ اس واقعے کی رپورٹنگ کس طرح کرتے ہیں۔بی بی سی اور مغربی میڈیا نے نہایت قرار وسکون کے ساتھ رپورٹنگ کی ،نہ دہشت پھیلائی، نہ تجسُّس کو ابھارا اور نہ ہی سراسیمگی پھیلائی۔نہایت سکون کے ساتھ سکاٹ لینڈ یارڈ کی پولیس نے جائے وقوع کو حفاظتی حصار میں لیا ، موقعے کی شہادتوں(Forensic Evidences)کو جمع کیا ،میتوں اور زخمیوں کو منتقل کیا، پارلیمنٹ میں اجلاس جاری تھا ،اُسے باہر سے بند کیا اور تمام امور اطمینان کے ساتھ انجام پائے۔ میڈیا مختصر سی خبر دیتا رہا اورعالمی سیاست سے لے کر موسمیات تک معمول کی دیگر خبریں بھی چلتی رہیں۔ میڈیا کے افراد نے سیکورٹی اداروں کے ذمے داران کا نہ تعاقب کیا کہ بتائیے یہ شخص کون تھا، کیا تھا، اس کی تفصیلات کیا ہیں؟،وغیرہ۔اس پورے عرصے میں میڈیا کی ہلچل اور ہلّا گلّا کہیں بھی نظر نہیں آیا۔

اگر خدانخواستہ یہ واقعہ یا اس جیسا واقعہ ہمارے ہاں رونما ہوا ہوتا ، تو آنِ واحد میں پچاس کیمرے جائے وقوع پر پہنچ جاتے،اُسے گھیر لیتے ، رواں تبصرے شروع ہوجاتے ،ماہر تجزیہ کار نیند سے اٹھ کربھاگم بھاگ اسٹوڈیوز پہنچتے تاکہ وہ قیاس کے گھوڑے دوڑائیں اور اپنی خداداد ذہانت کو استعمال کرتے ہوئے تجزیے کریں اور اپنی دانش کی سوغات سے قوم کو نہال کریں۔رپورٹرز اور اسٹوڈیوز میں بیٹھے ہوئے نیوز اینکرز کی زبانیں سپر سانک رفتار سے رواں دواں ہوجاتیں ۔کوئی رپورٹر اور کیمرہ مین اپنی توجہ ہلاک شدہ افراد اور زخمیوں پر مرکوزرکھتا ،کوئی سرِ راہے کھڑے لوگوں سے مشاہدات اور تاثرات لے رہا ہوتا ، کوئی ایمبولینس کے پیچھے دوڑ لگا رہا ہوتا کہ لاشوں اور زخمیوں کوکون سے ہاسپیٹل میں لے جایا جارہا ہے ، کوئی وہاںآئی سی یو میں پہنچ چکا ہوتا اور ڈاکٹروں سے معلومات لے رہا ہوتا ۔الغرض ہمارے پچاس چینلوں پر میراتھن ٹیلی کاسٹ یعنی کسی وقفے کے بغیر طویل دورانیے کی نشریات شروع ہوجاتیں اور کمالِ مہارت سے سنسنی خیزی برپا کی جاتی تاکہ ناظرین اسکرین کے ساتھ جڑے رہیں اور کوئی گاہک کسی دوسری دکان پر نہ چلا جائے ۔

میں نے یہ بھی نوٹ کیا کہ سیکورٹی کے اداروں کے کسی ذمہ دار نے کوئی فوری بیان نہیں دیا ، تمام حقائق کا بغور جائزہ لینے کے بعد وزیرِ اعظم ٹِرِسا مے،میئر لندن صادق خان اور ایکٹنگ کمشنر کریگ میکی نے کافی وقفے کے بعد مختصر بیانات دیے ۔جب کہ ہمارے ہاں پولیس انسپکٹر ،ڈی ایس پی ،ایس پی ،ایڈیشنل آئی جی ،آئی جی اور رینجرز کے سیکٹر کمانڈر الغرض جو بھی ہاتھ آتاہر کیمرہ مین اُس سے واقعے کے بارے میں فوری آگہی حاصل کرنے کے لیے بے چین ہوجاتاتاکہ بریکنگ نیوز میں اُس کے چینل کو پہل مل جائے۔ اگرچہ قومی الیکشن سے لے کر آج تک ہر چینل نے دعویٰ کیا ہے کہ پہل کا شرف صرف اور صرف اُسی کو حاصل ہے اور باقی سب دعوے جھوٹے ہیں ۔

سکاٹ لینڈ یارڈ نے فوری طور پر اس واردات کو دہشت گردی قرار نہیں دیا ،بلکہ یہ کہا :”ہم اِسے سرِدست دہشت گردی کا واقعہ سمجھ رہے ہیں ‘‘،نہ ہی پورے برطانیہ میں سراسیمگی پھیلائی اور نہ ہی پکڑ دھکڑ کا ایک لا متناہی سلسلہ شروع کیا ، صرف برمنگھم اورچند مقامات پر نومشتبہ افراد کو حراست میں لیا اور بعد میں انہیں بھی چھوڑ دیا ۔فوری طور پر اس واقعے کے ذمے دار شخص کی شناخت بھی جاری نہیں کی تاکہ مبادا !جذبات میں کوئی منفی عوامی ردِّ عمل پیدا ہو اور انتہا پسند لوگ اُس کا رُخ مذہبی نفرت کی طرف پھیر دیں۔انہوں نے یہ بھی شروع ہی میں بتایا کہ اُس شخص کی شناخت ہم کرچکے ہیں، وہ پیدائشی برطانوی ہے اورKentکے مقام پر پیداہوا۔ لیکن اُس کی سابق قومیت کو ظاہر نہیں کیا تاکہ کسی خاص قوم یا ملک کے خلاف نفرت پیدا نہ ہو ۔پھر 24مارچ کی شام کو بتایا کہ اُس کا پیدائشی نام Adrian Russell Ajaoتھااور اُس کے کئی عُرفی نام (Aliases)بھی تھے اور آخر میں جاکر بتایا کہ اصل قومیت کے اعتبارسے اُس کا تعلق کسی افریقی خطّے سے تھا۔انہوں نے یہ بھی بتایا کہ وہ شخص جرائم پیشہ تھا ،وہ 1983اور2003میںدومرتبہ جیل جاچکا تھا، جرائم بھی بڑی نوعیت کے نہیں تھے ،لیکن پولیس کی نظر میں وہ دہشت گرد کی حیثیت سے مشتبہ نہیں تھا۔اُس کے فوری مارے جانے سے وہاں کی پولیس کو نقصان یہ ہوا کہ اُس کے اِس اِقدامِ جرم کے مُحرِّکات کو جاننا اُن کے لیے تاحال مسئلہ ہے۔

اس کے برعکس اگر ہمارا میڈیا ہوتا تو اُس کی دس پشتوں کا سارا زائچہ نکال کر لے آتا ، ممکنہ طور پر یہ بھی کھوج لگاتا کہ کہیں وہ پاکستان تو نہیں آیا تھایا کسی مسجد میں اُس کا آنا جانا تو نہیں تھا۔آخربھارتی ایجنسیوں سے بھی پہلے اجمل قصّاب کی کھوج لگاکر ہمارے میڈیا نے ہمالیہ سے بھی اونچی چوٹی سَر کرلی تھی ، لیکن تُف ہے سکاٹ لینڈ یارڈ اور برطانیہ کے میڈیا پر کہ وہ ایسا کارنامہ انجام نہ دے سکے۔ انہیں جلد از جلد اپنی نالائقی کا اعتراف کر کے ہمارے الیکٹرانک میڈیا سے تربیت حاصل کرلینی چاہیے، ورنہ وہ اکیسویں صدی کے چیلنجز کا مقابلہ کرنے کے اہل نہیں ہیں۔ میں خود سب سے پہلے نام اور اُس کا قومی پسِ منظر جاننے کے لیے بے چین تھا کہ خدانخواستہ کہیں اُس کا کوئی تعلق پاکستان سے جڑ گیا تو اسلام اور پاکستان دونوں کو مجرموں کے کٹہرے میں کھڑا کردیا جائے گا۔اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ سکاٹ لینڈ یارڈ یا برطانیہ کی سیکورٹی اور انٹیلی جنس کے ادارے موضوعی(Subjective) انداز میں یعنی ہماری پولیس اور ایجنسیوں کی طرح پہلے سے ذہن میں نتائج مرتّب کر کے تحقیقات کا آغازنہیں کرتے، بلکہ خالیُ الذہن ہوکر معروضی (Objective) انداز میں واقعات کا تجزیہ کرتے ہیں ، اس لیے اُن سے بے تدبیری، بے اعتدالی اور غلطی کا صدور نسبتاً کم ہوتا ہے۔

یہ سطورمیں نے اس لیے لکھیں اوریہ مشاہدہ میں نے قدرے تفصیل کے ساتھ اس لیے بیان کیاکہ کاش ہمارا میڈیا اور ہمارے میڈیا کے ریگولیٹر اس سے سبق حاصل کریں اور رپورٹنگ اور تبصروں وتجزیوں کومعقولیت کے دائرے میں لائیں اور سائنٹیفک طریقۂ کار اختیار کریں۔
ہمارے میڈیا کی غیر تعمیری ،غیر مُدبّرانہ بلکہ خطرناک حد تک تباہ کُن رپورٹنگ کا نتیجہ ہے کہ انہوں نے دہشت گردی ، فساد وتخریب اور اذیت وآزار کے واقعات کو مسلسل دکھاکر ان کی سنگینی کو کم کردیا ہے ،بعض طبائع کے لیے انہیں پرکشش بنادیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ گزشتہ ایک عشرے سے اولاد کے ہاتھوں ماں باپ ،ماں باپ کے ہاتھو ں اولاد ،بیوی کے ہاتھوں شوہر اور شوہر کے ہاتھوں بیوی اور نوجوانوں کے ہاتھوں ایک دوسرے کے قتل اورمالکوں کے ہاتھوں کم عمر گھریلوملازم بچوں پر وحشیانہ مظالم کے جتنے واقعات ہم نے دیکھے ہیں، ماضی کے پچاس سالوں کے مجموعی واقعات کا بھی ان سے تقابل نہیں کیا جاسکتا۔ہم نے اذیت وآزار کے مناظر کو ایک جشن بنادیا ہے ، انہیںکاروبار اور لذت اندوزی کے لیے استعمال کرنا شروع کردیا ہے۔یہی وجہ ہے کہ ساٹھ اورستّرکے عشرے میں شہر بھر میں قتل کا ایک واقعہ رونما ہوجاتا ،تو پورا شہر ہل کر رہ جاتا، آج ہمارے معاشرے میں ”مرگِ انبوہ شنے دارد‘‘والی کیفیت ہوتی ہے، مرزا محمد رفیع سودا نے کہا ہے: ؎
دل کے ٹکڑوں کو بغل بیچ لیے پھرتا ہوں
کچھ علاج اس کا بھی، اے چارہ گراں! ہے کہ نہیں

جمہوریت دلفریب اور پرکشش سہی ،لیکن ہر جگہ حتیٰ کہ سپر پاور امریکہ میں بھی اس پر تحدیدوتوازن کا غیر مَرئی (Unseen) نظام موجود ہے ۔موجودہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نئے آدرش اور نئے نعروں کے ساتھ منتخب ہوکر ایوانِ اقتدار میں داخل ہوئے اور یہ تاثر دینا چاہا کہ وہ جو چاہیں گے کرگزریں گے ، عوامی حمایت اُن کی پشت پر ہے اور کوئی اُن کا راستہ روکنے والا نہیں ہے ،لیکن اسٹبلشمنٹ نے انہیں دن میں تارے دکھادیے ہیں ،حتیٰ کہ کانگریس کے دونوں ایوانوں میں ریپبلکن کی واضح اکثریت کے باوجود Obamacare کو بہ یک جنبشِ قلم منسوخ کرنا اُن کے لیے لقمۂ تر ثابت نہیں ہوا ،انہوں نے ایوانِ نمائندگان کو الٹی میٹم بھی دیا ،مگر بے سود ، آخرِ کار انہیں مفاہمت کا راستہ اختیار کرنا پڑے گا۔سو جمہوریت پر اسٹبلشمنٹ کا کنٹرول دنیا کو تسلیم ہے ، آئین وقانون کی تعبیر وتشریح کے لیے اعلیٰ عدالتوں کا فیصلہ کن اختیار بھی تسلیم ہے ۔لیکن خالقِ کائنات کا اقتدارِ اعلیٰ یعنی اس کے قطعی احکام کی بالادستی کو تسلیم کرنا اُن کے لیے جمہوریت کی نفی کے مترادف ہے، فَیَا لَلْعَجَب!

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے