مولانا فضل الرحمان،آفتاب آمددلیل آفتاب

2008کی بات ہے۔ہم خیرالمدارس وفاق کی طرف سے پرچوں کی جانچ پڑتال پرمامورٹیم مبں شامل تھے۔سانحہ لال مسجدوجامعہ حفصہ کے واقعے کوزیادہ وقت نہبں گزراتھا۔زخم ہرے تھے۔علماکی ایک بڑی تعدادایسی تھی جوپرویزمشرف کی طرح وفاق المدارس اورمولانافضل الرحمان کوبھی شریک جرم سمجھتی تھی۔بعض کی زبانوں پراس نوع کے کلمات بھی تھے:مولانافضل الرحمن چاہتے تویہ آپریشن رک سکتاتھا۔وہ میثاق جمہوریت پردستخط کے بہانے لندن اس لیے گئے تاکہ کوئ کرداراداکرنانہ پڑے۔

اس صورت حال کووفاق المدارس کی زیرک قیادت بخوبی سمجھتی تھی چنانچہ مولتنافضل الرحمن صاحب کاعلمامیں خطاب کروایاگیا۔آپ یقین جانیے انھوں نے اس قدرمدلل خطاب کیاکہ مخالفین بھی ان کوداددیتے نظرآئے۔گردصاف ہوگئ۔وفاق کی نمایندگی مولاناقاری محمدحنیف جالندھری صاحب نے کی اورجب پروگرام ختم ہواتوعلمائے کرام کے اذہان وفاق اورمولاناکی طرف سے صاف ہوچکے تھے۔

اللہ تعالی نے مولانافضل الرحمن کوبلاکی حاضرجوابی اورمخاطب کوقائل کرنے کی صلاحیت عطافرمارکھی ہے۔ان کے حوالے سے یہ پروپیگنڈاکرنے والے کہ:مولاناہرحکومت کاحصہ بنتے اورجمہوریت کوبچانے کے نام پراپنے مفادات کاتحفظ کرتے ہیں ذراخودسے یہ سوال کرکے اپنے ضمیرسے اس کاجواب طلب کریں کہ:نوازحکومت ملک کومکمل لبرل وسیکولرخطرط پراستوارکرناچاہتی ہے اس کی راہ میں اصل رکاوٹ کون ہے۔میاں صاحب نے امریکاسے قانون توہین رسالت کے مل خاتمے کاوعدہ کررکھاہے مگرتاحال ناکام ہیں تواس کاسبب کون ہے۔ہرحکومت مدارس ومدارس کادہشت گردی کے نام سے ناطقہ بندکرناچاہتی ہے مگرناکام ہوجاتی ہے تواس کی وجہ کون ہے۔بیوروکریسی ہمیشہ مسلک دیوبندکواولین ہدف قراردیتی ہے میڈیاکابھی یہی مسلک ہدف ہے بائیں بازوکے اہل قلم بھی اسی مسلک کونشانہ بناتے ہیں اس کے باوجوداس مسلک کابال بیکانہیں کرسکاتواس کی راہ میں اصل رکاوٹ کون ہے۔

یقین جانیے پارلیمنٹ میں مولانافضل الرحمن کی شکل میں یہ تواناآوازنہ ہوتی تومندرجہ بالاتمام مزعوم مقاصدکب کے حاصل کیے جاچکے ہوتے۔

لدگیادورپارلیمنٹ کے باہرسے حکومت پردباؤڈالنے کا۔گزرگیادوراداروں سے تصادم کے ذریعے بات منوانے کا۔گئے وہ زمانے جب آپ کے مظاہرے اوراحتجاج حکومتوں کی پالیسیوں کے رخ متعین کیاکرتے تھے۔جوبات بعض لوگوں کوخرابی بسیارکے بعداب سمجھ میں آرہی ہے اس بات کاادراک مولانافضل الرحمن آج سے پچیس سال پہلے کرچکے تھے۔ان کی پالیسی آج اپنی اہمیت وافادیت کاببانگ ذہل اعلان کررہی ہے۔آخرکوئ توبات ہے جوہردورمیں اکابرعلمائے دیوبندنے مولانافضل الرحمن کواپناترجمان قراردیاہے۔کوئ توبات ہے جوآج جمعیت علمائے ہنداوربرصغیرکے اکابرمولاناکی دعوت پران کے ساتھ کھڑے نظرآتے ہیں۔آخرکوئ توبات ہے جوبرصغیرکے عظیم ولی نے اپنی دستارمولاناکے سرپررکھ دی ہے۔آخرکوئ توبات ہے جواپناپرایاہرمنصف مزاج شخص مولاناکی تعریف میں رطب اللسان ہے۔

یادرکھیے
آفتاب آمددلیل آفتاب
کے مصداق مولانافضل الرحمن کاکردار۔ان کی گفتار۔ان کی سیاست اوران پراہل حل وعقدہی نہیں جیدعلماومشایخ اوراکابرواصاغرکااعتمادخودان کی عظمت کی بین دلیل ہے مولانامحمداحمدلدھیانوی صاحب کاآئین کے دائرے میں رہ کرریاست سے تعاون کافیصلہ قابا ستائش اوردیرآیددرست آیدکامصداق ہے تاہم اگروہ مولانافضل الرحمن کے ذریعے اپنے مطالبات رکھیں توامیدہے ان کے اس تعاون کی قدرکی جائے گی۔اس کاخیرمقدم کیاجائے گااوریہ نتیجہ خیزثابت ہوگاورنہ کرئ بعیدنہیں کہ پارہ چنارجیسے مزیدواقعات کے ذریعے ملک میں شیعہ سنی کوچھری کٹاری کرکے دشمن ان کے تعاون کے ثمرات کوضایع نہ کردے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے