کیا نورین لغاری داعش میں‌شامل ہو چکی؟

چند روز سے خبریں نشر ہورہی ہیں کہ لمس جامشوروکی سال دوم کی طالبہ نورین لغاری نے پاکستان چھوڑ کر داعش میں شمولیت اختیارکرلی ہے۔ مذکورہ معاملے پر سندھ سمیت پورے ملک میں تشویش پائی جاتی ہے کہ بلآخر ہماری پڑھی لکھی نوجوان نسل کس طرح انتہاپسندی کے نرغے میں آکر دہشتگردی کا ایندھن بن رہی ہے۔

حیدرآباد کے صاحبِ حیثیت گھرانے کی نورین لغاری 10 فروری کو یونیورسٹی کے لئے گھر سے نکلی، اپنی کلاسیں لی اور پھر پراسرار طور پر غائب ہوگئی ! غائب ہوئی بھی تو ایسی کہ تلاش کے باوجود اسکا کوئی پتا نہ چل سکا لیکن سماجی رابطوں کی سائٹ پر کسی انجان آئی ڈی سے لاپتہ بہن کے بھائی کو پیغام موصول ہوتا ہے کہ ’میں خلافت کی سرزمین پر پہنچ چکی ہوں‘۔ اور پھر حیدرآباد پولیس کا اک افسر انکشاف کرتا ہے کہ نورین عالمی دہشتگرد گروپ داعش میں شمولیت اختیار کرچکی ہے!

پولیس نے موقف اختیار کیا کہ انہوں نے ایک ویڈیوحاصل کرلی ہے جس میں دیکھا جا سکتا ہے کہ وہ گمشدگی کے روز اکیلی لاہور جاتی ہے ، بس سروس کے ٹکٹ پرایک مسافرہ کے ٹکٹ پر نورین کا نمبر درج ہے۔

نورین لغاری کے والد اورجامع سندھ کے پروفیسر لغاری نے سماجی رابطوں کی سائیٹ پر موصول پیغام اور پو لیس رپورٹ کوقبول کرنے سے انکار کردیا اور بیٹی کی اغوا کا شک ظاہر کرتے ہوئے پراسرار طور پر گمشدہ بیٹی کی بازیابی کا مطالبہ کردیا۔

کیا نورین لغاری اچانک اتنی نظریاتی ہوگئی تھی کہ اپنا گھر بار چھوڑ کر سرحدیں عبور کرتے ہوئے کسی اور دیس میں جاکر جہاد کے لئے تیار ہوگئی تھی!؟ اس سوال کے جواب میں پولیس کا موقف ہے کہ نہیں طالبہ نورین کے داعش میں شمولیت (؟) سے پہلے سکیورٹی ایجنسیوں کی جانب سے اسکے سوشل میڈیا اکاؤنٹ سے انتہا پسند نظریات کی شیئرنگ کے حوالے سے اس کے گھروالوں کو آگاہ کیا گیا تھا اور انہیں تنبیہہ کی گئی تھی کہ وہ اپنی بیٹی کے انتہا پسند نظریات پر نظر رکھیں۔

نورین لغاری کی گمشدگی سے اب تک کئی سوالات جنم لے رہے ہیں کہ اسے اغوا کیاگیا ہے یا پھر وہ خود اپنا گھر چھوڑ کر جا چکی ہے؟یہ سوالات ابھی اپنی جگہ پر قائم ہیں اور طالبہ کی گمشدگی ابھی تک ایک معمہ بنی ہوئی ہے۔ تاحال ان سوالات پر تو کوئی حتمی رائے نہیں دی جاسکتی مگر اچانک اسکی داعش میں شامل ہونے کی خبر آنے کہ بعد انکے گھر والوں سمیت سندھ بھر میں ایک خوف کا سا ماحول پیدا ہوگیا ہے کہ ہمارے تعلیمی اداروں سے کس طرح نوجوان گم ہو کے دہشتگردوں کی زد میں آرہے ہیں۔ انٹیلی جنس ذرائع کے مطابق حالیہ عرصے میں صوبے کہ مختلف علاقوں کے نامور تعلیمی اداروں میں زیر تعلیم لاپتا ہونے والے لگ بھگ ایک درجن لڑکیاں اور لڑکے داعش میں شامل ہو چکے ہیں پر ابھی تک اسے ایک قیاس ہی سمجھا جاسکتا ہے کیوں کہ اس حوالے سے ابھی تک کوئی ٹھوس شواہدسامنے نہیں آئے۔

طالبہ کی پراسرارگمشدگی کا معاملہ سنجیدگی کا طالب ہے،ایک یو نیورسٹی کی طالب علم کا یونیورسٹی کلاسز کے بعد اس طرح گم ہوجانا یا پھر ملک چھوڑ کر دہشتگرد گروپ میں شامل ہوجانادونوں ہی صورتوں میں ملکی اداروں اور ہمارے سماج کے لئے لمحہ فکریہ ہے! اور یہ معاملہ ہمارے لیے کئی سوالات چھوڑ جاتا ہے، کیا اب ہمارے تعلیمی ادارے دہشتگردوں کی نذر ہوگئے ہیں جو ہمارے کل کے لیے ایک بڑے عذاب کاباعث بن سکتا ہے۔

لیاقت یونیوسٹی آف ہیلتھ اینڈ میڈیکل سائنس کے وائس چانسلر ڈاکٹر نوشاد احمد کا کہنا ہے کہ انہوں نے یونیورسٹی کہ اندر کسی دہشتگرد گروپ کی موجودگی کے بارے میں ایک انکوائری کمیشن تشکیل دی ہے پر ادارے کہ اندر ایسے کسی بھی گروپ کی موجودگی کہ شواہد نہیں ملے جس کے کسی انتہاپسند نظریات سے طالبہ نورین متاثر ہوئی ہو۔

طالبہ نورین کے اہل خانہ کے مطابق جب نورین گم ہوئی تب اسکے پاس اتنے پیسے نہیں تھے جس سے وہ لاہور تک بھی جا سکے،اگر طالبہ خود سے لاہور تک بھی نہیں پہنچ سکتی توپھر آخر کس نے اسکی لاہور تک رسائی ممکن بنائی؟ اگر وہ لاہور نہیں پہنچی تو پھر آخر وہ کہاں ہے؟ اگر اسے کسی نے اغوا کیا ہے تو اسکی بازیابی کے لئے کیا اقدامات کئے گئے ہیں؟ اگر طالبہ واقعی داعش میں شامل ہوئی ہے تو اسکی قومی سطح پر کون سی انکوائری تشکیل دی گئی ہے جو اس واقعے کی تفشیش کرے؟

طالبہ نورین نے اگر داعش میں شمولیت کی بھی ہے تواس سلسلے میں سکیورٹی اداروں نے کون سے اقدامات اٹھائے ہیں، یہاں کون سے ایسے لوگ ہیں جو داعش کے سہولتکار ہیں ؟ کیا کوئی جانچ ہوگی؟

نورین لغاری کا اچانک غائب ہوجانا اور ایک ماہ بعد اس کا خلافت کی سرزمین پر پہنچ جانا (؟) ہمارے سکیورٹی اداروں کہ لیے بھی کئی سوالات چھوڑ جاتا ہے، ایک طرف جہاں ہم دہشتگردی کی لعنت سے نمٹنے کے لئے جنگ آمد ہیں تو دوسری جانب ایسے واقعات کا رونما ہونا کسی بڑے خطرے سے کم ہے؟
لمس یونیورسٹی جامشورو کی طالبہ نورین لغاری کو گم ہوئے کم و بیش ۲ ماہ گذر چکے پرتاحال کچھ پتا نہ چل سکا کہ وہ کہاں ہے؟ اس نے اپنی مرضی سے دہشتگرد گروپ میں شمولیت اختیار کرلی ہے یا اسے اغوا کر کے ایسا ڈرامہ رچایا گیا ہے؟

نورین لغاری اس وقت حیدرآباد میں ہے، لاہور یا پھر ملک سے باہر جاچکی ہے اس حوالے سے بھی تاحال کوئی ٹھوس شواہد سامنے نہیں لائے گئے۔ نورین لغاری واقعے کی کثیر الجہتی پڑتال کی جائے اور اس بات کی تہہ تک پہنچا جائے کہ طالبہ کہاں ہے تا کہ اس معاملے کے باعث جنم لینے والے تمام تشویشناک سوالات کے جواب مل سکیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے