تنوع اور رنگارنگ کیا کائنات کا حسن ہے؟

کائنات  میں موجود تمام مخلوقات میں سے جس  جنس و نوع، صنف و قسم کو غور سے دیکھیں ہمیں ہر چیز منفرد دکھائی دیتی ہے۔ دنیا میں آپ کو کوئی  دو پتھر ایک جیسے نہیں ملیں گے، دو  درخت ایک جیسے نہیں پائیں گے ، دو حیوان بھی ایک جیسے نہیں  دیکھیں گے، دو ستارے ایک جیسے نہیں ملیں گے اور دو مچھلیاں بھی آپ کو ہوبہو نہیں ملیں گی۔ ہر مخلوق جسامت، رنگ، قد، وزن، حجم، کمیت وکیفیت، مزاج و طبیعت، صلاحیت و کمزوری یعنی کسی ایک لحاظ یا متعدد لحاظوں سے ایک دوسرے سے مختلف ضرور ہو گی۔  آپ حیوانات  پر غور کر لیں ہر بھینس، ہر بھیڑ، ہر چڑیا، ہر چرندہ، اور ہر پرندہ اور ہر درندہ  بھی منفرد  نظر آئے گا۔  حتیٰ کہ ایک درخت کی ایک ہی شاخ پر لگنے والے درجنوں اور سینکڑوں پتوں میں سے ہر ایک پتہ دوسرے سے مختلف ہوگا۔ یوں  اس کائنات میں موجود  ہر پتہ، ہر پھل، ہر پھول، ہر ذرہ، ہر خلیہ، ہر قطرہ،  ہر دانہ،  ہر رنگ اور ہر بو تنوع کی مثال ہے۔ اللہ تعالیٰ کے اسمائے حسنیٰ میں سے ایک  اسم مبارک البدیع ہے، جس کا معنیٰ Innovator یعنی ہر چیز منفرد اور نئی پیدا فرمانے والا ہے۔ دنیا میں موجود اللہ تعالیٰ کی پیدا کردہ ہر چیز منفرد ہے اور کوئی ایک چیز بھی کسی دوسری چیز کی نقل یا فوٹو کاپی نہیں ہے۔ جمادات، نباتات، حیوانات، فلکیات،ارضیات اور آبیات  غرضیکہ جس  قسم کی بھی مخلوق ہے وہ اپنی خلقت میں منفرد اور متنوع ہے۔

کائنات کی سب سے اہم مخلوق جسے اشرف المخلوقات قرار دیا گیا ہے وہ انسان ہے۔  ہر انسان کی خلقت  میں رنگ، شکل، جسامت، قد و قامت، میں تنوع  نظر آتا ہے ۔ حتیٰ کہ انسان کے جسم کے اعضا  بھی دوسرے انسان کے وہی اعضا سے مختلف ہیں۔ چنانچہ یہی وجہ ہے کہ شناختی کارڈ، پاسپورٹ بنوانے اور ووٹ ڈالنے اور کسی بھی قسم کی الیکٹرانک تصدیق کے لیے عام طور پر  ہر انسان کی قانونی  شناخت کے طور پر  اس کے ہاتھ کے انگوٹھوں کے نشانات استعمال کیے جاتے ہیں جس کی بنیادی وجہ  یہ ہے کہ اربوں انسانوں میں سے ہر انسان کے یہ نشانات ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہے۔ آج کل ایئرپورٹس اور اہم دفاتر و تنصیبات وغیرہ میں  آنکھوں کی پتلیوں کے ذریعے یہ شناخت کی جاتی ہے کیونکہ ہر انسان کی آنکھوں کی پتلیاں ایک دوسرے سے مختلف ہے۔ ڈی این اے کاٹیسٹ سمیت متعدد اقسام کے ٹیسٹ کے ذریعے انسان کی شناخت کا کام آسان ہو گیا ہے۔  یہ انفرادیت صرف انگوٹھوں کے نشانات اور آنکھوں کی پتلیوں تک محدود نہیں ہے بلکہ ہر انسان کا ہر عضو دوسرے انسانوں کے اعضا سے بظاہر  ایک جیسے نظر آنے کے باوجود مختلف ہے۔  اللہ تعالیٰ نے انسان کو جسمانی، جذباتی، ذہنی اور روحانی لحاظ سے بہترین اعتدال، تنوع اور توازن میں پیدا فرمایا ہے۔

بظاہر ہمیں چین کے باشندے ہم شکل،  ملائیشا کے  سارے باشندے   ایک ہی ساخت، اور  افریقہ کے سارے باشندے  ایک ہی  رنگ وشکل کے نظر آتے ہیں لیکن  آپ جانتے ہیں کہ   یہ ہماری نظر کا ہی قصور ہو سکتا ہے۔   آپ کائنات  میں موجود مختلف مخلوقات اور  انسان کی تخلیق پر جتنا غور کرتے جائیں گے ، تنوع  کائنات کی تخلیق کا ایک بنیادی اور  فطری اصول کے طور پر ہمارے سامنے آتا  جائے گا۔  خلقت میں تنوع کے ساتھ ساتھ ہر انسان اپنے میلانات، خیالات، جذبات، شوق، مزاج، صلاحیتوں، رویوں اور رجحانات کی بنا پر دوسرے انسانوں سے مختلف ہے۔ حتی ٰ کہ ایک ہی وقت، ایک ہی مکان ، ایک ہی آب و ہوا اور ایک ہی والدین سے پیدا ہونے والے جڑواں بچے بھی  ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہوتے ہیں۔  اس لحاظ سے ہر انسان اس کائنات میں  اللہ تعالیٰ کی تخلیق کا ایک منفرد شاہکار ہے۔ ہر انسان یہ دعویٰ کر سکتا ہے کہ اس روئے زمین پر وہ اپنی مثال آپ ہے کیونکہ وہ اس زمین پر زندگی بسر کر کے مرنے والے اربوں انسانوں میں سے بھی نہیں تھا، اس وقت موجود اربوں انسانوں میں سے وہ منفرد ہے اور آئندہ پیدا ہونے والے اربوں انسانوں میں  بھی وہ شامل نہیں ہوگا۔ اس کائنات میں اس کا متبادل نہ کوئی آیا ہے، نہ اس وقت ہے اور نہ کوئی آئے گا۔   ہر انسان  اپنے اندر منفرد صلاحیتوں اور میلانات کی  ایک وسیع کائنات سمویا ہوا ہے۔  انسان کی اس  فطری انفرادیت کو پہنچاننا اور اس کو جس مقصد کے لیے پیدا کیا گیا ہے اس مقصد  کے حصول کے لیے تگ و دو کرنا  ہر انسان کی ایک فطری ذمہ داری ہے۔ سماج میں رہنے والے  ہر انسان کی  انفرادیت  کو سامنے لانا اور اس کو بھرپور انداز میں نکھرنے کے مواقع دینا ہر سماج کی ذمہ داری ہے۔ اللہ تعالیٰ کی تخلیق  کا شاہکار نمونہ ہونے کے لحاظ سے  ہرانسان دوسرے  انسانوں کے لیے قابل احترام ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے