جیسا منہ ویسا تھپڑ

فریحہ سید

لیکچرر

۔ ۔ ۔

فریحہ سید

کارواں تو ہے مگر میر کارواں نیہں
قافلہ تو ہے مگر قافلہ سالار کوٰیی نیہں
کاش کوٰی آۓ،سنگ میل بن کر
ان کو منزل کا نشاں دکھاۓ
عصر حاضر ملک پاکستان اپنی تمام تر جلوہ سامانیوں اور شعلہ خصا لیوں سمیت ایک تازیانہ عبرت بنا ہوا ہے ۔ملک پاکستان کا نظارہ ندامت ویاس اس جہان رنگ و بو کے سامنے پیش کرتا ہے ہر طرف آنسو ،دردوآہ چیح وپکار،آلام ومصائب،سسکیاں ،کراہیں لاشوں کے ڈھیر ،آبروریزی ،عصمت دری ،عزتوں کی نیلامی اور قتل و غارت چل رہی ہے- وطن عزیز کو دور خاضر میں جتنی ضرورت میر کارواں کی ہے اب سے پھلے شاید کبھی نہ تھی-

پاکستانی قوم کیہں فرقوں میں بٹی ہوئی  ہے ،کیہں نسلوں میں ،علاقہ پرستی ،خودغرضی اور مطلب فروشی جگہ جگہ ننگا ناچ ،ناچ رہی ہے –اندرونی طور پر ملک میں یکجہتی ناپید ہے تو بیرونی طور پر امریکہ بہادر کی جی خضوری کے باوجود ملک کئی اطراف سے خطروں میں گھرا ہوا ہے ۔

عیش کوشی اور قوم پرستی میں مبتلا یہ حکمراں ہندوستاں کے راجہ و مہاراجوں کی طرح اپنی کرسی اور اقتدار بچانے کی فکر میں غرق ہیں –عوام بھوک پیاس ،افلاس و غربت کی چکی میں پس رہی ہے اور یہ چائنہ روس اور سعودیہ کے دوروں میں مصروف ہیں اورظلم کی انتہا دیکھئے  میڈیا ان کا زرخرید غلام بنا ہوا ہے۔

ایک طرف خبر چل رہی ہے کراچی 1500 سے زائد افراد گرمی کی شدت کی تاب نہ لاتے ہوئے جاں بحق ہو گۓ تو دوسری طرف خبر آتی ہے ایان علی جیل میں بیمار پڑی ہے اب منچلے نوجواں کراچی کی میتوں پر نوحہ کناں ہونے کی بجائے ایان علی کی خبریں چسکے لے کر سن رہا ہے تف ہے ایسی قوم پر اور اس کے حکمرانوں پر-

پر رکیے اور زرا اقرار کجیے کہ ہم ہمیشہ سے ایک جذباتی قوم ثابت ہوئی ہیں اور ہمیشہ اہک ایسے حکمراں کا انتخاب کرتے جس نے ہمیں ذلت و رسوائی ،کرپشن، بھوک و افلاس کے عمیق گڑھوں میں دھکیلنے کے علاوہ کچھ نہیں دیا اور ظلم کے پنجوں میں جکڑے عوام کا ایمان غربت و افلاس کے ہاتھوں سلامت نہیں،
یہاں بجلی ہے نہ گیس ،صحت ہے نہ تندرستی ہر طرف شور ہے اور ہنگامے ۔

جان کی اماں پاؤ تو عرض کروں !
ہسپتالوں میں مسیحا نیہں ڈاکو ہیں ،
ایوانوں میں عوامی نمائندے نیں بھیڑیے بیٹھے ہیں۔
زرا گریباں میں جھانکو اور جواب دو
کیوں ایسے شخص کو حکمراں بناتے ہوں ؟
جو اے سی کے عین نیچے بیٹھ کر گرمی کی شدت سے مر جانے والوں کی ہلاکت پر افسوس کرتا ہے ۔

ارے کیا سادہ معصوم لوگ ہو تم
ضمیر کی آواز کو لبوں تک آنے دو اور مجھے کہنے دو ۔
ایک اایسا شخص جس نے ٹھٹھرتی  راتوں میں فٹ پاتھ پر مرتے جسم نہ دیکھے ہوں۔
خون کی جلتی دوپہروں میں جلتے راستے نہ دیکھے ہوں ۔
فاقہ کشی کے ساتھ شب بسری کا عذاب نہ جھیلا ہو۔
بے خانماں کے برباد خیمے نہ دہکھے ہوں ۔
ایسا شخص میر کارواں بننے کے قابل نہیں۔

اچھا تھوڑا اور سنتے جاؤ
منڈیوں سے غائب ہوئے آٹے کی قیمت وہی جان سکتا ہے جس کے بچے بھوک سے نڈھال ہوں ،مزدور کے خون کی قیمت وہی ادا کر سکتا ہے جس نے مزدوری کا مزہ چکھا ہو۔

ارےعقل کے دشمنو !
وہ جسم جنہیں سینت سینت کر رکھا ہو
جو ائیر کندیشن کی پیداوار ہوں
جو غم ذات اور غم کائنات سے عاری ہوں
جن کے کتے امپورٹڈ بسکٹ کھاتے ہوں
جن کی دسترخواں پر ناشتے کے ناپ پر دس طرح کے کھانے چن دئیے جاتے ہوں
وہ تمھارا رہنما نہیں ہو سکتا ۔

چند دن پھلے ایک سبق آموز واقعہ میری نظروں سے گزرا،جس میں ایک بادشاہ کسی موذی مرض میں مبتلا ہو جاتا ہے اپنے بچنے کی امید نہ پا کر وہ اعلان کرواتا ہے کہ اس کے مرنے پر جو بھی ایک رات کے لیے قبر میں لیٹے گا اسے ملک کا بادشاہ بنا دیا جائے گا ،ایک کمہار بادشاہ کی پشکش قبول کرتا ہے اور ایک رات قبر میں لیٹنے کی ہامی بھر تا ہے ۔
کچھ دن کے بعد بادشاہ کی موت واقعہ ہو جاتی ہے اور بادشاہ کے سپاہی کمہار کو ساتھ لے جا کر قبر مین لٹا دیتے ہیں۔ فرشتوں کے استفسار کرنے پر کمہار بتاتا ہے کہ وہ بادشاہ نیہں بلکہ فلاں کمہار ہے ۔فرشتے اس کا نامہ اعمال کھولتے ہیں اور چھترول شروع کر دیتے ہیں ۔کمہار چلا اٹھتا ہے اور کہتا ہے میری زندگی کی کل جمع پونجی ایک گدھا ہے ۔مجھے کیون مار رہے ہو ۔فرشتے چھترول کے ساتھ اسے بتاتے ہیں کہ
فلاں دن تمھارا گدھا بھوکا رہا ،
فلاں دن تم نے گدھے پر وزن زیادہ لادا ،
غرض ساری رات مار کھانے کے بعد جب صبح بادشاہ کے سپاہی اسے باہر نکالتے ہیں اور کہتے ہیں ہم اپنے نئے بادشاہ کو خوش آمدید کہتے ہیں
کمہار دوڈ لگا دیتا ہے اور کہتا ہے
میں ایک گدھا کا حساب نہ دے سکا اتنی بڑی رعایا کا کیسے دوں گا ؟

کاش یہ واقعہ ان حکمرانوں کی نظر سے گزرے اور انہیں احساس ہو ایک میر کارواں کی زمہ داریاں کیا ہوتی ہیں۔

حضرت عمر ؓ کی آنکھیں احساس زمہ داری سے نم ہو جاتیں اور فرماتے ۔
اگر فرات کے کنارے ایک کتا بھی بھوکا مر جائے تو اس کا جوابدہ عمر ؓ روز محشر ہو گا ۔

میر کارواں ایک احساس کا نام پے جذبے کا نام ہے ۔

سوچئے ایسا میر کارواں آپ جیسا اور مجھ جیسا شخص بھی ہو سکتا ہے ۔
لیکن زرا رکیے
اور اپنا احتساب کیجئے کہ
کہیں آپ کسی کی حق تلفی تو نیہں کر رہے ۔
کہیں رشوت جیسی برائی میں تو مبتلا نہیں ؟؟؟

کونکہ یہ فرمان ذیشان میرے تخیل میں باز گشت کرریا ہے
جیسی قوم ویسے حکمراں
جیسا منہ ویسا تھپڑ

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے