طالبان کے خلاف عام معافی کیوں؟

میرا عقیدہ ہے کہ ریاست کے خلاف بندوق اٹھانے سے بڑھ کر سنگین جرم کوئی نہیں۔ مجھے احساس ہے کہ جن لوگوں کے جگرگوشے، بھائی یا شوہر عسکریت پسندوں کے ہاتھوں اللہ کو پیارے ہوگئے، ان کے دلوں کودکھ اور انتقام کی آگ نے بے چین کررکھا ہے ۔ مجھے بخوبی علم ہے کہ اے این پی جیسی جماعتیں جن کے سینکڑوں رہنما اور کارکن ان لوگوں کے ہاتھوں مارے گئے، اس تجویز پر بجا طور پر سیخ پا ہوں گی ۔ مجھے اندازہ ہے کہ اس تجویز کے بعد ملک کے سیکولر اور بائیں بازو کے حلقوں کی جانب سے مجھ پر خوب لعن طعن ہوگی اور مجھے ان کے ہمدرد ہونے کے طعنے ملیں گے ۔ میں جانتا ہوں کہ ریاست کے بعض اداروں کو بھی یہ تجویز بہت ناگوار گزرے گی اور ایک بڑا طبقہ اس تجویز کو بے وقت کی راگنی قرار دے گا لیکن چونکہ میں ریاست کو ماں کی مانند سمجھتا ہوں ۔

چونکہ میرا یقین ہے کہ صرف طاقت سے عسکریت پسندی کے مسئلے کو حل نہیں کیا جاسکتا ۔ چونکہ میں جانتا ہوں کہ ریاست کے خلاف بندوق اٹھانے والوں اور اپنے جسموں سے بم باندھ کر خود اپنے آپ کو اور معصوم پاکستانیوں کو اڑانے والوں کی ایک بڑی تعداد مخلص لوگوں پر مشتمل ہے اور چونکہ میں جانتا ہوں کہ عسکریت پسندوں کی ایک بڑی تعداد ٹریپ ہوکر ریاست پاکستان کے خلاف اس ناپاک اور ناپسندیدہ جنگ میں مبتلا ہے ، اس لئے میں زہر کا یہ گھونٹ پی کر اس موقع پر یہ گزارش کررہا ہوں کہ حکومت پاکستان عسکریت پسندوں کے لئے عام معافی کا اعلان کردے ۔ معافی کا یہ اعلان ہمہ گیر ہونا چاہئے ۔ اس معاملے میں فوج اور سول اداروں کو مشاورت کرکے پہلے مکمل ہم آہنگی لانی چاہئے ۔ اس اعلان سے قبل پورا ہوم ورک ہونا چاہئے ۔ یہ اعلان کسی چال کے تحت نہیں بلکہ پورے خلوص کے ساتھ ہونا چاہئے ۔جو لوگ تائب ہوکر ریاست سے بغلگیر ہونا چاہیں ، انہیں معاف کرکے گلے سے لگا دینا چاہئے۔ اس اعلان سے قبل عسکری اداروں کے ساتھ ساتھ اپوزیشن کی سیاسی قیادت کوبھی اعتماد میں لینا چاہئے تاکہ منصوبے پر بغیر کسی رکاوٹ کے عمل ہوسکے ۔ یہ اعلان اس طرح قومی اتفاق رائے کے ساتھ ہونا چاہئے کہ عسکریت پسندوں کو یہ اعتماد ہو کہ اگر وہ سرنڈر ہوتے ہیں تو کوئی ادارہ ان کے ساتھ دھوکہ نہیں کرے گا اور انہیں آزادانہ طور پر جینے دیا جائے گا ۔ تاہم اس اعلان کے ساتھ قول اور عمل دونوں سے یہ واضح کردینا چاہئے کہ جو لوگ اس موقع سے فائدہ نہیں اٹھائیں گے تو ان سے آہنی ہاتھوں کے ساتھ نمٹا جائے گا اور پھر کسی صورت ان کو یہ موقع نہیں دیا جائے گا۔

معترضین اعتراض اٹھائیں گے کہ مذاکرات اور معافیاں وغیرہ تو پہلے بھی ہوئیں لیکن ان کا کوئی مثبت نتیجہ نہیں نکلا تو جواباً عرض ہے کہ ماضی میں ہونے والے مذاکرات اور معافیوں کے عمل میں ایک بنیادی سقم تھا۔ نہ کبھی ’’کُل‘‘ کے ساتھ مذاکرات ہوئے اور نہ کبھی ’’کُل‘‘ کے ساتھ جنگ ہوئی۔ ہمیشہ ایسا ہوتا رہا کہ ایک علاقے میں ان لوگوں کے ساتھ جنگ ہورہی ہے اور دوسرے علاقے میں انہیں ہار پہنائے جارہے ہیں ۔ اسی طرح جب بھی معافی کی پیشکش ہوئی تو تو وہ برتر پوزیشن (From the position of strength) سے نہیں ہوئی بلکہ ہمیشہ ایسی پیشکش اس وقت دی گئی جب ریاست دفاعی پوزیشن میں تھی ۔ یہ پہلا موقع ہے کہ جب ریاست جنگ میں دفاعی پوزیشن میں نہیں ہے بلکہ اس کا پلڑا بھاری ہوگیا ہے ۔ اب اگر ریاست معافی کی پیشکش کرے گی تو برترپوزیشن سے کرے گی اور یوں مجھے یقین ہے کہ اس پیشکش سے فائدہ اٹھانے والے بھی بہت ہوں گے ۔ تاہم جو لوگ اس پیشکش سے فائدہ اٹھائیں گے ، ان کو دوبارہ پاکستانی معاشرے کا حصہ بنانے (Main streaming) کے لئے ایک جامع منصوبہ عمل بھی بننا چاہئے ۔

میرے نزدیک یہی مناسب موقع ہے – موقع نہیں بلکہ ضروری بھی ہے کہ اچھے عسکریت پسندوں یا گڈ(Good) طالبان سے متعلق بھی ریاست پاکستان ایک ہمہ گیر اور جامع پالیسی کا اعلان کرلے ۔ جماعت الدعوۃ، انصارالامۃ، جماعت اہلسنت اور تحریک جعفریہ جیسی تنظیموں پر واضح کردیا جائے کہ وہ دیانتداری کے ساتھ ہر طرح کی عسکریت پسندی اور فرقہ واریت چھوڑدیں اور ایسا کرنے کی صورت میں ان کو قومی دھارے میں شمولیت کے بھرپور مواقع دئیے جائیں ۔ ان تنظیموں کے ماضی سے درگزر کیا جائے لیکن بدلے میں ان سے یہ گارنٹی لی جائے کہ مستقبل میں وہ کسی بھی قسم کی عسکریت پسندی یا فرقہ واریت میں کسی بھی نام سے `کسی بھی شکل میں ملوث نہیں ہوں گے ۔ ان پر یہ بھی واضح کردیا جائے کہ ریاست کی اس پیشکش سے جو لوگ فائدہ نہیں اٹھائیں گے یا پھر فائدہ اٹھانے کے بعد وعدہ خلافی کریں گے تو ان سے آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے گا۔

آخری گزارش اور تجویز کالعدم تحریک نفاذ شریعت محمدی کے امیرمولانا صوفی محمد سے متعلق ہے ۔ قارئین جانتے ہیں کہ میں کبھی ان کی سوچ اور لائحہ عمل سے متفق نہیں رہا۔ مجھے ان کے اخلاص پر رشک لیکن ان کی اپروچ پر ترس آتا ہے ۔ ان کے اقدامات سے ان کے چاہنے والوں کو ہی نہیں بلکہ علاقے کے لوگوں کو بھی نقصانات اور تباہیوں کا سامنا کرنا پڑا ۔ ان کی تحریک کو ماضی میں مختلف قوتوں نے اور پھر القاعدہ یا ٹی ٹی پی نے اپنے مقاصد کے لئے استعمال کیا لیکن اب وہ عمر کے اس حصے میںہیں کہ دوبارہ ماضی کی طرح کا کوئی کام نہیں کرسکتے ۔ان کی تحریک تتر بتر ہوگئی ہے جبکہ بچے جن کا ان کی تحریک سے کوئی تعلق ہے اور نہ اس مخصوص سوچ سے اتفاق ، بھی در بدر ہوگئے ہیں ۔ مولانا فضل اللہ ان کے داماد ضرور ہیں لیکن میں نے ان کے نام وہ خطوط اپنی آنکھوں سے دیکھے ہیں جن میں مولانا صوفی محمد نے ریاست کے خلاف ان کی جنگ کو غیرشرعی قرار دے کر ان سے توبہ کرنے کا کہا ہے ۔ مولانا صاحب گزشتہ کئی سالوں سے پشاور جیل میں قید ہیں ۔ ابھی تک کسی بھی مقدمے میں حکومت ان کو سزا نہیں دلواسکی ۔ دوسری طرف وہ شدید علیل بلکہ موت و حیات کی کشمکش میں مبتلا ہیں ۔ شدید علالت کی وجہ سے انہیں ایک ہفتہ قبل جیل سے نکال کراسپتال منتقل کردیا گیا ہے ۔ اگر خدانخواستہ جیل سے ان کی لاش نکلی تو اس کولال مسجد کے مولانا غازی کی لاش کی طرح عسکریت پسند ریاست پاکستان کے خلاف اپنے بیانیے کی تقویت کے لئے ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کریں گے لیکن اگر ریاست اس وقت بڑے دل کا مظاہرہ کرکے ان کو رہا کرتی ہے تو یہ اقدام الٹا عسکریت پسندوںکے منہ پر طمانچہ ثابت ہوسکتا ہے ۔ پھر ریاست پاکستان کے اس بڑے پن کے جواب میں اگر مولانا صوفی محمد عسکریت پسندی کے خلاف کوئی بیان یا فتویٰ دے دیتے ہیں تو الٹا یہ عسکریت پسند بیانیے کے جواب میں ایک بڑی دلیل ثابت ہوگی۔ اس تناظر میں میری اپیل ہے کہ مولانا صوفی محمد کو ان کی ضعیفی اور بیماری کے تناظر میں معاف کرکے رہا کیا جائے اور یہ کام جتنا جلدی ہوسکے اتنا بہتر ہوگاکیونکہ میری معلومات کے مطابق ان کی صحت بہت خراب ہے۔

اپنی تو گزارش ہے کہ عام معافی اور مین اسٹریمنگ (Main streaming) کا یہ سلسلہ اسلامی عسکریت پسندوں کے ساتھ ساتھ ایم کیوایم اور بلوچ عسکریت پسندوں تک بھی دراز ہونا چاہئے۔ مکرر عرض ہے کہ ان لوگوں کے جرائم بڑے سنگین ہیں اور ان کو پاکستان دشمن ممالک کی ایجنسیوں نے بھی اپنے مقاصد کے لئے استعمال کیا ہے اور کررہے ہیں لیکن ہم اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کرسکتے کہ اس طرح کی تنظیمیں ریاست کی غلطیوں سے سامنے آئی ہیں ۔ کبھی ریاست خود ایم کیوایم کو توانا کرتی رہی تو کبھی بلوچستان میں انہیں مہروں کے طور پر استعمال کرتی رہی ۔ ایم کیو ایم اور بلوچ عسکریت پسندوں کے برعکس اسلامی عسکریت پسندوں کا معاملہ تو یکسر یوں مختلف ہے کہ انہیں اس راستے پر ریاست ہی نے گامزن کرایا تھا اور آج بھی انہی کی طرح کے وہ لوگ جو سرحد کے اس پار یہی کام کرتے ہیں ، بسا اوقات ہماری ہمدردیوں کے مستحق قرار پاتے ہیں ۔ جن جرنیلوں اور مذہبی لیڈروں نے ان لوگوں کو ہتھیار تھما دئیے وہ تو قومی ہیرو قرار پائے لیکن جن لوگوں نے ان کی ترغیب پر ہتھیار اٹھالئے اور قربانیاں دیں ، ان کے لئے معافی کی کوئی گنجائش بھی نہیں چھوڑی جارہی ۔ بندوق تھمانے والوں کے بچے تواس دولت سے عیاشیاں کرتے پھررہے ہیں جو اس جہاد کی آڑ میں جمع کی گئی لیکن جن لوگوں نے اپنی زندگیاں دائو پر لگا کر ان کی ترغیب پر بندوق اٹھائی ، آج ان کے بچوں کو بھی جینے کا حق نہیں دیا جارہا ۔ یقینا مذہبی عسکریت پسند آج جو کچھ کررہے ہیں ، اس سے ملک اور اسلام دونوں کو نقصان پہنچ رہا ہے لیکن ابتدا میں انہوں نے یہ راستہ اسلام اور پاکستان کی خدمت کے جذبے کے تحت اپنایا اور آج بھی بہت سارے ہیں ایسے ہیں کہ جو یا تو ٹریپ ہوگئے ہیں، یا پھر انتقام کے جذبے کے تحت ایسا کررہے ہیں۔ کم از کم ان لوگوں کو تو موقع ملنا چاہئے کہ جو مجبور ہوکر ریاست سے لڑرہے ہیں یا پھرجنہیں چونکہ جینے کا کوئی راستہ نظر نہیں آتا، اس لئے وہ مرنے اور مارنے پر تلے ہوئے ہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے