جے یو آئی کا صد سالہ اجتماع، شو آف پاور 

جمیعت علماء ہند کا قیام 1919 میں عمل میں آیا اگرچہ اس وقت متحدہ ہندوستان تھا، دارلعلوم دیو بند کے شیخ الحدیث مولانا محمودالحسن اور ان کے رفقاء نے اس کی بنیاد رکھی، ابتداء میں یہ جماعت انگریز سامراج کے خلاف برسر پیکار رہی اور پھر برصغیر میں انہی علماء کی قیادت میں مدرسوں کا جال بچھایا گیا اور دین سے بیزار مسلمان جو کہ انگریزوں سے کافی متاثر تھے ان کو دین کی جانب راغب کرنے کا بیڑہ بھی انہی علماء نے اٹھایا۔

اس وقت سب سے بڑا المیہ اور مسئلہ نوجوان نسل تھی جو کہ انگریزی زبان و ثقافت سے بڑی متاثر تھی اور دینی تعلیم سے زیادہ عصری تعلیم حاصل کرنے کی خواہاں تھی یہی وجہ تھی کہ علماء نے کوشش شروع کی کہ ان نوجوانوں کی دینی تربیت کی جائے۔

انگریز کے خلاف آزادی کی جدوجہد میں دیو بند کے مولانا حسین احمد مدنی نے فیصلہ کن کردار ادا کیا اور یہ جدوجہد آزاد وطن کے لیے نہیں بلکہ متحدہ ہندوستان کے لیے کی گئی اسی دور میں ایک مسلم لیگ جداگانہ وطن کی تحریک کا آغاز کرچکی تھی۔

بات ہورہی تھی مولانا مدنی کی اس جدوجہد میں انہیں پابند سلاسل کیا گیا وہ جب انگریز کی عدالت میں پیش ہوئے تو ایک زبردست اور دھواں دار تقریر کی جس پر انگریز جج نے کہا کہ ” آپ کو معلوم ہے کہ اس بات پر آپ کو سزائے موت یعنی پھانسی کی سزا سنائی جاسکتی ہے” جس مولانا مدنی گویا ہوئے کہ ” میں دیو بند سے اپنا کفن ساتھ لیکر آیا ہوں”۔
تمام باتوں کی ایک بات کہ جمیعت علمائے ہند پاکستان بنانے کے حق میں ہرگز نہیں تھی اور ان کا مؤقف تھا کہ ہندوستان پر ایک ہزار سال مسلمانوں نے حکومت کی ہے اور اگر انگریز ہندوستان چھوڑ کے جاتا ہے تو ایک مرتبہ پھر یہاں مسلمان حکومت کریں گے۔

یہ مؤقف میری سمجھ میں نہیں آیا مگر قائد اعظم کی قیادت میں مسلمانوں نے 14 اگست 1947 کو ایک آزاد وطن قائم کردیا۔ جمیعت علمائے ہند کے اہم رہنماء قیام پاکستان کے بعد قائد اعظم کے رفیق خاص بنے جن میں علامہ شبیر احمد عثمانی کا نام سرفہرست ہے حتی کہ قائد اعظم کے انتقال کے بعد نماز جنازہ بھی انہوں نے پڑھائی مگر بعد میں بعض معاملات پر مسلم لیگ سے اختلاف کرتے ہوئے اپنی الگ جماعت تشکیل دی جس کا نام "جمیعت علمائے اسلام” کا رکھا،

شبیر احمد عثمانی کے دست راست دار العلوم دیو بند سے فارغ التحصیل عالم مفتی محمود جو کہ مولانا فضل الرحمان کے والد تھے نے بھی ان کے ساتھ عملی سیاسی جدوجہد شروع کی اور یوں پاکستان میں جے یو آئی نے اپنے سیاسی سفر کا آغاز کیا۔ 

اس سیاسی سفر میں پہلا امتحان جنرل ایوب کا مارشل لاء تھا اور جے یو آئی نے اس مارشل لاء کی کھل کر مخالفت کی اگرچہ مسٹر بھٹو اس مارشل لائی حکومت کا حصہ تھے، دوسری جانب جمیعت کے قائدین نے دوسری مذہبی جماعتوں کے ساتھ مل کر قادیانیوں کو ان کے عقائد کی بنیاد پر غیرمسلم قرار دینے کی تحریک بھی شروع کر رکھی تھی۔

1970 کے الیکشن میں جے یو آئی نے 7 نشستیں قومی اسمبلی کی جبکہ سرحد اور بلوچستان کی صوبائی اسمبلی کی بھی نشستیں حاصل کیں اور بعد ازاں صوبہ سرحد میں اتحادیوں کے ساتھ مل کر حکومت بھی بنائی اور مفتی محمود وزیراعلی بنے، اپنے دور وزارت اعلی میں مفتی محمود نے نہایت سادگی اپنائی اور صرف 9 ماہ تک صوبے کے وزیراعلی رہے اور بعد میں استعفی دے دیا۔
ایک بات جس پر آج جے یو آئی رہنماء اور ورکر خوش ہوتے ہیں کہ 1973 کے آدھے اسلامی آئین کا کریڈٹ جمیعت کو جاتا ہے، 1977 کے انتخابات میں دھاندلی کا الزام لگا کر بھٹو حکومت کا تختہ الٹانے والی جماعتوں کے اتحاد میں جے یو آئی بھی شامل تھی مگر بعد میں ضیاء کی آمریت کو جے یو آئی نے رد کر دیا۔

مفتی محمود کے انتقال کے بعد ضیائی مارشل لاء میں ہی جے یو آئی تین دھڑوں میں تقسیم ہوگئی ایک دھڑا جو کہ مولانا سمیع الحق کی قیادت میں افغان جہاد کا حامی تھا اور اس جہاد میں مجاہدین کی صورت میں افرادی قوت کے ذریعے مدد بھی فراہم کرتا رہا ،سمیع الحق اور فضل الرحمان میں اختلاف کا ذریعہ بھی یہی جہاد بنا۔

تیسرا دھڑا جمیعت کے سابق امیر عبداللہ درخواستی کے صاحبزادوں نے اس وقت بنایا جب مولانا فضل الرحمان نے جماعتی انتخابات میں امیر بننے کا فیصلہ کیا اور وہ کامیاب بھی ہوئے مگر درخواستی گروپ سیاسی منظر نامے پر نہ آسکا۔

88،90،93،97کے انتخابات میں بھی جمیعت نے کافی ووٹ حاصل کیے مگر 97 کے انتخابات میں مولانا فضل الرحمن کو اپنی نشست سے ہاتھ دھونا پڑا اور اسکی بڑی وجہ مولانا کے مقابلے میں پشتو فلموں کی معروف اداکارہ مسرت شاہین کو میدان میں اتارا گیا اور مولانا کے حلقے میں مولانا کی کردار کشی کی جاتی رہی۔

97 کے انتخابات میں ہی مولانا پر ڈیزل پرمٹ لینے کا الزام لگایا گیا جو کہ تاحال ثابت نہیں ہوسکا، مجھے یاد ہے کہ جب میں چوتھی کلاس کا طالبعلم تھا اور 97 کے انتخابات ہورہے تھے روزنامہ جنگ میں الیکشن سے قبل نادہندہ سیاست دانوں کی ایک فہرست جاری کی گئی جس میں مذہبی جماعتوں کے کسی بھی سیاست دان کا نام نہیں تھا۔

2002 کے انتخابات میں متحدہ مجلس عمل کے پلیٹ فارم سے جے یو آئی دینی طبقے کی سب سے بڑی جماعت بن کر سامنے آئی مگر مشرف کے صدارتی ریفرنڈم میں نہ ووٹ دیا اور نہ ہی مخالفت کی اور پھر لال مسجد کیس میں چپ اور 2008 کے انتخابات سے قبل استعفے جمیعت کے 2008 کے انتخابات میں خاطر خواہ نتائج حاصل نہ کرنے کا موجب بنے مگر پھر بھی کچھ نشستیں حاصل کرنے کے بعد حکومت کا حصہ رہے اور تین سال بعد اختلاف کے باعث حکومت سے علٰحدگی اختیار کرلی۔
2013 کے انتخابات سے قبل تحریک انصاف کا ڈنکا چہار جانب بجنے لگا اور ان کا مرکز خیبرپختونخوا اور پنجاب رہا ، کے پی میں تحریک انصاف نے جے یو آئی اور پنجاب میں ن لیگ کو اپنی راہ کا کانٹا سمجھا اور دونوں جماعتوں کو کھل کر تنقید کا نشانہ بنایا جس کے جواب میں جمیعت نے خان صاحب اور پی ٹی آئی پر یہودی ایجنٹ ہونے کا الزام لگایا ،2013کے انتخابات میں بھی جمیعت 2002انتخابات کے نتائج حاصل نہ کرسکی ۔

اور اب ایک مرتبہ پھر جب الیکشن الیکشن کی صدائیں بلند ہو رہی ہیں تو جے یو آئی نے دو سال قبل ہی صد سال تاسیس منانے کا فیصلہ کیا جو کہ اضاخیل نوشہرہ میں جاری ہے ،جو کہ انتخابات سے قبل ایک شو آف پاور ہے ، کیونکہ جمیعت کا اثرو رسوخ کے پی اور بلوچستان میں زیادہ ہے اور اس صد سالہ اجتماع میں زیادہ تر جمیعتی کارکنان انہی صوبوں سے موجود ہیں اور ایک محتاط اندازے کے مطابق اور جمیعت کے رہنماؤں کے بقول یہ ملکی تاریخ کا سب سے بڑا اجتماع ہے جس میں 50لاکھ افراد کی شرکت کا بھی دعوی کیا گیا ہے اب اس دعوے میں کتنی سچائی ہے یہ تو اللہ ہی جانے مگر ایک بات ضرور ہے کہ جتنی تعداد میں لوگ موجود ہیں اس افرادی قوت کا مظاہرہ آج تک کوئی بھی سیاسی جماعت نہیں کرسکی۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے