خورشید ندیم اور مولوی؟

السلام علیکم ،
وعلیکم اسلام
ان سے میری ملاقات مسجد کے باہر ہوئی،وہ نوافل سے فارغ ہو کر ملے،بڑے قابل علمی نیک صوفی آدمی تھے
بولے:یار آپ لوگ کیوں عوام کو مولویوں سےبد ظن کرتے ہیں
میں نے کہا:قصدا نہیں کرتے واللہ۔کیوں کون بد ظن ہو گیا،
کہنے لگے:آج خورشید ندیم نے لکھا ہے کہ جو کچھ ہو رہا ہے مولویوں کی وجہ سے ہو رہا۔
میں نے کہا:یہی جملہ پورے کالم میں دہرایا گیا ہے یا ساتھ کوئی استدلال بھی ہے۔
کہنے لگے:وہی پرانا استدلال ہے۔
میں نے کہا :تو آپ کا جواب کوئی نیا ہے؟

کہنے لگے:یار آپ امریکہ اور استعماری طاقتوں کا نام کیوں لیتے ڈرتے ہیں موجودہ حالات کے اصل ذمے دار تو وہ لوگ ہیں۔
عرض کیا:آپ امریکہ کو گالیاں لکھ دیں میں اپنے نام سے چھاپ دوں گا۔لیکن کالم میں جو سوالات تھے ان کا جواب بھی امریکہ سے جاکر لوں ؟
فرمانے لگے:فقہا کا نقطہ نظر تو امت کا متوارث علم ہے،ہمیشہ سے رہا ہے ،موجودہ مسائل تو گیارہ ستمبر کے بعد سے سامنے آۓ۔
میں نے کہا:تو تمام مسائل کی جڑ اگر آپ کے نزدیک گیارہ ستمبر ہے؟تو کبھی اس پر غور کیا کہ کون لوگ یہ دعوی کرتے ہیں کہ ہم نے کیا ،اور کون اس پر خوش ہوتا ہے اور کیوں ہوتا؟
انھوں نے کہا:امریکہ نے ویت نام پر اتنا ظلم کیا،اس پر آپ تحقیق نہیں کرتے ،گیارہ ستمبر کے پیچھے کون تھا اس کی تحقیق کا بہت شوق ہے آپ لوگوں کو۔
عرض کیا:تو آپ اس سوال کا کیا جواب دیں گے کہ گیارہ ستمبر کا حملہ کرنے والے قرآنی آیات سے استدلال کرتے تھے۔
انھوں نے کہا:قرآن نے خود کہا ہے بہت سے لوگ اسے پڑھ کر گمراہ ہو جاتے ہیں۔
میں نے کہا تو کیا آپ ان سب لوگوں کو گمراہ سمجھتے ہیں جو کفر کی شوکت کے خاتمے کو دین کا تقاضہ سمجھتے ہیں
انھوں نے مسکراتے ہوئے میرے ہاتھ کو زور سے پکڑا اور کہا حسن بھائی اس پر پھر بات کریں گے اور ہنستے ہنستے چلے گئے ۔
میں نے سوچا کیا فائدہ اس سب گفتگو کا،میں جو کہنا چاہ رہا تھا وہ اسے سمجھنے کے بجائے اس ہر وہ ھنسنے لگے ،کہ سامنے آئس کریم کی دکان نظر آئی سوچا دماغ ٹھنڈا کرتا ہوں،داخل ہوا تو کیا دیکھتا ہوں کہ آگے وہ بیٹھے ہیں،دور سے کہا السلام علکیم بھائی ،کیا حال ہیں غامدی صاحب کیسے ہیں؟
عرض کیا اللہ کا شکر آپ دن کے اوقات میں یہاں یونیورسٹی نہیں گئے آج ؟
کہا:نہیں،آج دل نہیں چاہ رہا تھا
میں نے کہا:چلیں اچھی بات ہے آئیں آئس کریم کھاتے ہیں
وہ بولے :یار وہ تو کھاتے ہیں لیکن یہ بتاو تم لوگ دین کی مشکل بحثوں کو خود سے آسان کیوں کرتے ہو؟
میں نے بات شروع کی کہ ویٹر آگیا اور کہنے لگا آڈر سر:کہا بھائی روغن بادام میں محلل حلیب تازہ کی خنک ملائی لادو ،ہاں دو لانا۔
ویٹر بولا:سر یہ نہیں ہمارے پاس۔
میں کہا:اچھا باہر تو لکھا ہے ملتی ہے۔
یونیورسٹی والے صاحب میری بات کاٹتے ہوئے بولے یار سادہ الفاظ میں کہو آئس کریم کھانی ہے ۔
عرض کیا :یہ سادگی صرف آئس کریم کے معاملے میں کیوں درکار ہے؟

انھوں نے ویٹر کو رخصت کر کے کہا:ارے وہ علمی نقطہ تھا ،ہمارے علمااور فقہا نے دلالت کی اقسام پر درجنوں ابواب میں بحث کی ہے ،آپ لوگ اس علمی تراث کو ایک طرف رکھ کر دو جملوں میں بات کہہ دیتے ہو۔
عرض کیا یہ علما اور فقہا کا دوسرا نام اگر دین ہے ،تو آپ کا الزام صحیح ہے ،ہم اس جرم کا ارتکاب کرتے ہیں ،روز کرتے ہیں ،اس لیے کہ ہمارے نزدیک دین کو سمجھنے کا حق جس طرح ان کو تھا ہمیں بھی ہے ،جب ہم نے اسے سمجھا تو اسے اپنی ذات میں آسان پایا اس لیے روغن بادام میں حلیب تازہ کی خنک ملائی بنانے سے بچ گئے۔
وہ کہنے لگے پھر آپ لوگ ان کے استعمال کیے گئے الفاظ کس سے پوچھ کر استعمال کرتے ہیں؟
عرض کیا:انھوں نے کس سے اجازت لے کر استعمال کیے تھے۔عربی کے الفاظ تھے یا خود دریافت کیے تھے جو کاپی رائٹ ہے ان کا؟
آئس کریم آگئی ،ویٹر مجھے دیکھ کر ھنس رہا تھا لیکن وہ بالکل نہیں ھنس رہے تھے،کہنے لگے ،یار یہ خورشید ندیم بہت بے دھیان ہو گیا ہے ،
کہا :اچھا پہلے تو نہیں تھے کیا ہوا؟
بولے:آج کالم میں ایسے الفاظ لکھے جن پر نقطے حد سے زیادہ تھے ،حد کردی اس نے،اتنے نقطے تھے کہ ان کے بوجھ تلے آکرکئی لفظوں کے پرخچے تک آڑ گئے۔
میں نے کہا:میں آپ کا شکوہ ان تک پہنچاوں گا کہ آیندہ دھیان کریں یعنی میرا مطلب ہے کہ یہ جو "گویا” بے دھیانی ہے "البتہ” اسے ختم کریں لیکن نقطوں کےعلاوہ کوئی نکتے بھی پڑھے اس میں،سنا ہے۔پورے دس تھے۔
کہنے لگے وہ جو نکتے تھے ان سے جو نتائج نکالے انھوں نے وہ ان کے اپنے مفروضے ہیں کہ ان کی وجہ سے دہشت گردی ہوتی ہے۔
عرض کیا :گویا آپ اطلاق میں ان سے اختلاف رکھتے ہیں ،اصول میں ان کے سوالوں کو درست سمجھتے ہیں،تو ان کے سوالوں کا کیا جواب ہے ،کیا علما ان کے دس نکات کو خود پر الزام سمھجتے ہیں۔
وہ بولے:یار آپ ہر چیز علما پر کیوں ڈال دیتے ہیں،علما کیوں آپ کی ہر بات کا جواب دیں۔
پوچھا تو پھر جواب کس سے لیں؟
کہنے لگے سب جوابات موجود ہیں امام سرخسی نے تفصیل سے اس پرکلام کیا ہے۔
پوچھا تو وہ کیا ہے؟
کہا:جو بھی ہوں آپ فقہا کو تومانتے نہیں ،پھر ان کا جواب جان کر کیا کریں گے۔
عرض کیا دنیا کو بتائیں گے
بولے یعنی دنیا کوبدظن کریں گے فقہا سے؟
مجھے یاد آیا یہ جملہ تو کچھ دیر پہلے بھی میں نے سنا تھا،
لھذا اس بار میں نے ھنستے ہوئے ان کے ہاتھ پر ہاتھ مارا ،آخری چمچ لیا اور کہا آئس کریم میری طرف سے اور پیسے دے کر نکل آیا۔
اب دماغ ٹھنڈا بھی تھا ،گرم بھی
سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کیا کروں

میں نے کہا کوئی نہیں واک کرتے ہیں ،اس سے آدمی ریلکس ہوتا ہے۔چل رہا تھا کہ ایک چمچاتی گاڑی نے پاس بریک لگائی اور آواز آئی:ارے نیچے آوگے کیا ،ملیشیا سے کب آئے آجاو بیٹھو، میں ان کے اس مغلیہ سواری میں بیٹھ گیا۔
ڈیش بوڑد پر سرمایہ دارانہ نظام کے ابطال کی دو کتابیں پڑی تھی ،جو تنویری ڈسکورس میں اس فتنہ کی سرکوبی پر لکھی گئیں تھی۔اور لوگوں کو بتا رہی تھیں کیسے یہ نظام چمچماتی چیزوں کی لالچ دے کر آپ کے جیب سے آخری چوننی بھی چھیں لیتا ہے۔
عرض کیا:خیریت سے ہیں،دنیا چھوٹی ہے آج آپ سے بھی ملاقات مقدر تھی۔
کہنے لگے:ارے میں تمھیں صبح ہی یاد کر رہا تھا وہ خورشید ندیم کا کالم دوست نے دکھایا،میں نے دیکھتے ہی بغیر پڑھے اس کو بتا دیا اس میں کیا ہوگا،
میں نے شرارتا عرض کیا:بھائی معیشت وعیشت چھوڑ کر نجومی بن گئے ہیں!
کہنے لگے نہیں یار ،تم لوگ ایک ہی بات لکھتے ہو!میں نے بعد میں دیکھ لیا تھا
لیکن یہ بتاو یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ کوئی آدمی ان دس باتوں کو مانتا ہو پھر بھی پر امن ہو تو منطقی طور پر وہ کیوں ان سوالوں کا جواب دے؟وہ آدمی تو دہشت گرد نہیں ہے۔

عرض کیا:وہ اگر ان سوالوں کو نظریاتی طور پر صحیح تسلیم کرتا ہوں گا تو بھائی کہیں بیان کرتا ہوگا یا اس سےپوچھ لیا جائے تو تسلیم کرتا ہوگا،خود عمل نہیں کرتا تو ترغیب دیتا ہوگا ،ترغیب نہیں دیتا ہوگا تو ایسے لوگوں کو روکتا نہیں ہوگا جو ان عزائم کو پورا کرنے کی جدوجہد کررہے ہیں ۔تو خورشید ندیم کا سوال تو یہ ہے کہ اگر وہ تسلیم کرتا ہے تو سامنے آکے دلائل دے ۔کہاں بیان ہوا دین میں اس کا یہ نقطہ نظر !

وہ بولے یہ دین تم یا خورشید ندیم بتاو گے یا چودہ سو سال سے جو علما بتا رہے ہیں وہ دین نہیں ہے؟
مجھے ایک منٹ کے لیے لگا جیسے یہ بات بھی پہلے کہیں ہو چکی ہے لیکن یاد نہیں آرہا تھا کہاں مسجد کے باہر یا آئس کریم کھاتے ہوئے تو میں تنگ آکر کہا:مطلب آپ ان سوالوں کے جواب کو امت کے علما کے فہم کے مطابق اثبات میں سمھجتے ہیں؟
وہ بولے:بھائی میں نے یہاں سے دوسری طرف مڑنا ہے ،میسج کرنا اپنا نمبر، پھر ملیں گے، سگنل کھل رہا ہے جلدی اترو ،یہاں ،یہاں سائڈ پر۔۔۔۔۔۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے