کیاصدسالہ اجتماع جوابی بیانیہ ہے؟

جمعیت علمائے اسلام کے دوسرے دھڑے کے قائدمولاناسمیع الحق کوشرکت کی دعوت نہیں دی گئ۔عسکری سوچ رکھنے والوں کوبھی نہیں بلایاگیا۔جن کے یہودی ایجنٹ ہونے کادعوی ہے انہیں بھی زحمت شرکت نہیں دی گئ۔گودیوبندکے بعض ہندوستانی اکابراورشیخ عبدالرحمان السدیس بھی نہ آسکے۔بایں ھمہ اس اجتماع کی جامعیت مستقبل کارخ متعین کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔

مولانافضل الرحمان کی دوحیثیتیں ہیں۔پہلی حیثیت یہ کہ وہ ایک مخصوص مکتب فکرکے راہنماہیں۔اس مسلک پرماضی قریب اوربعیدمیں عسکری کارروائیوں ملوث رہنے کے ٹھوس ثبوت ہیں۔ان کے مدارس جہادکشمیروافغانستان کوایندھن فراہم کرتے رہے ہیں۔اب فضاکافی بدل چکی ہے تاہم سوچ کادھارامکمل نہیں بدلا۔کیامولانااس دھارے کوبدل سکیں گے؟یہ ایک مضبوط سوال ہے۔اس بات میں کوئ دورائے نہیں کہ وہ اس دھارے کوبدل سکتے ہیں کیوں کہ اس اجتماع میں وفاق المدارس کی قیادت اکابرعلمائے دیوبنداورجملہ مہتممین ومنتظمین مدارس ان کے شانہ بشانہ ہیں۔یقینی بات ہے کہ ان کادیاہواروڈمیپ ان سب کے لیے قابل قبول ہوگا۔اپنے تورہے ایظ طرف اشرف غنی جیسے اغیارنے بھی ان سے توقعات وابستہ کرلی ہیں۔دیکھنایہ ہے کہ موقع شناسی کی بے نظیرشہرت رکھنے والے مولانافضل الرحمان اس موقع سے کتنافائدہ اٹھاتے ہیں۔

مولاناکی دوسری حیثیت ایک قومی وعالمی لیڈرہونے کی ہے۔ان سے عوام کوہی نہیں عالم اسلام اورپاکستان کے خیرخواہ ممالک بشمول چین کوبھی بڑی توقعات ہیں۔اتنے بڑے اجتماع میں اپنے سیاسی حریفوں کودعوت نہ دیناان کے سیاسی قدکوگھٹانے والااقدام ہے۔مولاناسمیع الحق اورعمران خان کے پاس توانھیں بنفس نفیس خودجاناچاہیے تھا۔عالمی سوچ رکھنے والے لیڈروسعت ظرفی سے کام لیتے ہیں۔اس حوالے سے مولاناکواپنے رویے میں تبدیلی لاناہوگی۔ان کاایک ویک پوائنٹ ایران نوازجماعت سے دوستانہ مراسم بھی ہے حالاں کہ اس وقت عالمی منظرنامے میں ایران کے توسیع پسندانہ وفرقہ وارانہ عزائم طشت ازبام ہوچکے ہیں۔

شام کے قتل عام میں اس کاکرداریوں بھی ڈھکاچھپانہیں تاہم امریکی کی شام پربم باری کی مخالفت سے یہ مزیدعیاں ہوچکاہے۔امام کعبہ کے خطبہ جمعہ سے بھی اس بات کااندازہ لگاناکچھ مشکل نہیں رہاکہ خطے میں بدامنی کاسبب ایران کے اقدامات ہیں۔اب مولاناکواس حوالے سے اپنے بیانیے میں تبدیلی لاناہوگی۔ان کی اس پالیسی کی وجہ سے انھیں اپنے آبائ علاقے میں اہل تشیع کے ووٹ تومل جاتے ہیں لیکن وہ ملک بھرسے اہل سنت کے بھاری ووٹ سے محروم بھی ہوجاتے ہیں۔کیااس اجتماع کے بعدان کابیانیہ تبدیل ہوگا۔اس سلسلے میں کچھ کہناقبل ازوقت ہے۔

ہماری مرکزی سیاست کاالمیہ یہ ہے کہ کرپشن کی بہتی گنگامیں سب نے خوب غسل کیاہے اوراس حمام میں سب ننگے ہیں۔سی پیک کی صورت میں ہم جس ملک کوراستادے رہے ہیں ان کی لغت میں کرپشن کالفظ اوران کی سرشت میں اس کاتصوربھی نہیں۔دینی قیادت بالخصوص مولانافضل الرحمان اورسراج الحق اندھوں میں کاناراجاکے تحت چین کاانتخاب ہوسکتے ہیں۔ ایسے میں دینی قیادت کواگلے انتخابات سے پہلے اپنے ووٹ کوتقسیم ہونے سے بچانے کے لیے اختلافات وذاتیات کی مشترکات کی قربان گاہ پربھینٹ چڑھاناہوگی۔ورنہ ہاتھ آیاموقع ہاتھ سے نکل گیاتومنزل مزیددورسے دورہوتی چلی جائے گی۔کاش!کہ اس اجتماع کااعلامیہ جمعیت علمائے اسلام کے تمام دھڑوں کے انضمام اورتمام دینی جماعتوں کے اتحادکی نویدلائے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے