سماجیات

چند نہیں کافی سال ہو گئے. میں ایک کانفرنس میں شرکت کے لیے نیپال جا رہا تھا اور دلی ایر پورٹ پر چند گھنٹے کا ٹرانزٹ تھا جہاں سے کھٹمنڈو کی فلائٹ لینا تھی.

لاہور سے ایک صاحب میرے ساتھ دلی کی فلائٹ پر آئے تھے. اب وہ پھر میرے ساتھ آ کر بیٹھ گئے. معلوم ہوا وہ کابل سے آ رہے ہیں. ان کا نام غالبا پروفیسر سدرشن تیواڑی تھا اور وہ تری بھون یونیورسٹی میں پڑھاتے تھے. مجھے حیرت ہوءی کی ان صاحب کا کابل میں کیا کام. پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ وہ وہاں کے بچوں پر کام کر رہے ہیں. میں نے پوچھا کیا کام کر رہے ہیں.؟ انہوں نے کہا کہ ان بچوں کو معاشرے کا مفید شہری بنانے ہر کام کر رہے ہیں.

یہ صاحب مجھے کبھی نہیں بھولے. مجھے نہیں معلوم وہ کون تھے اور ان کا ایجنڈا کیا تھا. میں نہیں جانتا کہ کھٹمنڈو کا ایک ہندو پروفیسر کابل کے بچوں کو کیسے سماج کا مفید شہری بنانا چاہتا تھا. اسے کے اہداف کیا تھے اور طریقہ کار کیا تھا، مجھے یہ بھی علم نہیں. لیکن میں یہ جانتا ہوں کہ ایسی کوءی کوشش کم از کم پاکستان میں کسی نے نہیں کی کہ نئی نسل کو سماج کا مفید شہری کیسے بنانا ہے.

اگلے روز جب میں مقامی گائیڈ کے ساتھ بشو پتی ناتھ کا مندر دیکھنے گیا تو مجھے بہت حیرت ہوئی کہ جگہ جگہ بورڈ آ ویراں تھے جن پر بنیادی سماجیات کا درس لکھے تھے. وقت کی پابندی کریں. راستہ صاف رکھیں وغیرہ وغیرہ……. اور یاد رہے کہ یہ میں کسی ترقی یافتہ مغربی ملک کی بات نہیں کر رہا نیپال جیسے ترقی پذیر ملک کی بات کر رہا ہوں.

"سماجیات ” نامی اس کتاب کو دیکھا تو خوشگوار حیرت ہوئی کہ کسی نے تو طلباء کے اخلاقی وجود کو بھی مخاطب بنایا. ورنہ تو کیا سکول کیا مکتب کیا مدرسہ سب کچھ ہے مگر یہ پہلو نظر انداز ہو رہا ہے. کہیں مادیت کا غلبہ ہے تو کہیں شناخت تعصب بن چکی ہے. اس مارا ماری میں تعلیم کاروبار بن گئی یا فکری تعصبات کا فرینچاءز. طالب علم کا اخلاقی وجود نظر انداز ہو گیا. طالب علم سماج میں کیسے بہتر رویے کے ساتھ رہ سکتا ہے اور سماج میں رہنے کے آداب کیا ہیں اسے کسی نے مخاطب نہیں بنایا. نصاب میں ہمیں کوءی یہ نہیں بتاتا کہ آئین کیا ہوتا ہے اور اس عہد اجتماعی کی کتنی اہمیت ہوتی ہے. کوئی نہیں بتاتا کہ اس میں آخر ایسا کیا ہے کہ اس کی خلاف ورزی کی سزا موت ہے.. چنانچہ سماج میں دستور کے بارے میں آج تک حساسیت پیدا نہیں ہو سکی. لوگ آئین توڑنے اور ٹریفک سگنل توڑنے میں کوءی خاص فرق نہیں سمجھتے. اس کا نتیجہ ہمارے سامنے ہے. عصبیتوں کی کیسے نفی ہوتی ہے اور اختلاف رائے کے آداب کیا ہوتے ہیں یہ ہمیں کوئی نہیں بتاتا. ساری مشقت کا خلاصہ یہ ہے کہ بس پڑھنا ہے اورملازمت تلاش کرنی ہے. ہمارے معاشرتی رویے ناتراشیدہ ہیں اور گلی محلے اور سڑک پر ہم اس کے مظاہر دیکھتے رہتے ہیں. نصاب مرتب کرنے والی خلائی مخلوق نے سماجیات پر کبھی کام ہی نہیں کیا.

چنانچہ اس پس منظر میں ” سماجیات” نامی یہ کتاب دیکھی تو جوشی ہوئی. کتاب ادارہ برائے علم و تحقیق نے شایع کی ہے اور ایک نصابی کتاب کے طور پر اسے متعارف کرایا ہے جو کالج اور مدرسہ میں بیک وقت پڑھائی جا سکے. خوش آئند بات ہے کہ معروف ماہر تعلیم جناب شاہد گیلانی نے فوری طور پر اسے اپنے گروپ آف کالجز کے نصاب کا حصہ بنا دیا ہے. میری رائے میں اہل اقتدار کے پاس وقت ہو تو انہیں اس کتاب کا مطالعہ ضرور کرنا چاہیے اور پھر سوچنا چاہیے کہ کیا سماجیات بطور ایک موضوع ہماری ترجیح کبھی بن پائے گا.

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے