انوکھا نظام انصاف اوربوڑھا قیدی پروفیسر

پاکستان میں انصاف کی فراہمی میں یکسانیت بہت کم ہی دیکھنے کو ملتی ہے ۔ چاہیے انصاف کی فراہمی اعلیٰ عدالتوں سے مشروط ہو یا پھر کسی تحقیقاتی ادارے سے ہمیشہ جانبداری پر مبنی فیصلہ سازی کی جاتی رہی ہے ۔ غریب اور مظلوم کے لیے قانون الگ ہے جبکہ امیر خاندان اشرافیہ کے لیے الگ قانون ہے ۔ پاکستان میں کسی کو انصاف نہیں ملتا۔ انصاف کی شکل اس حد تک مسخ کر دی گئی ہے کہ عام انسانوں کے لئے یہ تمیز کرنا مشکل ہو گیا ہے کہ کسی شخص کے ساتھ انصاف ہوا ہے یا نا انصافی. بااثر افراد اور اعلیٰ شخصیات ہر طرح کے جرائم کرکے بھی انصاف کے آہنی پنجے کی دسترس سے دور رہتے ہیں ۔ ناانصافی کا یہ عالم ہے کہ بڑے بڑے مجرم جرم کرکے علی الاعلان بڑے بڑے عہدوں پر فائز ہو جاتے ہیں اور کوئی اْن سے تعرض نہیں کرتا۔ مگر غریب کا بچہ اگر کسی کی دوکان سے ایک ٹافی تک چُرا لے تو کڑی سے کڑی سزا تجویز کی جاتی ہے ۔ طاقتور ترین طبقہ کا احتساب عوام کے کیے محض خواب بن کر رہ گیا ہے ۔ جہاں اربوں روپے کی کرپشن کرنے والے عناصر کو عدالتوں سے ضمانت تو مل جاتی ہیں ، مگر ناکردہ جرم کی سزا بھگتنے والے سیاسی قیدیوں کو ضمانت تک نہیں دی جاتی ۔ یوں لگتا ہے کہ پاکستان میں سب سے بے بس، کمزور، لاچار اور بے اختیار عدالتی نظام ہے۔

حال ہی میں پیپلزپارٹی کے رہنما ڈاکٹر عاصم کو 472 ارب روپے کی کرپشن کے دو مقدمات میں 19 ماہ بعد ضمانت مل جاتی ہے ۔ ڈاکٹر عاصم کو جب گرفتار کیا گیا تو ان پر دہشتگردوں کے علاج سمیت اربوں روپے کی کرپشن کے الزامات لگائے گئے ۔ عدالت ہمیشہ انکی ضمانت کی درخواست مسترد کرتی رہی مگر ناجانے انیس ماہ بعد اچانک ایسا کیا ہوا جو عدالت کو رحم آگیا اور انہیں ضمانت مل گئی ۔ اسی طرح پیپلزپارٹی کے ایک اور صوبائی اسمبلی کے میمبر اور سابق وزیر شرجیل میمن صاحب پر نیب میں پانچ ارب روپے کرپشن کا ریفرنس دائر ہے ۔ عدالت نے انکے وارنٹ گرفتاری ایشو کیے ہوئے تھے ۔ مگر ایک دن رات کی تاریکی میں اسلام آباد کے ائیرپورٹ پر اسلام ہائی کورٹ سے ضمانت کی دستاویز لے کر نمودار ہوئے اور پھر شاید ہی کوئی عدالت رہ گئی ہو جہاں سے وہ ضمانت نہ لے سکے ہوں ۔

پے در پے ضمانتوں کا یہ جو سلسلہ پاکستان میں چل نکلا ہے اس سے عوام میں شدید قسم کی تشویش پائی جارہی ہے ۔ ملک کے نظام پر سوالات اٹھائے جارہے ہیں ، عدالتوں سے عوام کا اعتماد دن بدن اٹھتا جارہا ہے ۔ حالیہ کرپشن کے کیسز میں اعلیٰ شخصیات کی ضمانتیں ڈیل کا حصہ قرار دی جارہی ہیں ۔ جبکہ دوسری جانب ایک سیاسی جماعت سے وابستگی کی بنیاد پر ضعیف العمر جامعہ کراچی کے پروفیسر حسن ظفر عارف کو سرکاری عقوبت خانے میں قید کیا ہوا ہے ۔ اشتعال انگیز تقاریر اور سہولت کاری کے مقدمے میں یہ ضعیف پروفیسر بھی اپنی ضمانت کا منتظر ہے ۔ مگر شاید ایک مڈل کلاس گھرانے کا چشم و چراغ ہونے کے باعث یہ شخص عدالت عظمیٰ کی نظروں سے اوجھل ہے ۔ استحصالی نظام کے خلاف نوجوانوں کے ذہن کی آبیاری کرنے والا یہ انقلانی شخص کئی ماہ سے پابند سلاسل ہے ، اس پر قائم مقدمات سیاسی نوعیت کے مقدمات ہیں ۔ لیکن اسکے باوجود اپنے ناکردہ جرائم کی سزا کاٹ رہا ہے ۔

اس ملک میں اربوں روپے کی کرپشن کرنے والے ضمانتیں کراکر آزادی سے نقل و حرکت کرہے ہیں ۔ مگر طالبعلموں کی نظریاتی تربیت کرنے والا ، آمریت کے خلاف لڑنے والا جامعہ کراچی کا پروفیسر سیاسی مقدمات میں قید ہے ۔ کیا یہ ہے انصاف کی فراہمی کا معیار ؟ پرویز مشرف سے لے کر ماڈل گرل ایان علی ، ڈاکٹر عاصم اور شرجیل میمن تک یہ چند مثالیں ہیں ۔ جو جرم کے مرتکب قرار دیے جانے کے باوجود کوئی دبئی کے کلب میں رقص کررہا ہے تو کوئی رینجرز کے پروٹوکول کے ساتھ اپنے حلقے میں جلسے کررہا ہے ، تو کوئی جیٹ بلیک وی آئی پی شخصیات سے ملاقات کرہا ہے ۔ مگر اگر قید ہے تو ایک روشن دماغ ، وسعت قلب ، فکری اثاثے سے مالا مال ایک ضعیف العمر پروفیسر جس نے اپنی ساری زندگی استحصالی نظام میں جکڑے ہوئے لوگوں کی آزادی اور انکی ذہنی و فکری تربیت میں گذاردی۔ وہ شخص آج پابند سلاسل ہے ۔

ضمانت کرانا ہر ملزم کا قانونی و عدالتی حق ہے ۔ مگر جب یہ عمل سست روی کا شکار ہوجائے ، اعلیٰ بااختیار شخصیات اور کمزور مڈل کلاس طبقہ میں فرق رکھ فیصلہ سازی کی جائیگی تو سنجیدہ سوالات اٹھینگے ۔ عدالت کی ملزم سے متعلق ترجیہات بلاامتیاز ہونی چاہیے ۔ لیکن جب ایک پروفیسر کو محض اسکی سیاسی وابستگی کی بنیاد پر قید کیا جائیگا اور اسکی ضمانت سے مسلسل انکار کیا جائیگا تو عوام یہ سوال پوچھنے میں حق بجانب ہے کہ ایک پروفیسرکو ضمانت دینے سے انکار ، لیکن کرپشن کے ملزمان کی یکے بعد دیگرے مقدمات میں ضمانت اور مراعات کیسے ملنی لگی ؟ کیا پروفیسر حسن ظفر عارف، مومن خان مومن کو بھی کسی اعلیٰ شخصیت کا دست راست بننا پڑیگا جو اہل اختیار سے ڈیل کرکے انکی رہائی کو ممکن بناسکے ؟

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے