مسئلہِ توہین رسالتﷺپر اہل علم کی رائے

1۔ اس جرم کی کوئی سزا ‘حد’ کے طور پہ قرآن و سنت میں ہرگز بیان نہیں کی گئی۔

2۔ صحابہ کرام ، فقہاء اور محدثین کے نقطہ ہائے نظر اور رجحانات کا جائزہ لینے سے نصف النہار کی طرح واضح ہو جاتا ہے کہ ان سب کے نزدیک اس جرم کے مرتکب کے لیے کوئی ‘حد’ شریعت میں مقرر نہیں کی گئی۔حدیث و فقہ کی کتب میں کتاب الحدود کے تحت اس سزا کا سرے سے کوئی ذکر نہیں، سوائے ابوداود کے کہ ابوداود میں حدود کے ذیل میں تعزیری سزائیں بهی بیان ہوئی ہیں۔ فقہ کی کتب میں متعین طور پر حدود کے ذکر کے اہتمام کے باوجود "گستاخی” کے جرم کو حد کی سزا میں بیان نہیں کیا گیا۔

3۔ جلیل القدر علماء میں سے علامہ ابن تیمہ اور ان کے متبعین نے اس جرم کے مرتکب کے لیے ‘قتل’ کی سزا کو ایک شرعی حد کے طور پر بیان کیا ہے۔

4۔ اس جرم کی شریعت میں کوئی ‘حد’ مقرر نہ ہونے کا یہ مطلب ہر گز نہیں کی معاذ اللہ رسول کی اهانت سرے سےکوئ جرم ہی نہیں۔

5۔ ‘شرعی حد’ نہ ہونے کے باوجود ۔جمہور علماء ایسے جرم کے مرتکب کو (اگر وہ کسی رعایت کا مستحق نہ ہو تو) تعزیر کے طور پر قتل کر لینے کی سزا تجویز کرتے ہیں۔

6۔ جمہور احناف کے ہاں تعزیری سزا قتل سے کم دیے جانے کا رجحان پایا جاتا ہے۔

7۔ تعزیر اور حد میں فرق یہ ہو گا کہ ‘حد’ کی صورت میں سزا اللہ کی مقرر کردہ ہوتی ہے جس کو تبدیل کرنے کا اختیار حکومتی نظم کو نہیں، جبکہ تعزیری سزا میں تبدیلی کی گنجائش موجود ہوتی ہے۔

8۔ کوئی مسلمان اہانت رسول کا مرتکب ہو جائے تو وہ مرتد ہو جاتا ہے، ایسی صورت میں اس پر اگرچہ براہ راست اہانت رسول کی سزا جاری نہ بهی ہو ارتداد کی سزا کہ طور پر قتل کی سزا کا مستحق ہو جائے گا، اس تفصیل کے ساته کہ احناف کے ہاں عورت مرتد ہو جائے تو توبہ تک قید رکهی جائے گی اور مرد کو 3 دن کی مہلت دے کر اسے سمجهایا جائے گا اگر توبہ کر لے تو ٹهیک ورنہ قتل کیا جائے گا۔

9۔ علامہ ابن تیمیہ چونکہ بطور حد قتل کے قائل ہیں اس لیئے ان کے نزدیک توبہ قابل قبول نہیں ہو گی۔

10۔ سزا کے نفاذ کا اختیار صرف اور صرف عدلیہ کے پاس ہے، ماورائے عدالت قتل ناجائز عمل ہے۔

11۔ عدلیہ قرار واقعی سزا نہ دینے کی صورت میں رب کے حضور مجرم ہو گی ، عدلیہ کے کسی غلط رویہ پر توجہ دلانا، علمی تنقید کرنا یا پرامن طریقے سے احتجاج بهی کر لینا درست ہے۔

12۔ اہانت رسول کے مرتکب کے حالات وغیرہ کسی رعایت کا تقاضہ کریں تو مصلحت کے پیش نظر قتل سے کم تر سزا بهی تجویز کی جا سکتی ہے۔

13۔ کسی مسلمان کے روبرو کوئی شخص اہانت کی جسارت پہ اتر آئے اور مسلمان خود پہ کنٹرول کهو کر جذبات سے مغلوب ہو کرغیر ارادی طور پر قتل تک کا اقدام کر ڈالے تو ایسا شخص معذور شمار ہو گا جو عنداللہ مجرم نہ ہونے کے باوجود قانونی سزا کا مستحق ہو گا۔ ارادے سے قتل کرنے والا خدا و قانون کا مجرم ہو گا۔

14۔ قانون کے ہوتے ہوئے ماورائے عدالت قتل پر اکسانا بلاشبہ اک ناجائز عمل ہے جس کی شریعت میں ہر گز گنجائش نہیں۔

15۔ مسلمان سے اصلا مطلوب یہی ہے کہ وہ اپنے جذبات کو شریعت کے تابع رکهے نہ کہ جذبات کے تحت جو مرضی اقدام کر ڈالے۔

(مزید تفصیل کے استاذ گرامی مولانا عمار خان ناصر کی کتاب ‘براهین’ کی مراجعت فرمائیں)۔

[pullquote]توہین رسالت پر سزا: اسلاف کی آراء[/pullquote]

تحریر : عامر گردز

[pullquote] زیربحث مسئلہ پر اسلاف کی آراء : [/pullquote]

امام خطابی (متوفی:388 ھ) اپنی کتاب”معالم السنن (شرح سنن أبی داود)”میں فرماتے ہیں :

وحكي عن أبي حنيفة أنه قال : لا يقتل الذمي بشتم النبي صلى الله عليه وسلم ما هم عليه من الشرك أعظم(1)۔
” إمام أبوحنیفہ سے مروی ہے کہ اُنہوں نے فرمایا : غیر مسلم شہری کو شتمِ رسول کے جرم میں قتل نہیں کیا جائے گا۔ (کیونکہ) جس شرک پر وہ پہلے سے قائم ہے،وہ بذات خود اِس سے کہیں زیادہ بڑا جرم ہے”۔

2۔ علامہ قاضی عیاض مالکی (متوفی:544 ھ) اپنی کتاب”الشفا بتعريف حقوق المصطفٰی”میں لکھتے ہیں:

فأما الذمي إذا صرح بسبه أو عرض أو استخف بقدره أو وصفه بغير الوجه الذى كفر به فلا خلاف عندنا في قتله إن لم يسلم ، لأنا لم نعطه الذمة أو العهد على هذا ، وهو قول عامة العلماء إلا أبا حنيفة والثوري وأتباعهما من أهل الكوفة فإنهم قالوا : لا يقتل ، لأن ما هو عليه من الشرك أعظم ولكن يؤدب ويعزر(2)۔

” کوئی غیر مسلم شہری اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر علانیہ سب و شتم کرتا،اُن کی شان میں گستاخی کرتا،اُن کی تحقیر کرتا اور کسی ایسے (نازیبا) وصف سے اُن کو موصوف کرتا ہے کہ جو اُس کے کفر کا سبب نہیں ہے تو اُس صورت میں اگر وہ اسلام قبول نہیں کرلیتا تو ایسے شخص کے قتل کیے جانے کے باب میں ہمارے ہاں (مالکیہ میں) کوئی اختلاف نہیں ہے۔ کیونکہ اِس طرح کے جرم کے ارتکاب پر ہم نے اُسے کوئی عہد وامان نہیں دے رکھا ہے۔ عام طور پر اہل علم کی یہی رائے ہے،تاہم إمام أبو حنیفہ،إمام ثوری اور اہل کوفہ میں سے اُن کے شاگردوں کا قول یہ ہے کہ ایسے ذمی کو قتل نہیں کیا جائے گا۔ کیونکہ وہ جس شرک پر پہلے سے قائم ہے ، وہ اِس سے کہیں زیادہ بڑا جرم ہے (لیکن اِس کے باوجود ہم اُسے قتل نہیں کرتے)۔ تاہم اُس کی تادیب ضرور کی جائے گی اور (قتل کے سوا) تعزیراً اُسے کوئی سزا دی جائے گی”۔

3۔ إمام قرطبی (متوفی:671 ھ) اپنی تفسیر”الجامع لأحکام القرآن”میں سورۂ توبہ کی آیت نمبر۸کی تفسیر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

أكثر العلماء على أن من سب النبي صلى الله عليه وسلم من أهل الذمة أو عرّض أو استخف بقدره أو وصفه بغير الوجه الذي كفر به فإنه يقتل؛ فإنّا لم نعطه الذمة أو العهد على هذا۔ إلا أبا حنيفة والثوري وأتباعهما من أهل الكوفة فإنهم قالوا : لا يقتل ، ما هو عليه من الشرك أعظم ، ولكن يؤدب ويعزر(3)۔

”اکثر علما کی رائے یہ ہے کہ ذمیوں میں سے جس شخص نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر علانیہ سب وشتم کیا،اُن کی شان میں گستاخی کی،اُن کی تحقیر کی اور کسی ایسے (نازیبا) وصف سے اُن کو موصوف کیا جو اُس کے کفر کا سبب نہیں ہے تو اُس صورت میں اُسے قتل کردیا جائے گا۔ کیونکہ اِس طرح کے جرم کے ارتکاب پر ہم نے اُسے کوئی عہد وامان نہیں دے رکھا ہے۔ تاہم إمام أبو حنیفہ، إمام ثوری اور اہل کوفہ میں سے اُن کے شاگردوں کی رائے یہ ہے کہ ایسے ذمی کو قتل نہیں کیا جائے گا۔ کیونکہ وہ جس شرک پر پہلے سے قائم ہے وہ اِس سے کہیں زیادہ بڑا جرم ہے (اِس کے باوجود ہم اُسے قتل نہیں کرتے)۔ لیکن اتنی بات ضرور ہے کہ اُس کی تادیب کی جائے گی اور (قتل کے سوا) تعزیراً اُسے کوئی سزا دی جائے گی”۔

4۔ إمام نووی (متوفی:676 ھ) اپنی کتاب”المجموع شرح المهذب”میں فرماتے ہیں :

واحتج الطحاوي لأصحابه بحديث أنس الذى فيه أن رسول الله صلى الله عليه وسلم لم يقتل من كانوا يقولون له السَّام عليك ، وأيده بأن هذا الكلام لو صدر من مسلم لكانت ردة ، وأما صدوره من اليهودي فالذي هم عليه من الكفر أشد ، فلذلك لم يقتلهم النبي صلى الله عليه وسلم (4)۔

”اور إمام طحاوی نے اپنے علما کی رائے کے حق میں سیدنا انس رضی اللہ عنہ کی اُس حدیث سے استدلال کیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے (السَّلام علیک کے بجائے بد دعا دینے کی غرض سے) السَّام علیک کہنے والوں کو قتل نہیں فرمایا۔ اپنی رائے کی تائید میں إمام طحاوی نے مزید فرمایا کہ اِس طرح کی بات اگر کوئی مسلمان کرے تو یہ ”ارتداد” ہے۔ جہاں تک یہود سے اِس کے صادر ہونے کا تعلق ہے تو یہ جاننا چاہیے کہ وہ جس کفر پر قائم ہیں وہ اِس سے کہیں زیادہ سنگین جرم ہے۔ چنانچہ اِسی وجہ سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اُنہیں قتل نہیں فرمایا”۔

[pullquote]والدین کو گالی پر گلے پڑنا[/pullquote]

لوگوں نے مسلمان عوام کے جذبات بڑهکائے رکهنے واسطے یہ لوری بهی دے ڈالی کہ

صاحبو!!”جب تمہارے ماں باپ کو گالی پڑے تو تم گلے پڑجاتے ہو ، ایمان کا ناگزیر تقاضہ ہے کہ رسول ﷺ کی توہین پر گلے پڑنے سے آگے کا کچھ ہوجانا چاہیے یعنی کہ یہی کوئی قتل وتل۔

احباب!

آپ جان چکے کہ توہین بدترین جرم ہے مگر اس جرم کی سزا شریعت نے قتل طے نہیں کی گئی۔ اسلاف کے باحوالہ اقوال بهی آپ کے روبرو کر دیے گئے۔عدالت میں پیش کرنے کی بجائے خود قتل کر دینے کو عشق و ایمان کا تقاضہ سمجھنا بدترین جہالت اور فساد ہے جس کی سزا دنیا و آخرت میں سخت ہے۔رہا ہمارے ملک کا قانون کہ اس جرم پر قتل کی سزا ہو سو ہو کہ شریعت میں یہ سزا مقرر نہ ہونے کے باوجود بہرحال ملک کا یہ قانون بن گیا اور اب عملا قانون کی عمل داری کے سوا کچھ ممکن نہیں۔رہی ماں باپ کو گالی دینے پر قیاس کر کے گستاخی پر پهڑک اٹهنے کو ایمانی تقاضہ بتانا سو یہ نرا دهوکہ ہے۔والدین کو گالی پڑنے پر کسی کے گلے پڑجانا ہرگز شریعت کا حکم یا تقاضہ نہیں۔ یہ آپ کا جذباتی اقدام ہے اسے کسی قسم کا کوئی دینی سہارا میسر نہیں۔ ایسے مواقع پر اگر آپ گلے پڑنے کی بجائے حلم و برداشت کا مظاہرہ کر جاتے ہیں تو یہ وہ عمل ہے جو دینی مزاج اور رسول اللہﷺ کے اسوہ کے موافق ہے۔ پہلا رد عمل دین کا پسندیدہ عمل نہیں بلکہ ناپسندیدہ عمل ہے۔اس ناپسندیدہ اور غیر مطلوب رویے کو سامنے رکھ کر گستاخ کے قتل پر استدلال میں جان ڈالنا دهوکہ کے سوا کچھ نہیں۔

دین تو مسلمانوں سے ایسے مواقع پر جذباتی ہو جانے کا مطالبہ کسی جگہ نہیں کرتا۔ وہ مسلمانوں سے بہرحال حلم کا تقاضہ کرتا ہے۔ آپ کے باپ کو گالی تو درکنار اگر کوئی خدا نخواستہ آپ کے والد کو آپ کے سامنے قتل بهی کر دے اور آپ کے ہاتھ میں پستول بهی ہو تو پهر بهی اس بے پناہ جذباتی کیفیت اور بهرپور موقع کے باوجود دین آپ کو قاتل کو خود قتل کرنے پر اکسانا تو کیا ، ایسا کرنا آپ کے لیے حرام قرار دیتا ہے۔ آپ کے سامنے دو راستے ہیں یا معاف کر گزرو یا عدالت کی راہ سے سزا دلواو۔ بالفرض عدالت سزا نہ دے تو بهی خود مارنے کی راہ شریعت نہیں دیتی۔ بلاشبہ دین کا یہ ایک انتہائی مشکل ترین مطالبہ ہے پر ایک سچے مومن سے بعید نہیں کہ اس موقع پر بهی دینی ہدایات کو جذبات میں نہ بہنے دے۔ یہی دین و مصطفی ﷺ سے وفاداری کی معراج ہے۔ ذاتی جذبات کو خوبصورت عنوان و سہارے فراہم کر لینا اور بات ہے مگر دین خدا کو مان کراسی پر چلنے کی ٹهان لینا اور بات ہے۔

یہ شہادت گہِ الفت میں قدم رکھنا ہے
لوگ آسان سمجھتے ہیں مسلمان ہونا

لوگ جذبات کے سیلاب میں دین و شریعت کو بہا دینا ایمان کا تقاضہ سمجهنے لگ جائیں تو سمجھ لینا چاہیے کہ قوم دین کے جوہر سے محرومی کے دن جی رہی ہے۔

[pullquote]حوالہ جات [/pullquote]
________________________________
(1) 296/3 طبعة وتصحيح الشيخ محمد راغب الطباخ فی مطبعتة العلمية۔ حلب،سوريا طبعه اُولٰی۔1351ھ۔
(2) 031،1030/2الشفا بتعريف حقوق المصطفٰی بتحقيق الشيخ علی محمد البجاوی،القاضی عياض،1024/2۔ دار الکتاب العربی،بيروت۔1404ھ۔
(3) 83/8دار الکتب المصرية۔ القاهرة۔ طبعه ثانيه:1384ھ۔
(4) 427/19دار الفکر،بيروت۔ مصدر الکتاب : موقع يعسوب۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

تجزیے و تبصرے