اپنے کندھے پرعبداللہ حسین کا ہاتھ ڈھونڈ رہا ہوں۔

abduallh-hussain

تحریر :حافظ صفوان محمد

ملتان

صفوان

۔ ۔ ۔

"اداس نسلیں” میں نے 1984 میں میٹرک کی چھٹیوں میں ان دنوں چاٹ ڈالا تھا جب ابا جان نے مجھے اس کے ساتھ ساتھ میکسم گورکی کا "ماں”، فضل احمد کریم فضلی کا "خونِ جگر ہونے تک”، قرۃ العین حیدر کا "آگ کا دریا”، ہٹلر کی Mein Kampf کا ترجمہ My Struggle اور جنرل محمد موسٰی خان کی Jawan to General پڑھنے کو دی تھیں۔ اس وقت سب سے کم دلچسپ یہی کتاب لگی البتہ اس میں سے کچھ گالیاں ذہن میں چپک کر رہ گئیں۔ لیکن اس ناول میں کوئی ایسی بات ضرور تھی کہ ایف ایس سی کے بعد اسے پھر پڑھا۔ اور پھر 2006 میں اس وقت پڑھا جب عبد اللہ حسین صاحب سے ملنے کے لیے لاہور گیا۔ اردو میں کورپس ڈیٹا کی تیاری کے لیے میں نے ان کا یہ ناول منتخب کیا تھا جس پر وہ بے حد خوش تھے۔ بعد ازاں ان کی باقی کتابیں "نادار لوگ”، "آزاد لوگ”، "باگھ”، "قید” اور "نشیب” بھی اس شامل کرلی گئیں۔

جناب عبد اللہ حسین میں ایک بھرپور زندہ دل آدمی ہمیشہ موجود تھا۔ میں پہلی بار ملا تو ان سے ان کے ناول نگاری کے فن پر باتیں ہوئیں۔ چھوٹتے ہی کہنے لگے کہ آپ جیسے شریف آدمی نے اداس نسلیں پڑھ کیسے لیا اور مجھ پر کوئی فتویٰ کیوں نہیں لگایا۔ عرض کیا کہ میرا اخلاق جتنا خراب ہونا تھا وہ پہلے ہی ہوچکا ہے اس لیے آپ کی محنت کے ضائع جانے کا افسوس ہے۔ بے حد ہنسے بلکہ رہ رہ کر ہنسے۔ میں نے دو تین ناول نگاروں کی تکنیک سے ان کا موازنہ کرتے ہوئے ان کی انفرادیت کی بات کی تو کہنے لگے کہ میں Thought content پر زیادہ زور دیتا ہوں۔ میرا ماحول اور میرا کردار اپنی زبان سے بولتے ہیں۔ میں مصنوعی کردار نہیں بناتا۔

11693878_10153503032023023_2526356026078306505_n

عبد اللہ حسین تازہ تخلیقات پیش نہ کرنے کے باوجود ادبی و سماجی زندگی میں بہت فعال تھے۔ لاہور میں منعقد ہونے والی بیشتر بڑی ادبی کانفرنسوں میں تشریف لاتے۔ میں زیادہ تر انہی مواقع پر انھیں ملا۔ مختلف بڑے ہوٹلوں میں، جمخانہ میں، یونیورسٹیوں میں، غرض ہر مرکزی جگہ پر وہ موجود ہوتے۔ مجھے ہمیشہ نام لے کر بلاتے۔ میرے لیے یہ بات حیران کن رہی کہ اتنی عمر اور خراب صحت کے باوجود ان کا حافظہ اچھا ہے اور خصوصًا نام بھولنے کا عارضہ انھیں لاحق نہیں ہے۔

آواری ہوٹل میں منعقدہ ایک کانفرنس میں ڈاکٹر ڈیوڈ میتھیوز کے ساتھ بیٹھے تھے کہ مجھے قریب سے گزرتے دیکھا تو اپنے پاس بلا لیا۔ کئی باتیں ہوئیں۔ پوچھا کہ آپ کی کوئی نئی کتاب نہ آنے کا مطلب تخلیقی تھکن تو نہیں ہے۔ کہنے لگے کہ سوچنا بھی تو تخلیقی کام ہے، اور اب میں یہ کام کر رہا ہوں۔ پھر کہنے لگے کہ لکھنے والوں کو پڑھنا بھی چاہیے اور اب میں پڑھ رہا ہوں۔ پھر میرے کندھے پر ہاتھ رکھ کے کہنے لگے کہ لیکن آپ (کی عمر کے لوگوں) کو صرف لکھنا نہیں بلکہ پڑھنا بھی چاہیے۔

قائدِ اعظم لائبریری میں ایک بار کہنے لگے کہ اب جب لاہور آؤ تو مستنصر حسین تارڑ کی کی کوئی سی تین کتابیں پڑھ کر آنا۔ تارڑ کی زبان ثقافت میں گندھی ہوئی ہوتی ہے۔ ایسے ہی ایک بار کہا کہ تم لفظوں کے کھوجی ہو، کبھی "وارث” پڑھی ہے۔ عرض کیا کہ جب یہ ڈرامہ لگتا تھا تبھی دیکھا تھا۔ تاسف سے کہنے لگے کہ یہ پہلا ڈرامہ سیریل ہے جس میں پاکستان کی کئی جگہ کی بولیاں جمع ہیں۔ لفظوں کے متلاشی کو یہ ڈرامہ ضرور پڑھنا چاہیے۔

 11011797_10153503032208023_5165731035497974659_n

18592_10153503032303023_6182700453957084627_n
عبد اللہ حسین میں اپنی ادبی کارگزاریوں کا اعتراف کرانے کی کوئی حسرت یا مچلتی خواہش نہیں تھی۔ ایک خط میں مجھے لکھا کہ چند بار مجھے حکومتوں کی جانب سے پوچھا گیا کہ اگر کوئی اعزاز دیں تو کیا میں قبول کرلوں گا؟ میں نے ہر بار معذرت کرلی، اس بنا پر کہ میں کسی ایسی حکومت سے اعزاز لینا جس کے خلاف بدعنوانی کے الزامات ہوں، اپنے لیے باعثِ عزت نہیں سمجھتا۔

جناب عبد اللہ حسین سے میرا پہلا رابطہ اس وقت ہوا جب انھوں نے مشفق خواجہ صاحب پر میرا اردو مضمون The Passing of the Old Guard پڑھ کر مجھے خط میں لکھا کہ اگر آپ میرے مرنے پر ایسا مضمون لکھنے کا وعدہ کریں تو میں ابھی مرنے کے لیے تیار ہوں. ایک چھوٹے شہر کے اور ادب میں نووارد ایک آدمی کے لیے وقت کے سب سے بڑے ناول نگار کے یہ الفاظ خرد نوازی کی انتہا تھی کہ جان نہ پہچان اور ایسی تعریف۔ وہ بات بھولتے نہیں تھے لیکن آٹھ دس تفصیلی ملاقاتوں کے باوجود مجھے یہ لکھنا یاد نہیں کرایا۔ اب عبد اللہ حسین کی حسین یادیں رہ گئیں۔

جب ملتے، "آئیے حافظ جی” کہتے ہوئے سینے سے لگا کر کندھا تھپتھپاتے۔ آج میں اپنے کندھے پر ان کا ہاتھ ڈھونڈ رہا ہوں۔۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے