آئی آر ڈی کے زیرِ اہتمام دوسرا بین المسالک تفریحی دورہ

پاکستان کے معاشرے میں ہمیشہ اتحاد و یگانگت کی ضرورت محسوس کی جاتی رہی ہے ۔عوام تو اتحاد کے پیاسے اور متلاشی ہیں ہی ، خواص بھی اس کی اہمیت کا گہرا ادراک رکھتے ہیں ۔ پاکستان جسے دنیا بھر کےلئے اسلام کےایک نمونے کے طور پر قائم کیا گیا تھا ، اُس میں پائے جانے والے مختلف مذاہب و مسالک و طبقات کے درمیان ہم آہنگی وقت کا اہم ترین تقاضہ ہے۔بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی بھی اِسی راہ پر گامزن ہے ، اس کے مختلف ادارے اپنی اپنی ذمہ داریاں ادا کر رہے ہیں ، اُنہی اداروں میں سے ایک اقبال بین الاقوامی ادارہ برائے تحقیق و مکالمہ بھی ہے جس نے اپنے قیام کے گزشتہ 9سالوں میں اس سلسلے میں بھر پور کام کیا ہے۔ جیسا کہ نام سے ظاہر ہے کہ یہ ادارہ علامہ اقبال کے پیغام امن و محبت کو عام کرنے کا مشن اپنائے ہوئے ہے اور یہ بات کس سے پوشیدہ نہیں ہے کہ علامہ اقبال مسلمانوں کے اندرونی اختلافات کے شدید مخالف تھے ۔ وہ مسلمانوں کو مسلکی تنگنائیوں سے نکال کے اوج ثریا تک پہنچانے کے علمبردار تھے۔ علامہ اقبالؒ کے انہی افکار کی پیروی میں مختلف مکاتیبِ فکر کے علماء کو ایک ساتھ بٹھانے ، اپنی آراء کے اظہار اور دوسروں کی بات کو سننے کے لئے کئی پروگرام گزشتہ سالوں میں منعقد کئے گئے ۔ عام حالات میں شاید ایک دوسرےکے نظریات سے اختلاف رکھنے والی یہ شخصیات جب ادارے میں آئیں تو اتحاد و اتفاق کی ایک نادر تصویر اُبھر کر سامنے آتی ہے تاہم یہ محسوس کیا گیا کہ علمائے کرام ایک دوسرے سے مل لیتے ہیں لیکن طلبہ میں دوریاں ختم نہیں ہوتیں ۔ تجویز میں کہا گیا کہ مختلف الخیال دینی مدارس کے طلبہ کو بھی قریب آنے کا موقع دیا جائے اور ادارہ ھذا کو یہ ذمہ داری سونپی گئی کہ وہ اس پروگرام کی داغ بیل ڈالے۔ اس تجویز کو سب نے بالا تفاق منظور کیا تھا اور ادارہ نے دینی مدارس کے طلبہ کے لئے تفریحی پروگراموں کے ایک سلسلے کے انعقاد کا فیصلہ کیا۔ادارہ کے اقبال فیلو محمد یونس قاسمی اور راقم کو ان پروگراموں کے انعقاد کی ذمہ داری تفویض کی گئی جمعرات 30 مارچ 2017 ء کو راولپنڈی اسلام آباد کے مختلف مسالک کے 30طلبہ کو پیر سوہاوہ کے قریب واقع ضلع ہری پور کے ایک صحت افزاء مقام کی سیر کرائی گئی ۔ اس دورے کی ایک خاص بات یہ تھی کہ شرکاء کے گروپ اس طرح تشکیل دئے گئے تھے کہ ایک مدرسہ فکر کے شرکاء اپنی ہی سوچ کے طلبہ کے ساتھ نہیں بلکہ دیگر طلبہ و اساتذہ کے ساتھ گفتگو کریں تا کہ اُن میں برس ہا برس سے پائی جانے والی خلیج کو پاٹا جاسکے ۔ شرکاء کے درمیان ادارہ امن و تعلیم سے وابستہ ایک مربی رشید احمد نے کھیلوں کے مختلف مقابلے منعقد کرائے ۔اِن کھیلوں میں شرکت کرتے ہوئے دینی مدارس کے طلبہ اپنی مسلکی وابستگیاں بھول کر اپنے اپنے گروپ کو جتوانے میں لگے رہے ۔اُن کے درمیان رسہ کشی کے مقابلے بھی ہوئے لیکن یہ رسہ کشی مسلکی بنیاد پر نہیں بلکہ کھیل کی بنیاد پر تھی۔ اختتامی تقریب میں یونیورسٹی کے ریکٹر ڈاکٹر معصوم یٰسین زئی ، یونیورسٹی کے صدر ڈاکٹر احمد یوسف الدرویش ، نائب صدر ڈاکٹر محمد بشیر خان اور اقبال بین الاقوامی ادارہ برائے تحقیق و مکالمہ کے سربراہ ڈاکٹر حسن الامین ا ور آسٹریلیا سے آئے ہوئے ایک مہمان ڈاکٹر فہد الدخیل نے خصوصی طور پر شرکت کی ۔

بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد کے ریکٹر پروفیسر معصوم یاسین زئی نے طلباء کے اس گروپ سے خطاب کرتے ہوئے کہا”ڈاکٹر معصوم یٰسین زئی:عزیزو ! آپ نے کل اِس اُمت کی رہنمائی کرنی ہے ۔آپ فقہی اعتبار سے جو بھی رہیں ، ایک کام ضرور کریں کہ اول و آخر انسان اور مسلمان بن کر اللہ کے پیغامِ محبت کو عام کریں ۔مجھ سے لندن میں ایک انگریز پروفیسر نے جب یہ پوچھا کہ آپ سنی ہیں کہ شیعہ تو میں نے اُسے جو جواب دیا وہی ہمارا اجتماعی مشن ہونا چاہیئے۔کیا رسولِ اکرم صلیٰ اللہ علیہ وَاٰلہ وسلم سنی تھے شیعہ ؟یقیناً اُس وقت یہ تفریق نہ تھی ۔اب ضرورت اِس امر کی ہے کہ دنیا کے سامنے اسلام کو ایک تقسیم شدہ نہیں بلکہ متحدہ پیغام کی صورت میں پیش کیا جائے ۔ہمیں مُشترکات پر بات کرنی چاہیئے اور یہ بات ذہن نشین رکھنی چاہیئے کہ مشترکات بہت زیادہ ہیں جبکہ اِ ختلافات بہت کم ہیں ۔ہم سب کا اللہ ایک ، رسول ﷺ ایک ، قرآن ایک اور قبلہ ایک ہے”

آخر میں صدر الجامعہ جناب ڈاکٹر احمد یوسف الدریویش نے اپنے خطاب میں طلباء کو متوجہ کرتے ہوئے کہا کہ "ہمارے فقہاء کرام اور ائمہ حضرات ایک دوسرے سے عقیدت و محبت کا تعلق رکھتے تھے ۔ وہ آج کی طرح ایک دوسرے سے دُور نہ تھے ۔ وہ ایک منزل کے راہی تھے ۔ اپنی منزل تک پہنچنے کے اُن کے راستے جدا جدا مگر منزل ایک تھی اور وہ رب کی رضا کا حصول ۔وہ جدا جدا خیموں میں رہ کر بھی دِلی طور پر ایک تھے ۔ عالمی تقاضے بدل چکے ہیں ۔مسلمانوں کو دہشت گرد بنا کر پیش کیا جا رہا ہے تا کہ اسلام کے احیاء کو روکا جا سکے ۔اِس کے لیے ہمیں فرقوں میں تقسیم کیا گیا ہے ۔اے کاش ہم اِس صورتحال کا اِدراک کر سکیں ۔”

ڈاکٹر محمد بشیر خان ، ڈاکٹر حسن الامین اور ڈاکٹر فہد الدخیل نے بھی اِسی طرح کے جذبات و خیالات کا اظہار کیا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے