پیوٹن کا دہشت گردی کے لئے نرم گوشہ

سوموار کو سینٹ پیٹرس برگ کے انڈرگرائونڈ ریلوے میں ہونے والے بم دھماکے میں کم از کم چودہ افراد ہلاک اوردرجنوں زخمی ہوگئے ۔اس پر روسی حکومت کاابتدائی رد ِعمل مبہم تھا۔ اس کے فوراً بعد اگرچہ پراسکیوٹر جنرل (یہ عہدہ وزیر ِاعظم کے پاس ہے) دمتری میدویدوف اس بات کی تصدیق کرتے دکھائی دیئے کہ یہ ایک دہشت گردی کی کارروائی تھی،لیکن صدر ولادیمر پیوٹن، جو دورے پر آئے ہوئے بیلارس کے صدر، الیگزنڈر لکاشینکوسے ملاقات کرنے کے لئے اس وقت سینٹ پیٹرس برگ میںہی موجود تھے، نے بعد میںکہا کہ اس حملے کے محرکات نامعلوم ہیں۔اگرچہ تاحال روس نے اس بات کی تصدیق نہیں کی لیکن اس حملے کو دہشت گردی کی ایک کارروائی سمجھ کر ہی تحقیقات ہورہی ہیں۔

کریملن کے ریاستی میڈیا کے لئے یہ صورت ِحال ایک جنگی مشق کی سی تھی۔ واقعے کے فوراً بعد اس کی نان سٹاپ کوریج شروع کردی گئی جس میں دھماکے کا نشانہ بننے والے افراد اور مبینہ حملہ آور (بعد میں پتہ چلا کہ وہ ایک راہگیر تھا)کی تصاویر کے علاوہ ایک دوسری ڈیوائس کے بارے میں بھی بتایا گیا جس کا پتہ چلا کر پھٹنے سے پہلے ہی ناکارہ بنا دیا گیا تھا۔ اگرچہ پیوٹن نے پہلے محتاط الفاظ استعمال کئے تھے لیکن صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے تعزیتی فون کال رسیو کرنے کے بعد اُنہوںنے کہا کہ دونوں رہنمائوں نے ” دہشت گردی کے خلاف لڑنے کے لئے مشترکہ کاوش کی ضرورت ‘‘پر اتفاق کیا ہے ۔روسی وزیر ِ خارجہ ، سرگئی لوروف نے دہشت گردی کے خلاف لڑنے کے لیے مزید عالمی تعاون کی ضرورت پر زور دیا۔ جبکہ سیکرٹری آف اسٹیٹ، ریکس ٹیلرسن کا اگلے چند ہفتوں تک ماسکوکا دورہ متوقع ہے ، اور جس دوران روسی حکومت بھی بدعنوانی کے خلاف ہونے والے ملک گیر مظاہروں کی وجہ سے پریشان ہے، تو اس میں حیرت کی کوئی بات نہیں کہ سرکاری میڈیا (اور سرکاری افسران )دہشت گردی کے خلاف لڑنے کے لئے امریکہ اور روس کے تعاون اور داخلی سکیورٹی بڑھانے کی ضرورت پر زور دے رہے ہیں۔ Duma نے پہلے ہی تجویز پیش کی ہے حملے کے بعد ”کچھ دیر کے لئے‘‘ احتجاجی مظاہروںکا سلسلہ موقوف کردیا جائے ۔

روس کی موقع سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کہ مظاہروں کا سلسلہ روک دیا جائے، کے نتیجے میں مزید افواہیں جنم لیں گی کہ اس حملے کا مقصود یہی تھا۔ کریملن کے لئے ان افواہوں کو بیک جنبش ِقلم مسترد کرنا ناممکن ہوگا کیونکہ اچھی ساکھ رکھنے والے بہت سے قابل ِ احترام صحافیوں کی تحقیقاتی رپورٹس ظاہر کرتی ہیں کہ 1999 ء میں ماسکو اپارٹمنٹس میں ہونے والے بم دھماکے دراصل ایف ایس بی(فیڈرل سکیورٹی سروس) نے کرائے تھے تاکہ دوسری چیچن جنگ کی آڑ میں پیوٹن کی صدارت کی راہ ہموار کی جاسکے ۔ چنانچہ انتہا پسند تنظیموں کے خلاف کریملن کی موجودہ پوزیشن اور دہشت گرد حملوں کے پردے کے پیچھے بہت سے چونکا دینے والے حقائق موجود ہوسکتے ہیں۔

نائن الیون حملوں کے بعد سے کریملن نے دہشت گردی کے خلاف لڑنے کی واشنگٹن کی خواہش سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اس کے ساتھ تعلقات بحال کرنے کی کوشش کی ۔ جارج ڈبلیو بش دور کی انتظامیہ کے لئے ماسکو کی یہ خواہش تعلقات استوار کرنے کے لیے قائل کرنے کی کوشش، باراک اوباما انتظامیہ کے لئے ایک پھیلایا ہوا جال اور موجودہ ٹرمپ انتظامیہ ، جو سمجھتی ہے کہ دہشت گردی روس کی بجائے امریکہ کے لئے سب سے بڑا خطرہ ہے ، کے لئے ساتھ مل کر چلنے کی آرزو ہے ۔ تمام مشرق ِوسطیٰ میں استحکام کے نام پر روس اپنے فوجی اور سفارتی وسائل کو توسیع دے رہا ہے، حالانکہ اس استحکام کا مطلب دہشت گردی سے نمٹنے کی آڑ میں خطے کے بعض آمر حکمرانوں کے ہاتھ مضبوط کرنا ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ ماسکوکی استحکام لانے کی کوششوں، خاص طور پر بشار الاسد کی پشت پناہی، نے خطے کو مزید عدم استحکام سے دوچار کردیا ہے ۔ اس کے علاوہ کریملن کے کچھ انتہا پسند تنظیموں سے تعلقات کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ مثال کے طو رپر شام میں دیکھا گیا ہے کہ کریملن کا اصل ہدف داعش کے خلاف لڑنا نہیں بلکہ کسی طور پر اسد حکومت کو گرنے سے بچانا ہے ۔ روس نے لبنان کی جنگجو تنظیم ، حزب اﷲ اور ایران کے القدس دستوں کو داعش کے خلاف استعمال کرتے ہوئے کچھ علاقے واپس ضرور لئے ہیں لیکن داعش کی مکمل تباہی کی کوششیں دکھائی نہیں دیتیں۔

یہ دستاویزات بھی موجود ہیں کہ روس اور اسد نے داعش کو مختلف شکلوں میں امداد فراہم کی ، جیسا کہ اسد حکومت نے داعش سے سستا تیل خریدا، انٹیلی جنس کا تبادلہ کیااورپھر شام سے ہوکر روسی اسلحہ بھی داعش تک پہنچتا دیکھا گیا۔ مزید یہ کہ ایف ایس بی کی طرف سے داعش کو جنگجووں کی بھرتی میںمدد فراہم کرنے کی اطلاعات بھی موجود ہیں۔ اگرچہ کچھ مبصرین کا کہنا ہے کہ یہ سوچی اولمپکس سے پہلے North Caucasusکوانتہا پسندوں سے پاک کرنے کے لئے اٹھایا گیا مقامی اقدام تھا۔ اسی طرح روسی اثاثے یورپ سے داعش کی بھرتی کے لئے بھی فعال رہے ہیں۔ کریملن کو حاصل ہونے والے نتائج سے ان اطلاعات کی تصدیق ہوتی ہے ،نیز اس بات کو نظر انداز کرنا مشکل ہے کہ روسی زبان بولنے والے جہادی شام میں انتہائی اہم وقت پر نمودار ہوئے اور جنگ کو اسد کی سرزمین سے پرے، عراق میں لے گئے ۔ اس مقصد کے لیے اُنہیں انٹیلی جنس معلومات اور ابوبکر البغدادی اور دیگر جہادی رہنمائوں، جن میں سے بہت سوں کو کے بی جی نے ٹریننگ دی تھی، کی آشیر باد حاصل تھی ۔ کریملن کے شام اور عراق کی بعث پارٹی سے دیرینہ روابط کوئی راز نہیں۔ داعش کے ابھرنے سے روس کے اس بیانیے کو تقویت ملی تھی کہ اسد کے خلاف لڑنے والے کوئی متعدل باغی نہیں ۔

یہ بات بھی سب کے علم میں ہے کہ روس افغانستان میں طالبان کے ساتھ رابطے میں ہے ۔ روسی افسران کو یقین ہے کہ طالبان کی سیاسی حیثیت کو تسلیم کرتے اور اُنہیں انٹیلی جنس فراہم کرتے ہوئے اُن کے ہاتھ مضبوط کرنے سے داعش کی اس خطے میں پھیلائو کی سکت محدود ہوجائے گی۔ لیکن طالبان کے ہاتھ مضبوط کرنے کا مطلب افغانستان میں طالبان ، القاعدہ اور داعش کے خلاف لڑنے والے امریکی اور نیٹو دستوں کو نقصان پہنچانا ہوگا۔ کریملن کی طرف سے دیا جانے والا پیغام واضح ہے ۔۔۔ اگر کسی نے دہشت گرد بننا ہے تو وہ روس کی طرف جھکائو رکھنے اور اس کی سرزمین سے باہر جا کرلڑنے والا دہشت گرد بن جائے ۔

کریملن نے مغربی ممالک میں سوشل میڈیا اورریگولر میڈیاکے اندر اپنے اثاثوں کے ذریعے معلومات اور ہجرت کوایک ہتھیار کے طور پر استعمال کیا ہے ۔ اس نے معلومات کو ایک خاص نہج میں ڈھال کر اعدادوشمار کو ایک ہتھیار بنایااور مختلف حلقوں میں اپنے اہداف حاصل کئے ۔ کریملن کے مروجہ تصورات، جمہوریت اور دہشت گردی کو انتہا پسندی کی یکساں اشکال کے طور پر دیکھتے ہیں۔ چنانچہ اس پر کسی کو حیرت نہیں ہونی چاہیے کہ اُنہوںنے انتہا پسندی کو بھی اپنا ایک جنگی اثاثہ بنادیا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ دہشت گردی کی کسی بھی کارروائی کے بعد کریملن کی زیادہ عالمی تعاون کی اپیل کھوکھلی محسوس ہوتی ہے ۔

اس پیچیدگی کا کوئی سادہ جواب نہیں ہے کہ امریکہ اُس قوم کے ساتھ مل کر دہشت گردی کے خلاف کس طرح لڑے جو دہشت گردوں کو اپنے لئے ایک روایتی یا غیر روایتی جنگی ہتھیار سمجھتی ہو۔ جس طرح کریملن نے اپنا ایٹمی ڈاکٹرائن تبدیل کرتے ہوئے ایٹمی ہتھیاروں کو اب روایتی ہتھیاروں کا درجہ دے دیا ہے ، اسی طرح یہ دہشت گرد عناصر کو یورپ کے خلاف اپنی جنگ میں اپنا ایک ضروری اثاثہ سمجھتا ہے ۔ ان انواع و اقسام کے ہتھیاروں کو ترقی دیتے ہوئے پیوٹن کا روس مذاکرات کے نتیجے کو اپنی منشا کے مطابق ڈھالنا چاہتا ہے ۔ کھلے الفاظ میں، کریملن ”خراب ایکٹرز ‘‘ کے ذریعے کمزور قوموں کی بساط پر اپنے لیے اچھے نتائج چاہتا ہے ۔ جیسا کہ سینٹ کی حالیہ سماعت کے دوران یہ بات سننے میں آئی کہ روسی کو آسمان سے نہیں اترے، لیکن جب تک ہم اُن کے تمام ہتھیاروں اورحربوں ، اور اُنہیں اپنے حریفوں کے خلاف استعمال کرنے کے طریقوں کو جان نہ لیں، ہم اُن کے ساتھ کسی مذکرات یا معاہدے میں کیسے شریک ہوسکتے ہیں؟ جب روسی میڈیا میں دہشت گردی کے نئے خطرے کی باز گزشت سنائی دے تو ہمیں محتاط رہتے ہوئے دیکھنا ہوگا کہ کریملن دہشت گردی کے خطرے کے اپنے مفاد میں کس طرح ڈھالتا ہے ۔

ٹرمپ انتظامیہ کو دہشت گردی کو اہم ترین ترجیح قرار دیتے ہوئے روس کے ساتھ دوطرفہ تعلقات استوار کرنے کی خواہش کو لگام دینا ہوگی۔ سب سے پہلے تو اسے جاننا ہوگا کہ کریملن اپنے اثاثوں اور ہتھیاروں کو اپنے مفاد میں کس طرح استعمال کرتا ہے کیونکہ اس تفہیم کے بغیر جب آپ مذکرات کی میز پر بیٹھیں گے تو حیرانی آپ کی منتظر ہوگی۔ دوسری طرف یہ بھی حقیقت ہے کہ کثیر بازو رکھنے والے ایک حریف کے ساتھ نمٹنا اتنا آسان نہیں ہوتا۔ طاقتور نیٹو کا فریم ورک روسی جارحیت کے خطرے کو کم کرسکتا ہے ۔ نیز جب بھی کریملن کے حربے بے نقاب ہوئے ہیں، اس کی پوزیشن کمزور ہوئی ہے ۔

سوموار کو ہونیو الا حملہ یقینا اس کا شکار ہونے والوں کے لئے بہت بڑا سانحہ تھا، لیکن اس کی آڑ میں پیوٹن کو جواز نہیں ملنا چاہیے کہ وہ امریکہ اور نیٹو کے خلاف کارروائیاں کرنے والی انتہا پسند تنظیموں کے ساتھ اپنی شراکت داری کے سوال کو ابہام میں ڈال سکیں۔ روسی ٹیلی وژن پر دہشت گردی کے خلاف کریملن کا بیانیہ بہت متاثر کن دکھائی دیتا ہے لیکن امریکیوں کو اس افسانے کے پیچھے چھپی حقیقت کو سمجھنا ہوگا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے