جمعیت کا صدسالہ اجتماع اورمستقبل کا منظرنامہ

جمعیت علماءاسلام پاکستان کے صدسالہ یومِ تاسیس کا اجتماع اپنے اختتام کو پہنچا۔ اجتماع میں پاکستان بھر سے لاکھوں افراد نے شرکت کی۔ 54 بیرونی ممالک سے بھی وفود شریک ہوئے۔ جمعیت علماءاسلام پاکستان کی ایک قدآور سیاسی جماعت ہے جو دیوبندی نظریات کی حامل ایک مذہبی جماعت بھی ہے مگر جمعیت کے اس صدسالہ اجتماع میں کئی منفرد چیزیں دیکھی گئیں۔ اجتماع میں جہاں اسلامی ممالک کے سفیرآئے، وہیں چین جیسے سوشلسٹ ملک کے نمائندے بھی موجودتھے۔ تمام مسالک کی مذہبی جماعتوں کے ساتھ ساتھ ملک کی لبرل اورسیکولرجماعتوں کی صف اوّل کی قیادت بھی براجمان تھی۔ شیعہ رہنما بھی سٹیج پر دیکھے گئے۔ پاکستانی اقلیتوں خصوصاًعیسائیوں، سکھوں اورہندوؤں کے رہنما بھی شریک ہوئے۔ غرضیکہ یہ اجتماع صرف دیوبندی مسلک کی جماعت کا نمائندہ نہ تھا، بلکہ مختلف مسلکوں اورمذہبوں سمیت سیکولر شخصیات کی شرکت نے اجتماع میں ایک عجیب رنگارنگی پیدا کی۔

موجودہ ملکی اور بین الاقوامی صورت حال کے تناظرمیں اس اجتماع کا انعقاد کئی جہات سے کافی اہمیت کا حامل ہے۔ دنیا میں اِس وقت مسلمانوں اور اسلام کو دہشت گرد گردانا جا رہا ہے۔ استعماری قوتیں ہر دہشت گردی کو اِسلام کے ساتھ جوڑ کر پوری دنیا میں مسلمانوں کے گرد گھیرا تنگ کر رہی ہیں۔ جمعیت کے اجتماع میں ہرقسم کی دہشت گرد کارروائی کی مذمت کی گئی۔ مولانا فضل الرحمن نے کھل کر عسکریت پسندی اوردہشت گردی کی تمام سرگرمیوں سے اظہاربرات کر کے بیرونی قوتوں کو پیغام دیا ہے کہ وہ سیاسی عمل اور پُرامن جمہوری طریقے پر یقین رکھتے ہیں اور اِنہی ذرائع کو سیاسی مسائل کے حل کے لیے ناگزیر خیال کرتے ہیں۔ اُن کا کہنا تھا کہ جنگوں کے ذریعے مسائل حل نہیں ہوتے بلکہ مذاکرات اور بات چیت ہی مسائل کے حل کا واحد راستہ ہے۔ جس سے پوری دنیا میں امن قائم ہوسکتا ہے۔ دہشت گردی کے خلاف مولانا فضل الرحمن کے بیانیہ کو دارالعلوم دیوبند کے مہتمم مولانا مفتی ابوالقاسم نعمانی کی اجتماع میں شرکت سے بھی مضبوط تائید ملی۔ جس سے علمائے دیوبند کا دہشت گردی کے خلاف ایک مشترکہ موقف طے پا گیا ہے۔ جبکہ امام کعبہ شیخ صالح بن ابراہیم کی اجتماع میں شرکت کے لیے خصوصی آمد اور دہشت گردی کے حوالے سے اُن کے بیانات اورخطابات بھی جمعیت علماءاسلام کے بیانیہ کی تقویت کا باعث بنے۔ امام کعبہ کا کہنا تھا کہ دہشت گردی اور تشدد کو اِسلام کا نام دینے والے کسی طور پر درست نہیں ہو سکتے۔ عالم اسلام کو بحرانوں سے نکالنے کیلئے عملی جدوجہد کی جائے۔

اجتماع کا ایک قابل ذکر پہلویہ بھی تھا کہ اگرچہ یہ اجتماع جمعیت علماءاسلام نے منعقد کیا تھا، مگرمولانا فضل الرحمن نے اپنے خطاب میں واضح کیا کہ میں ایک جماعت یا مسلک کا نہیں، بلکہ پورے عالم اسلام کا نمائندہ ہوں۔ اُن کا مزید کہنا تھا کہ اُن کی طرف مسلک کی بنیاد پر انگلی نہ اٹھائی جائے، وہ جب بھی بات کریں گے، پوری امت کی بات کریں گے۔ یہ ایک خوش آئند بات ہے کہ مسلکی وجماعتی اساس کی بجائے امت کی سطح پر اَپنی سوچ کا دائرہ وسیع کیا جائے جو کہ وقت کی اہم ضرورت ہے، چونکہ اس اجتماع میں دیوبندیوں کے علاوہ بریلوی، شیعہ اوراہل حدیث مکاتب فکر کے نمائندہ رہنما موجودتھے۔ اِس لیے وحدت و اِجتماعیت کو برقراررکھنے کا اعلان خوش کن ہے،مگربعض حلقے اِسے مستقبل کے منظرنامہ پر اُبھرتے ہوئے ایک نئے سیاسی اتحادکا آغاز بھی قرار دے رہے ہیں۔ اُن حلقوں کے نزدیک امیرجماعت اسلامی سراج الحق کا یہ بیان قابل توجہ ہے کہ: ”دینی جماعتیں ملک میں خلافت کے نظام پر متفق اور متحد ہیں۔ دینی جماعتوں کے اتحاد کا اختیار مولانا فضل الرحمن کو دیتا ہوں۔ میں اور میری جماعت ہر طرح کی قربانی کیلئے تیار ہے۔ “ اِس مفروضے پر خیال ظاہرکیا جا رہا ہے کہ ممکن ہے کہ آئندہ انتخابات میں مجلس عمل کی طرز ہی کا کوئی نیا سیاسی اتحاد تشکیل پا جائے۔

سابق جنرل راحیل شریف کے 39ا ِسلامی ممالک کی کمان کرنے کے حوالے سے ملک میں چہ میگوئیوں کا سلسلہ جاری ہے۔ امام کعبہ کی اجتماع میں شرکت کے بعد اُن کی وزیراعظم اورصدر سے ملاقاتوں اوراُن کے جاری ہونے والے بیانات کو دیکھا جائے تو محسوس ہوتا ہے کہ گویا امام کعبہ کے بیانات کے ذریعے بھی جنرل راحیل کی اسلامی ممالک کی مشترکہ فوج کی سربراہی کے لیے عوام کی ذہن سازی کی جا رہی ہے۔ جیسے کہ امام کعبہ نے پارلیمنٹ ہاوس کی جامع مسجد میں نماز عصر کی امامت کے بعد صحافیوں سے کہا کہ ” پاکستان عالم اسلام کا ایک اہم ملک ہے۔ جس پر عالم اسلام کی نظر ہے۔ انہوں نے کہا کہ جنرل راحیل شریف کا دہشت گردی کے خلاف اسلامی فوجی اتحاد کا سربراہ چنا جانا، پاکستان کی اہلیت کا عکاس ہے۔ “دریں اثناء ایک دوسرے بیان میں امام کعبہ کا کہنا تھا کہ ” دہشت گردی کے خلاف جنرل (ر) راحیل شریف کا کردار اہم ہے۔ راحیل شریف مسلم دنیا میں امن لائیں گے۔ “بہرحال ہماری رائے میں مشترکہ اسلامی فوج کا ہدف اگرصرف اِسلام دشمن قوتیں ہوں تو یقینا عالم اسلام کی حفاظت اوررہنمائی کا فریضہ بخوبی انجا م دیا جا سکتا ہے۔

جمعیت علماءاسلام کے اس اجتماع نے جہاں دہشت گردوں اوراَمن پسندوں کے مابین ایک مشترکہ حد فاصل کھینچ دی ہے۔ وہیں بیرونی جارحیت پسندوں کو یہ پیغام دیا ہے کہ مسلمانوں کے خلاف مظالم اورجانبدارانہ کارروائیوں کے خلاف پوری قوم یک آواز اور ہم قدم ہے۔ یہ اجتماع جمعیت علماءاسلام کی قوت کا بھرپورمظاہرہ بھی تھا۔ جس میں تمام مذاہب کی نمائندگی کا موجود ہونا، اِس امرکی نشان دہی کرتا ہے کہ مذہبی قوتیں چاہیں تو بین المذاہب اتحاد و یگانگت کے مناظرپیش کر سکتی ہیں اور منافرت کی فضا کو پیار و محبت میں تبدیل کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ نیزیہ کہ تمام مذاہب کا ایک سٹیج پر اِکٹھا ہونا، نہ صرف پاکستان، بلکہ دنیا بھر کے لیے قابل تقلید نمونہ ہے۔ ضرورت ہے کہ ایسے اجتماعات تسلسل سے انعقاد پذیر ہوتے رہیں تاکہ پاکستان داخلی طورپر بھی ناقابل شکست ہو سکے۔

اس اجتماع نے سیاسی جماعتوں اورمقتدرطبقہ پر بھی یہ حقیقت واضح کر دی ہے کہ پاکستان میں اب بھی دینی قوتیں ناقابل تسخیر ہیں۔ بغیرسرکاری وسائل کے لاکھوں افراد کو اَگر گھروں سے نکال کر اِجتماعات میں شریک کیا جا سکتا ہے تو اُنہیں احتجاج کے لیے سڑکوں پر لانے میں بھی دیرنہیں لگے گی۔ جب تک مختصر وقفوں سے ایسے اتحاد و اِتفاق پر مبنی اجتماعات کا سلسلہ جاری نہیں رکھا جائے گا اورخلوصِ نیت کے ساتھ عوام کی درست رہنمائی اورذہن سازی نہیں کی جائے گی۔ ایسے تاریخ سازاِجتماع کے اثرات بھی وقتی اورعارضی ثابت ہوں گے۔ فروعی اختلافات، لسانی اورصوبائی تعصبات اور وقتی سیاسی مفادات کی بجائے اگر اِجتماعی مفادات اورقوم وملک کی خدمت کا جذبہ مقدم ہوتو اِنقلابی تبدیلیوں کا رُونما ہونا ناگزیر ہے۔ وگرنہ یاد رہے کہ اختلافات واِنتشار، گروہی سیاست کے مکروہ دھندے اورحب جاہ اورشخصی تسلط کے منفی ارادے ملک میں تباہی و بربادی کے سوا کچھ نہیں لاسکتے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

تجزیے و تبصرے