تین ماہ مین تین مایوس کن فلمیں

اس سال ابھی تک تین ماہ میں صرف تین پاکستانی فلمیں ریلیز ہوپائیں ہیں اور کوئی بھی فلم باکس آفس پر کامیاب نہیں ہوسکی۔

پہلی فلم ’تھوڑا جی لے‘ انتہائی کمزور فلم تھی جس میں نہ کوئی کہانی، نہ ہدایتکاری، اور نہ ہی کوئی اداکاری تھی۔ اس ہی وجہ سے فلم بری طرح فلاپ ہوئی اور چند دن سینماؤں میں لگےرہنے کے بعد صرف ساڑھے تین لاکھ کا بزنس کرسکی۔ دوسری فلم ’وسل‘ تھی جو پاکستان یں منشیات کے کاروبا کے خلاف تحریک کے موضوع پر بنی تھی اور صرف دو دن لگے رہنے کے بعد اتار لی گئی۔

تیسری فلم ’بالو ماہی‘ تھی جو ۱۰ فروری کو سینماؤں میں لگی اور ایک ماہ لگے رہنے کے بعد ایک کروڑ کے قریب بزنس کرسکی۔بالو ماہی کے ایک ماہ لگے رہنے کی وجہ اس عرصے میں کسی دوسری پاکستانی فلم کا نہ ریلیز ہونا اور بھارتی فلموں کو بھی سخت سینسر کے بعد لگانے کی اجازت ملنا تھا۔

بالو ماہی کی پروڈیوسر سعدیہ جبار ہیں اور کہانی سعد اظہر نے لکھی ہے۔ فلم کی ہدایت حسام حسین نے دی ہیں جواس سے قبل ٹیلیویژن ڈراموں کی ہدایات دیتے رہے ہیں۔

فلم کے نمایاں ادکاروں میں عثمان خالد بٹ، عینی جعفری، اور صدف کنول شامل ہیں۔ دیگر اداکاروں میں دردانہ بٹ، شفقت چیمہ، اور عدیل ہاشمی جبکہ جاوید شیخ مہمان اداکار کے طور پر شامل ہیں۔

بالو ماہی ایک رومانس کامیڈی ہے۔ فلم میں میں ماہی جہانگیر (عینی جعفری) اپنی شادی کی رات اس لیے گھر سے بھاگ رہی ہے کیونکہ وہ اپنے خواب جینا چاہتی۔ ادھر بلا ل یا بالو (عثمان خالد بٹ) جو اپنی محبت کو پانے کے لیے اس کی شادی والے دن اسے اٹھا کر لےجانے کا منصوبہ بناتا ہے غلطی سے ماہی کی شادی میں گھس جاتا ہے اور ماہی موقع پاکر بالو کے ساتھ ہی بھاگ آتی ہے۔یہ غلط فہمی شروع میں تو دونوں کو ایک دوسرے اکھڑا ہوا رکھتی ہے لیکن دھیرے دھیرے یہ اکھڑ پن اور لڑائی جھگڑا محبت میں تبدیل ہوجاتاہے۔ فلم میں ایک سائڈ ہیروئن کا کردار شرمین مختار (صدف کنول) کا بھی ہے جو بالو سے محبت کرتی ہے لیکن جواب میں بالو کا پیار حاصل نہیں کرپاتی۔

فلم کی کہانی کا پلاٹ مناسب ہے لیکن دیگر پاکستانی فلموں کی طرح سٹوری بورڈ اور سکرین پلے پر کوئی کام نہیں کیا گیا اور کہانی بے ربط او غیر دلچسپ محسوس ہورہی ہے۔ ڈائیلاگ بے جان ہیں خاص طور پر کامیڈی کے ڈائیلاگ چھچورپن کا ثبوت دے رہے ہیں۔ ہدایت کاری بھی کمزور ہے اور سینماٹو گرافی اور کیمرہ ورک میں بہتری کی بہت گنجائش تھی۔ ہدایت کار نے اداکاروں کے تاثرات اور ڈائیلاگ ڈلیوری پر بھی کوئی خاص توجہ نہیں دی اس لیے عینی جفعفری اس بات سے بے خبر ہیں کہ وہ فلم کی سکرین پر آرہی ہیں اور عثمان خالد بٹ انتہائی محتاط ہیں۔ صدف کنول نے ایک بولڈ لڑکی کا گیٹ اپ اچھی طرح اٹھایا ہے لیکن اداکاری کچھ خاص نہیں کرپائیں۔ حالانکہ تینوں اداکار فلم میں انتہائی خوبصورت نظر آرہے ہیں اور ڈراموں اور ماڈلنگ میں بھی اچھا کام کرکے ابپنی ایک جگہ بنا چکے ہیں لیکن کمزور ہدایت کاری کی وجہ سے فلم میں کھل کر کام نہیں کرسکے۔

بالو ماہی کو لاہور کے علاوہ پاکستان کے شمالی علاقہ جات میں بھی ریکارڈکیا گیا ہے۔ فلم کی کلر کریکشن اچھی ہے جبکہ مناظر کو بھی کافی خوبصورتی سے فلمایا گیا ہے۔

فلم کی موسیقی بہتر ہے جس میں استاد راحت فتح علی خان کی آواز میں قوالی ’رنگ دے چنر‘ کافی مقبول ہوا ہے۔ دیگر گانے ساحر علی بگا، عاصم اظہر، آئمہ بیگ اورافشاں فواد کی آوازوں میں ریکارڈ کیے گئے ہیں جبکہ فلم کی موسیقی ساحرعلی بگا نے ترتیب دی ہے۔

فلم کے پرودیوسرز کے مطابق فلم کی تیاری میں کل دس کروڑ روپے کی لاگت آئی ہے۔ جبکہ فلم کے پاکستانی اور بین ا لاقوامی ڈسٹری بیوٹرز ایچ کے سی انٹرٹینمنٹ پاکستان، سائن سٹار پاکستان، گرینڈ شوبز میڈیا انٹرنیشنل اور اے پلس انٹرٹینمنٹ کےمطابق فلم نے دنیا بھرمیں صرف ایک کروڑ کا بزنس کیا۔ کچھ زرائع یہ بزنس ایک کروڑ تیس لاکھ بھی بتارہے ہیں۔

پاکستان فلم انڈسٹری کا المیہ ابھی تک یہ ہی رہا ہے کہ یہاں یا تو ٹی وی ڈراموں کے ہدایتکار ہی فلموں کی ہدایات دے رہے ہیں یا پھر اشتہاری فلموں کے ڈائرکٹر فلموں میں بھی طبع آزمائی کررہے ہیں۔

امید ہے کہ اس سال آنے والی مزید نئی فلمیں پروڈکشن اور ڈائرکشن کے اعتبار سے بہتر ہوں گی اورپاکستانی فلی صنعت کو کوئی مقام دلوانے میں کامیاب ہوں سکیں گی۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے