جمعیت کا صد سالہ، ایک غلطی کا ازالہ

اپریل کی 7 ، 8، 9 تاریخ کو پشاور میں جمعیۃ علماء اسلام پاکستان کے زیر اہتمام علماء حق کی خدمات کے حوالہ سے صد سالہ عالمی اجتماع کا انعقاد کیا جا رہا ہے جس کے لیے ملک بھر میں تیاریاں جاری ہیں اور جمعیۃ علماء اسلام کی ہر سطح کی قیادت اور کارکن اس کے لیے متحرک نظر آرہے ہیں۔

تیاریوں کے حوالہ سے محسوس ہو رہا ہے کہ یہ بہت بڑا اجتماع ہوگا جو ملک کی دینی جدوجہد اور قومی سیاست میں ایک نئی ہلچل اور تبدیلی کا ذریعہ بن سکتا ہے۔ ’’صد سالہ‘‘ کے لفظ کے بارے میں بعض دوستوں کو الجھن ہو رہی ہے جس کے باعث جمعیۃ علماء ہند اور جمعیۃ علماء اسلام کی تاریخ اور ان کے باہمی تعلق کی بحث چل پڑی ہے مگر ہمارے خیال میں یہ ’’صد سالہ‘‘ کسی جماعت کے نظم کے حوالہ سے نہیں بلکہ برصغیر کے علماء حق کی جدوجہد کے عمومی رخ میں ایک بڑی تبدیلی کے تناظر میں ہے کہ اب سے ایک صدی قبل شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن دیوبندیؒ نے مالٹا کی اسارت سے واپسی پر آزادیٔ وطن اور نفاذِ شریعت کی تحریکات کا رخ مسلح جدوجہد سے پر امن اور عدم تشدد پر مبنی سیاسی محنت کی طرف موڑ دیا تھا۔

اس سے قبل آزادیٔ وطن اور نفاذ شریعت کی تحریکات کا دور مسلح جدوجہد کا دور تھا جس میں نواب سراج الدولہ شہیدؒ، ٹیپو سلطان شہیدؒ، شہدائے بالا کوٹؒ، معرکۂ شاملی، 1857ء کا جہاد آزادی ، حاجی شریعت اللہؒ، تیتومیرؒ، پیر آف پگاراؒ، سردار احمد خان کھرل شہیدؒ، حاجی صاحب ترنگ زئیؒ، فقیر ایپیؒ اور دیگر مجاہدین کے بیسیوں معرکے ہماری تاریخ کا حصہ ہیں ، اور اس کی آخری کڑی خود شیخ الہندؒ کی تحریک ریشمی رومال ہے۔ مگر مالٹا کی اسارت کے بعد حضرت شیخ الہندؒ کی قیادت میں جمہور علماء ہند نے پر امن سیاسی تحریک اور عدم تشدد پر مبنی جدوجہد کے نئے دور کا آغاز کر دیا تھا۔ یہ تبدیلی پہلے طریق کار کی نفی اور تغلیط نہیں تھی بلکہ نئے حالات اور تقاضوں کی روشنی میں جدوجہد کے متبادل طریق کار کو اختیار کرنا تھا جس پر جنوبی ایشیاء کے جمہور علماء ابھی تک قائم ہیں اور اب بھی وہ کسی قومی اور دینی جدوجہد کے لیے پر امن اور عدم تشدد کے راستے کو ہی درست سمجھتے ہیں۔

اس بڑی تبدیلی کو ایک صدی گزر گئی ہے اور غالباً یہ صد سالہ کانفرنس اسی سلسلہ میں اب تک کی صورتحال کا جائزہ لے کر آئندہ کے لیے رخ متعین کرنے کی غرض سے منعقد کی جا رہی ہے۔ چنانچہ ہمارے خیال میں اس ’’صد سالہ‘‘ کو کسی جماعتی نظم کے دائرہ میں نہیں بلکہ پورے جنوبی ایشیا میں علماء حق کی عمومی جدوجہد کے طریق کار میں بنیادی تبدیلی کے تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے اور اس کے لیے موجودہ حالات میں پشاور ہی سب سے زیادہ موزوں مقام ہو سکتا ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے